سزا ملنی چاہیے

اس کی عمر دس سال تھی وہ فیفتھ کلاس کا طالب علم تھا،کلاس میں،سکول میں ،اپنے محلے میں مدرسے میں وہ اپنے تمام ہم عمر بچوں سے زیادہ تیز،ہوشیار اور ایکٹیو تھا،وہ یخ بستہ سردیوں میں صبح اٹھتا اپنے گاؤں کے سکول چھوڑ کر دوسرے گاؤں کے سکول میں جاتا موسم کسی بھی رنگ میں ہو وہ ہر حال میں سکول جاتا سکول سے واپس آتا کھانا کھاتا اور مدرسے چلا جاتا،پھر شام کو گھر آتا اور اپنے سکول کا کام کرتا،وہ اپنے والدین کا سہارا بھی تھا اُمید بھی،مستقبل بھی اور دوسرے الفاظ میں کل کائنات بھی،باقی بچے اس سے چھوٹے تھے ،اس نے نئے جوتے خریدے،نئے کپڑے بنوائے اور کہا کے کہ جمعہ کے دن پہنوں گا اس سے پہلے نہیں،وہ بچہ تھا مگر ملنسار تھا پیار کرنے والا تھا اپنے ہم عمربچوں سے روکنے کے باوجود بھی چھپ کر ملتا یہ کہہ کر کہ یہ میرے ہم عمر ہیں میں ان کو ناراض نہیں کرتا،شرارت بچوں کی پہچان ہوتی ہے وہ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ شرارت بھی کرتا کھیلتا بھی اور ان سے ناراض بھی ہوتا راضی بھی وہ معصوم بچہ تھا اسے ابھی اچھائی برائی غلط سعی کا مکمل اندازہ نہ تھا،خواب کیا ہوتے ہیں،منزل کیا ہوتی ہے،مستقبل کیا ہوتا ہے،وہ ان ساری باتوں سے لا علم تھا،اس کے سامنے ہنسنا،کھلنا،شرارت کرنا،اور پھر بے فکر ہو جانا ہی زندگی تھی،جمعہ کا دن تھا وہ سکول سے آیا کھانا کھایا،تیار ہوا اور جمعہ پڑھنے کے لئے اپنے ہم عمر کزن کو ساتھ لیا اپنے گھر کے قریب سے گرزنے والی لنک روڈ جو بیرپانی بازار سے ملتی تھی اس پر گئے انہیں ایک لوڈر جیپ نظر آئی جو اکثر وہاں سے گزرتی وہ اس پر بیٹھ گئے،ان دونوں بچوں کا خیال تھا کہ وہ بازار میں اتر جائیں گے پھر جمعہ پڑھے گے اور گھر آجائیں گے،لوڈر جیپ والا انہیں جانتا بھی تھا اور اسے پتہ بھی تھا کہ اس میں بچے بیٹھے ہوئے ہیں وہ بازار پہنچا جیپ کے پیچھے اترنے چڑنے کے لئے کوئی پائیدان نہیں تھاچھوٹا ہو یا بڑا وہ اس پر جمپ سے چڑتا اور جمپ سے ہی اترتا،جیپ بازار میں پہنچی بچوں نے اترنے کی کوشش کی مگر جیپ نہ رکنے کی وجہ سے بچے واپس جیپ میں بیٹھ گئے،ڈرائیور نے جیپ کو سپیڈ میں چلانا شروع کر دیا ایک کلو میٹر دور جانے کے بعد بچوں نے سوچا کہ یہ جیب روک نہیں رہا اور شاید کہ ہمیں اغواہ کر کہ نہ لے جائے بچوں نے اس ڈر سے چلتی جیپ سے چھلانگیں ماری،محسن نام کا بچہ منہ کے بل گرا اور شدید زخمی ہو گیا،موذن اصخاب کا سر سڑک پر لگا اور اسے ظاہری کوئی چوٹ نہ آئی مگر اس کی گردن کی ہڈی فیکچر ہو گئی دونوں بچوں کی عمریں دس سے گیارہ سال کے درمیان تھیں دونوں کلاس فیلو تھے وہاں پر موجود مقامی لوگوں نے شور مچایا گاڑی والے کو آوازیں دی اسے کہا کے کسی کہ بچے تمہاری گاڑی سے گر گئے ہیں مگر گاڑی والے نے سنی ان سنی کر دی اور بغیر گاڑی روکے بھاگ گیا،ڈھائی سے تین کلومیٹر اگے اس کا کریے کا کمرہ تھا وہ گھر کے پاس گاڑی کھڑی کر کے بھاگ گیا،مقامی لوگوں نے پیچھے سے آنے والے ایک کیری میں بچوں کو ڈالا قریبی سنٹر لے گئے بچے سیریس تھے فوری باغ ایم ڈی اٰیس پہنچائے گے،ایم ڈی ایس والوں نے ضلع کے ہسپتال میں ریفر کئے حالات بہت خراب تھے بچوں کو فوری پنڈی ریفر کر دیا گیا،محسن زخمی تھا موذن ہوش میں ہی نہیں تھا اس کی حالت پہلے منٹ میں ہی خطرے میں آگئی تھی،ایمبولینس ان بچوں کو لیکر پنڈی جا رہی تھی کے راستے میں موذن جان کی بازی ہار گیا اور معصوم پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گیا،ماں باپ ساتھ تھے اس کے، ان پر قیامت ٹوٹ گئی وہ سکتے کی حالت میں تھے مجھے اطلاع ملی میں بھاگا تھانے گیا رپورٹ درج کروانے کی کوشش کی مگر معمول کے مطابق لاپروائی،بے حسی،سخت مہری،اور انتہائی غیر معذب رویے کا سامنا کرنا پڑا،اور میں تھانے سے باہر نکل آیا ،پھر کیا ہوا یہ کہانی پھر سہی اس پر بھی پورا ناول بنتا ہے۔