خواتین، معاشرہ اور حقیقت۔

خواتین کسی بھی معاشرے کا اہم جز ہوتی ہیں۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس معاشرے کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ نہ چل سکیں۔ خواتین معاشرے کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ کبھی انہیں گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی ان کو ان کے آفسز میں ہراساں کیا جاتا ہے۔ صرف یہ ہی نہیں قبائلی علاقوں اور دیہاتوں میں ابھی بھی "وننی" اور "خون بہا" جیس لانعتین زندہ ہیں جو نہ جانے کتنی زندگیاں برباد کر چکی ہیں۔

صرف دیہاتوں میں نہیں بلکہ شہروں میں بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ جس کی تازہ مثال کراچی میں رونما ہوا ایک ایسا دل سوز واقع ہے جس کو سوچ کر ہی انسانیت سے یقین اٹھ جاتا ہے۔ کہ کیسے مسیحا حیوان بن جاتے ہیں, جان بچانے والے ہی جان لے لیتے ہیں۔ کیسے ایک معصوم لڑکی کی عصمت دری کی جاتی ہے اور اسے کس طرح بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے.....۔۔۔ کیا اب خواتین ہسپتالوں میں بھی محفوظ نہیں رہیں؟ اس ہی طرح کے اور بھی دل سوز واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔۔۔

خواتین۔۔۔ جن کو لے کر ہماری سوچ کسی حد تک گھر میں موجود کسی فالتو چیز جیسی ہی ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ خواتین کیا کر سکتی ہیں؟ میرا ان سب کو ایک ہی جواب ہے کہ جو عورت ایک مرد کو پیدا کر سکتی ہے وہ عورت کجھ بھی کر سکتی ہے۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے مگر وہ پھر بھی ایک مظبوط چٹان کی طرح حالات کا سامنا کرتی ہیں۔ اللّٰہ پاک نے صرف خواتین کو یہ صلاحیت بخشی ہے کہ وہ وقت آنے پر ایک بیٹے اور ایک باپ کا کردار بخوبی ادا کر سکتی ہیں۔ وہ وقت آنے پر مشکل سے مشکل کام کر سکتی ہیں۔ لیکن افسوس کہ جو حقوق خواتین کو اسلام نے دیئے ہیں آج چودہ سو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی انہیں ان کے حقوق کی ادائیگی میں دشواری کا سامنا ہے۔ یہاں خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ اور خواتین کو اس طرح کا ماحول بھی ہمارے معاشرے نے دیا ہے۔ ہر جگہ انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ پھر چاہے وہ گھر کی چار دیواری ہو یا وہ جگہ جہاں وہ کام کرتیں ہوں۔

میرا سوال ان سب کے لئے ہے کہ آخر کب تک خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جائے گا؟ کب تک تحفظ کے نام پر گھریلو تشدد کیا جائے گا؟ کب تک عصمت دری کے واقعات رونما ہوتے رہینگے؟ آخر کب خواتین اپنے حق کی ادائیگی کے لیے آواز اٹھائیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر کب تک؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Al Huda iqbal
About the Author: Al Huda iqbal Read More Articles by Al Huda iqbal: 3 Articles with 2275 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.