تربیت اور ترقی

مرزا اسد اﷲ خان غالب ؔ فرماتے ہیں۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
انسان ہزاروں خواہشات کا مالک ہوتا ہے جن میں ترقی کسی نہ کسی صورت میں شامل ہوتی ہے۔ایک چھوٹی سی دکان کے مالک کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کا کاروبار پھلے پھولے اور وہ بڑے جنرل سٹور کا مالک بن جائے۔ ایک چھوٹے کسان کے ذہن میں ہمہ وقت بڑا زمیندار بننے کی خواہش پروان چڑھتی رہتی ہے۔ یہی حال ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ا فرادکا ہوتا ہے۔ سرکاری ، نیم سرکاری یا نجی کسی بھی ادارے کا ملازم ہو، وہ اگلے گریڈ میں ترقی کا خواہاں اور منتظر رہتا ہے۔ پس ہر انسان کی سرشست میں ترقی کی خواہش کا عنصر شامل رہتا ہے۔یہ بھی عموماً دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر خواہشات انسان کو حریص بھی بنا دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر معاشرتی بُرائیوں کا مؤجب بھی بنتی ہیں۔ تاہم انسان میں اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کے بل بوتے پر آگے بڑھنے (ترقی ) کا جذبہ ہونا چاہیے۔ باالفاظ ِ دیگر خوب سے خوب تر کی جستجو جاری ہونی چاہیے۔ بقول مولانا الطاف حسین حالیؔ۔
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں

ہمارا تعلق ایک اعلیٰ تعلیم کے ادارے سے ہے۔ جہاں ترقیاں تربیت کے ساتھ مشروط ہیں، یعنی ترقی کے لئے تربیتی پروگرام میں شرکت لازمی ہے لیکن بد قسمتی سے فنڈز کی کمی کی وجہ سے تربیت کا یہ عمل سست روی کا شکار ہے اور بے شمار اساتذہ ابھی تک ترقیوں سے محروم ہیں۔ تربیت کی افادیت اور اہمیت سے متعلق سورۃ المائدہ میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ’’ تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لئے حلال ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں اور وہ شکار بھی حلال ہے جو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا(تربیت ) رکھا ہواور جس طریق سے خدا نے تمہیں شکار کرنا سکھایا ہے اس طریق سے تم نے ان کو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑیں اس کو کھا لیا کرو اور شکاری جانوروں کو چھوڑتے وقت خدا کا نام لے لیا کرو اور خداسے ڈرتے رہو۔ بے شک خدا جلد حساب لینے والا ہے ۔ ‘‘

کالج اساتذہ کی تربیت کے لئے اعلیٰ تعلیم کی اکیڈمی برائے تحقیق و تربیت بنائی گئی ہے۔ تربیت کے حوالے سے ہم نے ایک ماہ اکیڈمی ، حیات آباد پشاور میں گزارے۔ یہی وجہ کالم لکھنے میں تاخیر کا سبب بنی۔ بقول شاعر۔ ’’ہوئی تاخیر تو کچھ باعث ِ تاخیر بھی تھا ‘‘۔ اس تربیتی پروگرام کے شرکاء صوبہ خیبر پختون خوا کے مختلف کالجوں میں تعینات چالیس اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔ جو اپنے اپنے مضامین میں کمال مہارت کے حامل تھے۔ شرکاء میں سے بیس فیصد ڈاکٹریٹ ڈگری اور اس سے دگنا ایم فل یا پی ایچ ڈی اسکالر تھے۔ پس شرکاء ایک ایسے گلدستے کی مانند تھے جس کی خوب صورتی اور خوشبو اکیڈمی میں چار سُو نظر اور محسوس ہوتی تھی۔ آج کا کالم وہاں کے شب و روز پر محیط ہے۔ تربیتی پروگرام کا روزانہ کا دورانیہ صبح نو بجے سے سہہ پہر پانچ بجے تک ہوا کرتا تھاجو مختلف سیشنوں کا مجموعہ ہوتا تھا۔ پہلے سیشن کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک اورآیات کریمہ کے ترجمے سے ہوتا تھا، عموماً اس کی سعادت کا شرف محمد طیب زعفرانی کو حاصل ہوتا تھا۔ اس کی خوش الحان آواز نہ صرف کانوں میں رَس گھولتی بلکہ آیات کریمہ کا سلیس ترجمہ ذہنوں میں نقش ہوجاتا ۔ اس کے بعد وارم اَپ ایکٹیویٹی ہوتی جس میں تین شرکاء اپنے کسی پسندیدہ موضوع پر دس دس منٹ کا لیکچر دیتے اور اختتام پر سوالات و جوابات ہوتے۔ اس ایکٹیویٹی کے بعد ریسورس پرسن کو مدعو کیا جاتا جو کہ دو گھنٹے شرکاء کی تدریسی ، علمی ، انتظامی اور تحقیقی امور میں استعداد بڑھانے کے حوالے سے پڑھاتا۔ چائے کا وقفہ آدھ گھنٹہ ہوتا جس کے بعد ریسورس پرسن اپنے سلسلے کو جاری رکھتا۔ یہ ایک انٹریکٹیو سیشن ہوا کرتا جس میں زیادہ تر سوالات و جوابات ہوتے، اس کے علاوہ ریسورس پرسن اپنے فیڈ بیک کے لئے پوسٹ ٹیسٹ یا گروپ مباحثوں کا اہتمام کرتے۔ آخری سیشن تین سے پانچ بجے تک ہوتا جس کو آف سیشن کا نام دیا گیا تھا۔ اس میں کمپیوٹر کی مہارتوں کا علم دیا جاتا۔ اس کے علاوہ اکیڈمی کی جانب سے دیئے گئے موضوع پر گروپ ڈسکشن ہوتی یا تحقیق کے حوالے سے سنڈیکیٹ منعقد ہوا کرتا۔

یہ تھیں دن بھر کی مصروفیات کا مختصر احوال ، اس کے علاوہ اکیڈمی انتظامیہ شرکاء کو تحقیق ، کمیونٹی سروس پراجیکٹ ، تبصرہ کتب جیسی سرگرمیوں میں مشغول رکھتی۔ اور سب سے خوف ناک سرگرمی امتحان تھی جس میں پاس ہونے کے لئے چالیس فیصد نمبرات حاصل کرنے کا معیار تھا۔ بقول ڈاکٹر یونس بٹ۔ میں امتحان سے نہیں ڈرتا بلکہ اس کے نتیجے سے ڈرتا ہوں۔ یہی حال تربیتی پروگرام کے شرکاء کا بھی تھا۔ امتحان کے نتیجے کے ڈر سے رات گئے تک لیکچروں کی دہرائی کرتے۔ اکیڈمی کے حوالے سے صرف اتنا لکھوں گا کہ وہاں کی محدود انتظامیہ اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے بڑے منظم انداز سے تربیت کا اہتمام کراتے ہیں۔ البتہ حکومت سے درخواست ہے کہ وہ اکیڈمی کے لئے اتنا بجٹ ضرور مختص کریں جس سے تربیتی عمل میں رکاؤٹ نہ آئے اور کالج اساتذہ کی ترقیوں کا عمل جاری و ساری رہے جو کہ کالج اساتذہ کا ایک دیرینہ مطالبہ بھی ہے۔

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 205 Articles with 265365 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.