وہ بچے رشتے میں میرے بھتیجے تھے میرے پاس اس وقت کسی سے بھی بحث کرنے کا وقت نہ تھا،بعد میں پولیس کے فون آتے رہے ان میں کہا کہتے رہے یہ بھی پھر سہی،شام کو پھر سینئر پولیس کی ٹیم آئی اس نے آکر رپورٹ لکھی،موقع کانقشہ بنایا،سڑک پر پڑے خون کی تصویریں بنائیں،اور ڈرائیور کے گھر چھاپا مار جو گھر سے بھاک چکا تھا،تھا وہ قریب ہی مگر رات تھی وہ گھر نہ ملا پھر اس کی وہ جیپ جس کا نہ کوئی نمبر تھا،نہ کوئی شیشہ تھا،نہ کوئی حالت تھی اثار قدیمہ کا منظر پیش کرنے والی جیپ قبضے میں لیکر باغ تھانے پہنچائی گئی۔معاشرے کے لئے یہ ایک حادثہ تھا والدین کے لئے قیامت ٹوٹ پڑی تھی ،سب سننے والوں کو دکھ ہوا سب نے اپنے اپنے حساب سے سہارا دیا،موت برحق ہے،سب نے مرنا ہے،موت کا وقت مقرر ہیں ہر ایک نے تسلی دینے کی کوشش کی،کیا کرتے اس کے سوا کوئی حل بھی نہیں انسان تقدیر کے سامنے بے بس ہے ،وقت کا پہیہ زندگی کی گاڑی کو روکنے نہیں دیتا، یہ جس بھی حال میں ہو چلتی ہے،رو کہ پیٹ کہ مر کہ جینا تو ہے اور بس یہی حل ہے کے جینا ہے،مگر وہ معاشرے ،وہ گاؤں،وہ ملک،وہ لوگ،کبھی سدھر نہیں سکتے،کبھی حادثات سے نکل نہیں سکتے جو حادثات، قیامتوں ، ازمائشوسے سبق نہیں سیکھتے،جو ان کی روک تھام کے لئے اقدامات نہیں کرتے،جو سزا جزا کا پیمانہ نہیں رکھتے،جو صرف ان کو حادثوں کا نام دیکر جرائم کو ،غلطی،غفلت کونظر انداز کر دیتے ہیں،ہم آئے روز نت نئے واقعات کا شکار ہوتے ہیں کبھی کسی ڈاکٹر کی غفلت سے خاندان کی زندگی اجڑ جاتی ہے،کبھی کسی تنازعہ کی زد میں آکر زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں،کبھی کسی ڈرائیور کی لاپروائی قیامت برپا کر دیتی ہے،کبھی انسان کی مستی ساری زندگی کا پچھتاوا بن جاتی ہے مگر ہم ان کو بھی سیاست،مفاد،پیسہ،قبیلہ،برادری،انا،ضد،فرقہ،اور پتہ نہیں کس کس کو بیچ حائل کر کے اصلاح کرنے کے بجائے،کوئی بہتر لائحہ عمل سے اس کی روک تھام پر سوچنے کے بجائے گروپوں میں تقسیم ہوکر نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ پوری قوم و ملک معاشرے کے ساتھ نا انصافی کرتے ہیں،موذن اصخاب کسی ایک برادری کا،کسی ایک محلے،گاؤں،کا نہیں وہ قوم کا بچہ تھا،وہ قوم کا سرمایا تھا،وہ قوم کا مستقبل تھا،اس کا غم اس کا دکھ اس کے والدین ہی جانتے ہیں مگر ایک باشعور فرد ہونے کے ناطے یہ ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم ایسے عناصر کا سدباب کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں جو ان کا سبب بنتے ہیں،آج یہ بچہ والدین کو صدمہ دے گیا کل کوئی اور بچہ نہ دے،آج یہ پھول کھلنے سے پہلے مرجھا گیا کل کسی اور کا پھول نہ مرجھائے،آج یہ سب کو رولا گیا کل کوئی اور ماں باپ نہ روئیں،ڈرائیور کی لاپراواہی،اس کی مستی،اس کی غفلت کے اس نے گاڑی نہیں روکی اور پھر بچے گرنے کے بعد یہ بے دردی سے بے رحمی سے بچوں کو سڑک پر تڑپتا چھوڑ کر بھاگ گیا،مقامی لوگوں کے شور مچانے سے بھی اس نے اپنی کانوں میں کیل ٹھوکے رکھی اس کی اسے کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے،اس کی اسے قانونی سزا ملنی چاہیے،والدین یا ورثا خون معاف کر سکتے ہیں،اسے ذاتی طور پر تو معاف کر سکتے ہیں مگر قانون کی جو اپنی ذمہ داریاں ہیں،قانون کی جو اپنی لاپرواہی،غفلت کی سزائیں ہیں وہ اسے ضرور ملنی چائیے،یہ کالم لکھنے کے وقت تک وہ ڈرائیور جو پورے گاؤں میں کریمینل مشہور ہے گرفتار نہیں ہوا،اس کی گرفتاری تک یہ آواز بلند ہوتی رہے گی۔

Iqbal Janjua
About the Author: Iqbal Janjua Read More Articles by Iqbal Janjua: 42 Articles with 43586 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.