بگاڑ ایک دم سے پیدا نہیں ہوتاہے برسوں کی غفلت ہمیں
تباہی کے دروازے پر لا کھڑا کرتی ہے۔
مشورہ لے لینا چاہیے مگر عمل اُس بات پر کریں جو آپ کو ٹھیک لگ رہی ہوں یوں
فیصلے کے نتائج کے ذمہ دار بھی آپ ہونگے کسی دوسرے کو ایک خاص حد سے زیادہ
آپ کی زندگی پر من مانی کرنے کا حق حاصل نہ ہو۔
سوشل میڈیا ہماری معاشرے میں تباہ کن اثرات مرتب کر رہا ہے،ایک طوفان
بدتمیزی پھیلائی جا رہی ہے۔محبت کے نام پر ہوس پرست اپنے مقاصد جہاں پورے
کر رہے ہیں وہاں پر گھناونے پروپیگنڈے کی بدولت سیاسی مقاصد کو بھی حاصل
کیا جا رہا ہے۔نام نہاد اظہاررائے کی آزادی نے ہم سب کو اپنی لیپٹ میں لے
لیا ہے جس سے ثابت ہو چکا ہے کہ ہمارے ہاں اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔
!بس ہوسٹس لڑکیاں بے بس ہوتی ہیں کہ وہ محض اپنے کنبے کی کفالت کی خاطر وہ
سب برداشت کرتی ہیں جو کہ عمومی طور پر قابل مذمت عمل ہوتا ہے مگر محض
نوکری کی خاطر وہ نہ صرف مسافروں بلکہ ڈرائیور حضرات و سیکورٹی گارڈ کی کھا
جانے والی نظروں اورباتوں کو خوش اسلوبی سے نظر انداز کر جاتی ہیں کہ نوکری
چلی جائے تو پھر گھرانے میں کوئی مرد نہ ہونے یا کمائی کر کے لانے والا نہ
ہو تو پھر وہ کدھر جائیں گی، اگرچہ دیگر ملازمتوں میں لڑکیاں کسی نہ کسی
طرح اپنی عزت نفس کے ساتھ جی لیتی ہیں مگر یہاں بات ہی عزت سے شروع ہو کر
عزت پر ختم ہوتی ہے۔ایک مسلمان معاشرے میں بھی اگرکھانے کے لئے دو وقت کی
روٹی کمانا اتنا ہی گناہ ہے تو پھر ریاست کو گھر پر ہی سب مہیا کرنا چاہیے
بصورت دیگر حکومت وقت کو اس حوالے سے قانون سازی کرتے ہوئے مالکان کو کہٹرے
میں لانا چاہیے جس کی وجہ اُن معصوم لڑکیوں کی عزت خطرات کا شکارہوتی ہیں
اور وہ ذہنی اذیت کا شکار ہوتی ہیں۔
دوسرے آپ سے بات کریں نہ کریں مگر آپ کو پہل کر کے اپنی بات ضرور کر لینی
چاہیے۔مگر ابتدا ایسی ہو کہ آپ تلخی کی جانب نہ جائیں۔
آج کل دوست ہی دوست کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں، مشاہدہ ہے کہ ہماری لا
پرواہی ہم کو نقصان دے رہی ہے اس لئے دوست سوچ سمجھ کر بنائیں۔
تعلیم یافتہ افراد آج اگر اچھائی کی جانب قدم نہیں بڑھائیں گے تو بہترین
کیسے آئی گی؟
محض گھر بیٹھ جانے سے ترقی حاصل نہیں ہوتی ہے اچھے مواقع کو باہر نکل کر
تلاش کرنا بھی پڑتا ہے جب جا کر کامیابی کی طرف سفر شروع ہوتا ہے اور منزل
حاصل ہوتی ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر دوران نماز یا ایسے وقت میں جب کوئی مصروف ہو
سکتا ہے موبائل فون پر کال کر دی جاتی ہے یا پھر اجنبی نمبر سے کسی بات
کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بظاہر یہ معمولی باتیں ہیں مگر اخلاقیات کا تقاضا
