بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہٗ ونصلی و نسلم علٰی رسولہ الکریم
انسانی معاشرے ہمیشہ تعلیم و تربیت اور اخلاقِ حسنہ سے عروج اور استحکام
حاصل کرتے رہے ہیں…… معاشرے کا امن، خوشحالی اور استحکام کا راز‘ علم، عمل
اوراچھے اخلاق ہی میں پوشیدہ ہے…… اخلاقِ حسنہ کی اسی اہمیت کے پیش نظراﷲ
رب العزت نے اپنے محبوب کریم ﷺ کو خُلقِ عظیم کے اعلیٰ درجہ پر فائز
فرمایااور پھر قرآن کریم میں اعلان فرمایا، ارشاد فرمایا:
اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ
’’یعنی ‘بے شک اے محبوب! آپ خُلقِ عظیم پرفائز و قائم ہیں‘‘۔
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے حضرت سعد بن ہشام بن عامر
رضی اﷲ عنہ نے پوچھا کہ ہمارے آقا رسول کریم ﷺ کے اخلاق حسنہ جن کی تعریف
قرآن مجید میں کی گئی ہے، وہ کیا ہیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے
جواب میں حیرت سے ان سے پوچھا :
’’ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ! ‘‘
انہوں نے عرض کیا کہ پڑھتا تو ہوں……
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا :
’’سارا کا سارا قرآن حضور اکرم ﷺ کا خُلق ہی تو ہے‘‘
یعنی قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے اخلاق حسنہ، خصائل حمیدہ، فضائل کریمہ اور
انسان کی عادات شریفہ کا جو جو ذکر، جز، گوشہ اور پہلو بیان کیا ہے،اگر تم
ان ساری خوبیوں کے عملی پیکرِ اتم کو دیکھنا چاہو تو اس ذات کا نام نامی
اسم گرامی حضرت محمد مصطفی ﷺ ہے…… اﷲ رب العزت کے بیان کردہ اخلاق حسنہ کو
اگر تعلیمات کی شکل میں دیکھنا ہو تو اس وجود کا نام قرآن کریم ہے اور اﷲ
کے تعلیم کردہ اخلاق اور خصائل حمیدہ کو اگر ایک انسانی پیکر اور شخصی ماڈل
کی صورت میں دیکھنا چاہو تو اس کا نام نامی حضرت محمد مصطفی ﷺ ہے……خود حضور
اکرم ﷺ نے بھی اخلاق حسنہ کی ترویج و فروغ کو اپنی منصبی ذمہ داری قرار
دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’مجھے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘
یعنی‘ میری بعثت اس لیے ہوئی ہے کہ میں کائناتِ انسانی میں اخلاق حسنہ کے
فضائل کو کمال اور عروج پر پہنچادوں……اخلاق حسنہ‘ انسان کی خوبیوں اور
اعلیٰ فضائل و خصائل میں سے ایک ایسا اعلیٰ مرتبہ، اعلیٰ رویہ، اعلیٰ طرزِ
فکراور ایک ایسا طرزِ عمل ہے جو دنیا کے تمام انسانی معاشروں میں بغیر
انقطاع قائم و دائم رہا اور اسی پر ہمیشہ سب کا عمل رہا ہے…… ہر دور میں
اخلاق حسنہ کی نہ صرف پذیرائی ہوئی بلکہ ہر دور کا انسان اخلاق حسنہ کی
عظمت سے متاثر ہوتے ہوئے اس کا معترف بھی رہا ہے……اب جوں جوں انسانی
معاشرے، انسانی عقل، ادراک، نظریات اور تصورات ترقی کرتے جارہے ہیں، اسی
طرح معاشرے کی ارتقاء پذیری کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار بھی بلند ہوتی جا
رہی ہے…… بلاشک و شبہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت جہاں توحید،
رسالت اور آخرت کی بنیادی تعلیمات پر مشتمل تھی، وہیں ہر پیغمبر کی دعوت کا
مرکزی نقطہء اخلاق حسنہ بھی تھا…… ہر پیغمبر کی اپنی شخصیت اور اسوۂ مبارکہ
کا مرکز و محور اخلاق حسنہ اور اعلیٰ اخلاقی اقدارہی تھے، جن سے انسانیت کو
حسنِ کامل اور اپنے مراتب میں بلندی ملتی رہی اور حضور اکرم ﷺ نے اسے بام
عرج پر پہنچایا۔
حضور اکرم ﷺ نے انسانیت کو اخلاق حسنہ کے ہزارہا گوشوں کی تعلیم دی…… انہیں
اپنی عملی زندگی میں سمویا اور ان کے ذریعے اپنے اسوۂ حسنہ اور شخصیت کو
فکری، علمی اور عملی طور پر انسانیت کے سامنے پیش فرمایا…… اس میں کوئی شک
نہیں کہ حضور اکرم ﷺ اخلاقِ حسنہ کا نمونہء کامل اور پیکر اتم بن کر کائنات
ِخلق اور اُفقِ انسانیت پر ظہور پذیر ہوئے اور اپنے اخلاق حسنہ سے تاریک
دلوں کو منور و تاباں فرما دیا ۔
حضور اکرم ﷺ نے اپنے اخلاق حسنہ سے انسانیت کو حلم، بردباری، تحمل، عفو و