ہے کہ کسی سے بھی بات کرنے سے قبل ایس ایم ایس کر کے پوچھ لیا جائے کہ جناب
کہیں مصروف تو نہیں ہیں بصورت دیگر سمجھداری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے خاص
اوقات میں فون کرنے سے گریز کریں تاکہ سننے والے کو پریشانی کا ساما نہ
کرنا پڑے یا آپ کو شرمندگی نہ اُٹھانی پڑے کہ ایسے وقت کال کر دی تھی۔
بسااوقات حالات بدلنے کےلئے سوچ کا بدلنا ضروری ہو جاتا ہے۔
تباہی دوسرے کم مگر ہم اپنے لئے زیادہ اپنی نااہلی سے دیکھتے ہیں۔
بہت سے نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ مشکل کرنا اتنا آسان عمل نہیں ہے مگر
جب یہ سوچ لیا گیا کہ ناممکن ہے تو پھر اُسے کا ہونا مشکل ترین ہو جاتا ہے۔
نیند کا اُڑ جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ فطری زندگی سے دور ہورہے
ہیں اور حقائق کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں۔
عورت مثبت سوچ رکھے گی تو وہ اپنا حوصلہ قائم رکھ کر سب سدھار سکتی ہے اور
آئندہ نسلوں کو بھی سنوار سکتی ہے
دفاعی طور پر مضبوط ہونے کی وجہ سے پاکستان دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکتا
ہے۔
جب تک خود کو بے بس نہ سمجھیں ہم بے بس نہیں ہو سکتے ہیں
کڑوی باتیں وہی برداشت کرتے ہیں جن کا ظرف بڑا ہوتا ہے۔
بُرائی کا عمل چند لمحوں کی تسکین دیتا ہے مگر انسان کو بدعمل بنا دیتا ہے۔
حالات سے سمجھوتہ کرنا بہترین عمل ہے
اسکول اور ہسپتال آج کاروبار بن چکے ہیں تب ہی مفاد پرستوں کی کہانیاں روز
سننے کو مل رہی ہیں جہاں محرومیوں کا استحصال اورمذہوم مقاصد کو پورا کیا
جاتا ہے۔
کرنا وہ چاہیے جہاں آپ پرسکون رہیں
بروقت نکاح اگر آج سے کرنا شروع کر دیئے جائیں تو یہ جو روز ہوس پرستی عام
ہو رہی ہے اس کو لگام دی جا سکتی ہے۔
انسان ایک جیسا کبھی نہیں رہتا ہے اس کو سدھارنے کےلئے مختلف حربے استعمال
کئے جاتےہیں کہ وہ غلط سے درست عمل کی طرف آئے
حوصلہ دوسروں کے سہارے پر قائم نہیں رہتا ہے
یہ غلط ہے، وہ غلط ہے، مگر ہم خود ٹھیک ہیں جب تک ایسا رویہ رہتا ہے تب تک
ہم ازخود گمراہی کا شکار رہتے ہیں اپنی غلطیوں کا ادارک ہونا ہی ہمیں
بہترین انسان بننے کی جانب گامزن کرتا ہے۔
سرکاری ہسپتالوں کو بھی چوبیس گھنٹوں میں چلایا جائے تاکہ حکومت کو کچھ
رقوم بھی حاصل ہو سکیں اور اُس سے ہونے والے فائدے کو عملے اور ڈاکٹروں میں
تقسیم کیا جائے تاکہ وہ بہترین علاج سرکاری ہسپتالوں میں ہی فراہم کریں۔
سرکاری ہسپتالوں کا حال ہی برا ہو چکا ہے یہاں ڈاکٹروں کی لاپرواہی کی وجہ
سے عوام نجی عقبہ خانے جانے پر مجبور ہے جہاں پیسہ بھی خرچ ہوتا ہے مگر بہت
کم ہی درست تشخیص ہو پاتی ہے اگر چہ سب ہسپتال یا کلینک ایسے نہیں ہیں مگر
بہت سے ایسے ہیں جہاں بلا وجہ محض تشخیص کے لئے رقوم بٹوری جا رہی ہیں
گذشتہ چند دنوں سے ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں جس سے ثابت ہو رہا ہے کہ
ہمارے معاشرے میں اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔کہیں سگی اولاد والدین،
بھائی بہنوں اور کہیں ہوس کے پجاری ننھے بچوں سے لے کر نوجوانوں تک کو قتل
کر رہے ہیں۔
کیا اس طرح کے واقعات کے روک تھام کے لئے قانون سازی کی بجائے اب کیا سوشل
میڈیا پر آگاہی مہم چلائی جائے؟؟؟؟
والدین کی تریبت میں کوتاہی کے بھیانک نتائج دیکھنے کو مل رہے ہیں، کاش سب
سدھرنے کی طرف جائیں؟؟؟
اجنبی افراد پر حد سے زیادہ بھروسہ آپ کو لے ڈوبتا ہے ایک خبر میں یہ پڑھا
کہ اعتماد ٹوٹ گیا جب اُس نے عزت کی لاج نہ رکھی۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ عزت
پر جب آپ نے ازخود ہی بات آنے دی ہے تو پھر دوسروں پر الزامات کی بارش درست
نہیں ہے۔
ملازموں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر کوئی ٹھوس قانون سازی کی جانی
چاہیے۔
ملک بھر کے اخبارات میں شائع کردہ واقعات سے ثابت ہو رہا ہے کہ آج والدین
اپنی ذمہ داری پوری طرح سے ادا نہیں کر رہے ہیں ورنہ کوئی کیوں گھر سے بھا
ک کر جائے گا۔پولیس تک بات پہنج جائے تو سمجھ لیں کہ معاشرے مٰیں ناک کٹ
گئی۔دوسری طرف ذہنی طور پر پریشان بھی جان دینے میں آسانی محسوس کرتے ہیں
تب ہی حالات سے پریشان افراد خود کشی کر لیتے ہیں ۔حکومت کو اس حوالے سے
مربوط حکمت عملی کے ساتھ عوام کے مسائل کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔
تصویر کادوسرا رخ دیکھ کر فیصلہ کرنے والے کبھی زیادہ نقصان نہیں اُٹھاتے۔
ترقی کے لئے مسلسل جہدوجہد ضروری ہوتی ہے۔
دوسروں کے لئے راہیں آسان کرنے والوں کی بھی مشکلات ازخود حل ہونا شروع ہو
جاتی ہیں۔
اندھا اعتماد تو کر لیا جاتا ہے،سوچا نہیں جاتا ہے مگر جب وہی اعتبار ٹوٹ
جائے تو پھر بکھرے ہوئے ذات کے ٹکڑے کوئی بھی جوڑنے نہیں آتا ہے، لہذا
اعتماد تب کیجئے جب ناقابل برداشت تکلیف کے لئے بھی تیار ہوں تاکہ بعد میں
زندگی سکون سے گذرے۔
کبھی کبھی تجربات کرنا آپ کو دوسروں کے لئے رہنمائی کا سبب دیتا ہے۔
اسلام سب کے ساتھ مساوی سلوک کا درس دیتا ہے۔
آج کل لوگ دوستی کو بھی بدنام کر رہے ہیں ان سے بچ کر رہنا چاہیے جو ایسا
کر رہے ہیں۔
عمر، جذبے اور نیت آپ کو ناکام بھی بنا سکتے ہیں اور کامیاب بھی، لہذا
دوسروں پر الزامات دھر کر خود فریبی کا شکار نہ ہوں۔
زندگی میں کچھ سیکھنا ہے تو پھر تجربات سے گذرنا ضروری ہے کیونکہ جب تک
تجربے سے نہیں گذریں گے اُسوقت کچھ کیسے ہوتا ہے سمجھ نہیں پائیں گے اور نہ
ہی گہرائی سے کسی بات کو جان سکیں گے۔
چھوٹی خوشیوں کو جمع کرنے والے ہی بہت ذیادہ خوش ہوتے ہیں۔