درگزر اور صبر و استقلال کی تعلیم دی …… جس سے انفرادی و اجتماعی سطح
پرمعاشرہ میں تحمل و برداشت جنم لیتا ہے…… اسی تحمل و برداشت کے ذریعے
معاشرہ کے اندراعتدال و توازن آتا ہے…… یہی رویہ انسانوں اور معاشروں کو
پُرامن بناتا اور انتہا پسندی اور دہشت گردی سے روکتا ہے……جس معاشرے میں
تحمل اور برداشت کا جوہر ہو‘ ایسا معاشرہ ہی انسانیت کے لیے خیر اور فلاح
کا باعث بن سکتا ہے۔
حضور اکرم ﷺ کے اخلاق حسنہ میں سب سے اعلیٰ ترین پہلو ایک طرف تحمل، عفو و
درگزر اختیار کرنا تھا اور دوسری طرف ناپسندیدہ اور شدید مصائب و آلام کے
حالات میں صبرو استقامت اختیار کرنا تھا……اﷲ کریم نے حضور اکرم ﷺ کو یہ
آداب و اخلاق خود سکھائے……چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا :
’’اے حبیب ! آپ درگزر فرمانا اختیار کریں اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور
جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں‘‘۔
یعنی‘ اگر بداخلاق اور ناروا سلوک کرنے والے لوگ آپ سے زیادتی کریں تو آپ
ان سے کنارہ کرلیں……روایات میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور اکرم
ﷺ نے جبریل امین سے کہا کہ اس میں اﷲ کی کیا منشاء ہے؟ اس پر حضرت جبریل نے
عرض کیا : یارسول اﷲ! میں خود کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک میں پیغام بھیجنے
والے سے اس کا معنی دریافت نہ کرلوں…… چنانچہ حضرت جبریل‘ اﷲ سے اس آیت کا
معنی پوچھ کر آئے اور عرض کیا کہ :
’’یارسول اﷲ! اﷲ تعالیٰ اس آیت کے ذریعے آپ سے فرماتا ہے کہ آپ اس شخص کوجو
آپ پر زیادتی کرے، معاف فرمادیں اور جو شخص آپ کو محروم رکھے، آپ اس کو عطا
فرمائیں،اور جو شخص آپ سے رشتہ منقطع کرے، آپ اس سے صلہ رحمی فرمائیں‘‘۔
چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ حضور اکرم ﷺ مظالم اور مصائب پر صبر فرماتے، خاموش
رہتے اور ظلم کرنے والوں کے لیے بددعا بھی نہیں کرتے بلکہ ان کی ہدایت کی
دعا فرماتے رہے……وہ لوگ جو آپ کی جان کے درپے تھے، ان کو ان سارے مظالم کے
باوجود یہ کہہ کر دعا دیتے رہے کہ باری تعالیٰ یہ میری قوم ہے، ان کو معاف
کردے، ان کو ہدایت عطا فرما دے ……اور پھر ان کی طرف سے معذرت کے اظہار کے
بغیر از خود اﷲ کے حضور عرض کرتے ‘ کہ باری تعالیٰ انہیں اس لیے معاف کردے
کہ یہ مجھے پہچانتے نہیں ہیں،یہ مغالطے، بدگمانی اور بدعقیدگی میں مبتلا
ہیں، اس لیے بد زبان و بد عمل اور بدعقیدہ ہیں، اگر مجھے پہچانتے تو ایسا
نہ کرتے۔
اﷲ اکبر !
ایسا اخلاق حسنہ انسانی تاریخ میں کسی کا ہوا ہے اور نہ ہوگا کہ کوئی اپنے
دشمنوں سے بدلنا لینا تو کجا‘ ان کے لیے دعا خیر کرتا ہو…… حضور اکرم ﷺ کے
در گزر اور اعلیٰ اخلاق حسنہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہی لوگوں کی نسلوں نے
نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ اسلام کے لیے اپنی جانیں تک قربان کر نے لگے۔
حضور اکرم ﷺ کے اخلاق حسنہ اور اسوۂ مصطفی ﷺ کا یہ حسین پہلو دلوں میں
بسانے کے لائق ہے!…… اگر ہم اپنے گھربار ، بیوی بچوں ، دفتر وکاروبار‘وغیرہ
ہرجگہ اور ہر مقام پراخلاق حسنہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے عفو و در گزر سے کام
لیں تو سخت سے سخت انسان کو زیر کیا جا سکتا ہے…… ہمیں آج اس امر پر غور
کرنا ہوگا کہ ہمارے آقا و مولیٰ کریمﷺ کا اسوۂ حسنہ کیا تھا ، ان کا اخلاق
حسنہ،ان کی سیرت،ان کا طرزِ عمل، ان کا طرزِ معاشرت اورلوگوں سے رویہ
کیااور کیسا تھا……بحیثیت اُمتی ہمیں یہ کوشش کرنا ہوگی کہ ہم حضور اکرم ﷺ
کے طرزِ عمل اور اخلاق حسنہ کا یہ عکس اپنی زندگیوں میں پیدا کرسکیں……یاد
رکھیں اگر اس کا ہلکا سا عکس بھی ہماری زندگیوں میں آجائے تو ہماری زندگی
سے شر کا خاتمہ ہوکر خیر کے چشمے پھوٹ پڑیں گے…… پریشانیاں راحت میں بدل
جائیں گی اور آسودہ حالی خوشحالی میں تبدیل ہوجائے گی…… مولیٰ تعالیٰ ہمیں
اخلاق حسنہ کا پیکر اور متبع سنت بنائے۔آمین |