محبت کی توہین وہ کرتے ہیں جو اپنے محبوب کی رسوائی کا سبب بنتے ہیں۔
محبت کا جذبہ بے لگام ہوتا ہے جہان من چاہے وہیں بسیرہ کرلیتا ہے، اعتبار
ٹوٹے تب بھی محبوب کے حق میں دلیل دیتا ہے کہ وہی سب کچھ ہے۔
حق کی لڑائی اس لئے لڑنا ضروری ہے کہ اس کے بغیر معاشرے میں انتشار پھیل
جاتا ہے۔
خوب سے خوب تر کی تلاش کرنے والے ہی بہترین بن سکتے ہیں۔
خوش رہنے کے لئے خوشی نہیں اپنے حال سے مطمن ہونا کافی ہے۔
جب تک شور نہیں مچایا جائے گا تب تک ظالم کا دل نہیں کانپے گا؟؟
اچھے حکمران عوام کے دلوں میں رہتے ہیں۔
ملک کے حالات بہتر کرنے کے لئے عوام کو بھی اپنی استطاعت کے مطابق جہدوجہد
کرنی پڑتی ہے۔
پاک و صاف رہنے سے سوچ بھی پاکیزہ ہو جاتی ہے۔
غصہ کرنا شیطانی فعل ہے۔
اللہ تعالیٰ اولاد، مال اور دولت کے زریعے آزماتے ہیں مگر آج ہم اس بات کو
دین سے دوری کی سبب بھول چکے ہیں۔یہی دیکھ لیں کہ اولاد سے محرومی پر ایک
عورت دوسرے عورت کے بچے کو جان سے ماردیتی ہے۔دوسری طرف یہی عورت بیٹے نہ
جنم دینے پر بھی ستم سہتی ہے یا جان سے جاتی ہے۔کچھ کے نصیب میں یہ ہوتا ہے
کہ وہ سوکن کو برداشت کرتی ہیں اور لاپروائی و محبت سے محرومی پر یہی عورت
ذہنی طور پر بھی مفلوج ہو کر کسی نفیساتی مرکز میں زیر علاج ہو جاتی ہے یا
پاگل ہو جاتی ہے۔اگرچہ ان سارے معاملات میں براہ راست نہ سہی مگر بالواسطہ
مرد حضرات بھی برابر کے ذمہ داری ہیں مگر یہ آج کے پڑھے لکھے افراد سمجھنے
سے قاصر ہو چکے ہیں کہ اولاد جن کو اللہ تعالٰی دینا چاہتے ہیں وہ عطا کر
تے ہیں یہ کسی تعویز یا علاج معالجے کی وجہ سے کم اُس ذات کی عنایت سے
زیادہ دامن میں آکر خوشیاں بکھیرتی ہے۔اس سوچ کو آج عام کرنے کی ضرورت ہے
کہ محض اولاد کی خاطر کسی کی زندگی برباد نہ کریں اور نہ ہی اس کی وجہ سے
خود کو اذیت کا شکار کریں۔
کوئی بولتا ہے تو بولنے دیں مگر دوسروں کی پریشانیوں کو کم کرنا اور اپنے
مفادات کو پس پشت رکھنا افضل ترین کام ہے کہ دوسروں کو خوشی عطا کرنا کسی
کسی کے بس کی بات ہوتی ہے۔
دوسروں کو عطا کرنے والے زیادہ خوش رہتے ہیں۔
زندگی میں کام کرنا ہی اہم نہیں ہے کبھی کبھی غوروفکر کرکے فطرف پر توجہ
دنیا بھی انسان کو بہت کچھ عطا کر دیتا ہے۔
تربیت لڑکیوں کی ایسی ہونی چاہیے کہ وہ دوسرے گھر میں جا کر اُس ماحول میں
رچ بس سکیں ، بے جا اور حد سے زیادہ آزادی اور سہولیات بعدازں مسائل کھڑے
کر دیتا ہے۔بسااوقات یہی باتیں بسا بسایاگھر توڑ کر رکھ دیتا ہے۔
جتنا لحاظ کیا جاتا ہے اتنا ہی انسان کو برداشت کرنا پڑتا ہے لہذا ایک حد
تک کسی شخص کو بولنے اور کچھ کرنے کی آزادی دینی چاہیے تاکہ وہ آپ کی تذلیل
نہ کر سکے۔
تباہی تب آتی ہے جب ہم اپنی زندگی کے فیصلے دوسروں پر چھوڑ دیتے ہیں۔
ہم دوسروں کی سننا نہیں چاہتے مگر اپنی باتیں ہر وقت سننے کے لئے آجکل تیار
رہتے ہیں۔جس کی وجہ سے لوگ ہماری محفل سے دورچلے جاتے ہیں
ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق خود کومنوایا جائے اورمعذوری
کو سر پر سوار نہ کیا جائے کہ اس کے ہونے کی وجہ سے ہم کسی قابل نہیں ہیں۔
’’ معذورانسان‘‘ کہلوانے والے کسی بھی طور حوصلے ہارنے والے نہیں ہوتے ہیں
،وہ اپنی زندگی میں ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرکے یہ ثابت کردیتے ہیں کہ
’’معذوری جیسے کوئی بھی شے کسی بھی فرد کی صلاحیتوں کو منوانے سے نہیں روک
سکتی ہے اورنہ ہی معذوری صلاحیتوں میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔ ‘‘میرے نزدیک
معذوری وہ ہے جب آپ اپنے خواب دیکھ لیں مگر اس کے حصول کے لئے کسی جہدوجہد
سے گریز کریں ،وقت کی کمی، نصیب اور قسمت پر ،حالات کو قصور وارٹھہرا دیں
کہ اس کی وجہ سے آپ کچھ نہیں کر پائے ہیں۔معذوری یہ نہیں ہے کہ آپ جسمانی
طور پر ہی معذور ہوں،اگر آپ کی سوچ مثبت نہیں ہے اور منفی قول و فعل کے
حامل ہیں تو پھرآپ معذور کہلانے کے قابل ہیں کیونکہ جو کسی بھی طور معذوری
کا شکار افراد ہیں وہ اگر مثبت طر ز فکر سے اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے
کی خواہش رکھتے ہیں اور آپ صحت مند ہو کر بھی ایسا نہیں کر سکتے ہیں تو آپ
ازخود معذور ہیں۔آپ نے اگر بغور مشاہدہ کیا ہو تو جسمانی طور پر معذور شخص
اگر بھکاری ہے تو اُس میں اس قدر صلاحیت ضرور موجود ہوتی ہے کہ وہ عمدہ
اداکاری سے جسمانی طور پر صحت مند شخص کے دل کو رنجیدہ کر کے کچھ نہ کچھ
رقم اپنے گذر بسر کے لئے حاصل کر سکے،یہی بات ایک دفعہ پھر سے ثابت ہو جاتی
ہے کہ جسم معذور ہو سکتے ہیں مگر صلاحیتیں معذور نہیں ہو سکتی ہیں۔
ہمارے ہاں ایسے افرادجوجسمانی لحاظ سے کسی معذور ی کا شکار ہوتے ہیں کو
ــ’’خاص لوگ‘‘ تو قرار دیتے ہیں مگر ان سے ملنا جلنا اور قربت کے خواہشمند
نہیں ہوتے ہیں اورنہ ہی انکو پیار وخلوص دینے کے روا دارہوتے ہیں ۔حالانکہ
وہ بھی ہمارے طرح انسان ہی ہوتے ہیں اس کے باوجودبھی انکوحقارت کی نظروں سے
دیکھتے ہیں۔ مگر بعض اوقات ہمارے بیمار ذہن زدہ لوگ انکو ’’خاص لوگ‘‘ یا ’’
معذورانسان‘‘کہہ کر اپنے قول و فعل سے احساس کمتری کا شکارکرنے کی کوشش
کرتے ہیں جو کہ اخلاقی طور پر درست طرز عمل نہیں کہا جاسکتا ہے مگر پھر بھی
ایسے بہت سے باشعور افراد ہیں جو کہ اس عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔کیا
معذورافراد کو دنیا میں جینے کا حق حاصل نہیں ہے حالانکہ کسی بھی لحاظ سے
معذور افراد نے بہت سے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں جن کو ’’خاص لوگ‘‘
یا ’’ معذورانسان‘‘ کہا جاتاہے ۔
|