اسلام دین فطرت اوردین رحمت ہے ،اسلام کے فروغ میں
مدارس اورمعلم کے کلیدی کردارسے انکار نہیں کیاجاسکتا،تاہم ریاست کے
اندرہرادارہ ،طبقہ اورفردنظم ونسق کاپابند ہے۔برطانیہ کے اندربھی ہمارے بچے
اپنے سینوں میں قرآن مجیدفرقان حمید کی صورت میں پیغام الٰہی محفوظ
اورانہیں روشن کرتے ہیں ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنی
حالیہ پریس کانفرنس میں دبنگ اندازسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان
میں 30ہزار سے زائدرجسٹرڈ مدارس کام کررہے ہیں جبکہ ان میں مجموعی طورپر
2.5 ملین طلبہ زیورتعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں۔ 30 ہزار میں سے 0.5 فیصد
مدرسے ایسے ہیں جو دہشت گردی کی ترویج کرتے ہوں گے۔ان 30ہزار مدرسوں سے 2.5
ملین بچے پڑھ کر نکلتے ہیں تو سوچیں ان کا کیا مستقبل ہے؟ تمام مدارس کو
قومی دھارے میں لایا جائے گا، ہر مدرسے میں 4 سے 6مضامین کے اساتذہ چاہیے
ہوں گے۔ترجمان پاک فوج نے کہاکہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام مدارس کو
وزارت تعلیم کے ماتحت کیا جائے گا جہاں ایک ایسا نصاب بنانا ہے جس میں نفرت
انگیز مواد نہیں ہوگالیکن یکساں نصاب تعلیم کا نفاذ ایسے ہی ہے جیسے بلی کے
گلے میں گھنٹی باندھنا جو صرف اس وقت ممکن ہے جب تمام طبقہ فکر کے لوگ نہ
صرف محب وطن ہوں بلکہ روشن خیال اور مصالحت پسند ہونے کے ساتھ ساتھ وقت کی
رفتار اور ضرورت کو بھی پہچانتے ہوں ۔
جہاں یہ خبرمادر وطن پاکستان اور تعلیم سے محبت کرنے والوں کے لئے خوشی کی
خبر ہے وہاں ان لوگوں کیلئے کسی موت سے کم نہیں ہے جن کی روزی روٹی تفرقہ
بازی اور نفاق ِامت سے وابستہ ہے یا پھر جن کو اپنی اجارہ داری چھن جانے کا
خدشہ ہے ۔دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف کے تو منشور میں یہ بات شامل
تھی کہ ملک میں یکساں نصاب تعلیم نافذ العمل کیا جائے گا لیکن یکساں نظام
تعلیم کا خواب ابھی تک وفاقی اور صوبائی وزراء تعلیم کی آنیاں جانیاں کی
نظر ہو رہا ہے وفاقی اور صوبائی وزراء تعلیم ابھی تک یکساں نصاب کے لئے
کوئی ایک خاکہ بھی پیش نہیں کر سکے۔میرا مشاہدہ ہے کہ ضیاء دور میں تمام
گورنمنٹ سکولوں کے لئے عربی لازمی تھی جبکہ میں نے فارسی کی تعلیم بطور
اختیاری مضمون حاصل کی تھی لیکن مشرف دور میں نہ صرف او ٹی اساتذہ کو بھرتی
نہیں کیا گیا بلکہ عربی کو بھی غیر اہم جان کر پس پشت ڈال دیا گیا اور
سرکاری سکولوں میں بھی اسلامیات، اردو، سائنس، ریاضی اور انگریزی کے مضامین
پڑھائے جانے لگے ہیں اور مطالعہ پاکستان ، عربی اور فنی مضامین کو پس پشت
ڈال دیا گیا ہے کیونکہ جب حکومت صرف پانچ مضامین کا امتحان لے گی تو کون سا
معلم یا تعلیم ادارہ ایسا ہو گا جو تاریخ و جغرافیہ کو اہمیت دے ۔
مدارس میں مروج نصاب تعلیم کو "درس نظامی ـ"کا نصاب کہا جاتا ہے جو ملّا
نظام الدین سہالویؒسے منسوب ہے اور اسی وجہ سے اس نصاب کو’’درس نظامی‘‘ کہا
جانے لگا۔ اس نصاب میں صرف، نحو، منطق، حکمت و فلسفہ، ریاضی،بلاغت، فقہ،
اصول فقہ، علم الکلام ، تفسیر ِقران اور علم الحدیث جیسے گیارہ علوم و فنون
پر مشتمل اس دور کی بہترین کتابیں شامل کی گئیں۔ نصاب کا طرز تدریس روایتی
اور کتابی تھا جس میں کتاب کا متن، حاشیہ اور حاشیہ در حاشیہ سمجھنے اور حل
کرنے کی صلاحیت بڑھانے پر زور دیا جاتا تھا اور کتاب کے نفس مضمون کی بہ
نسبت اس کے دیگر امورکی جانب معّلم اور متعلّم کی توجہ زیادہ ہوتی تھی۔ اس
طریقہ تدریس کی افادیت یہ تھی کہ اس سے ذہن کو جلا ملنے کے ساتھ ساتھ
یاداشت کو بھی تقویت حاصل ہوتی تھی ۔دار العلوم دیوبند نے جب اس نصاب کو
اپنایا توموجودہ وقت کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اس میں دو بنیادی
تبدیلیاں کیں ایک یہ کہ درس نظامی کے پرانے نصاب میں حدیث کی صرف ایک کتاب،
مشکواۃ شریف تھی لیکن حضرت شاہ ولی اﷲ دہلویؒ کی تعلیمات کو سامنے رکھتے
ہوئے دیوبند کے نصاب میں صحاح ِستہ کو بھی شامل کر لیا گیابعد میں اسی درس
نظامی کے نصاب کو بنیاد بناتے ہوئے بریلوی اور شیعہ مکاتب فکر کے علماء نے
اپنے مدارس میں ضروری تبدیلیاں کر کے نافذ کیا جس میں فقہی اصولوں کے علاوہ
علم صرف و نحو، عربی ادب ،علم فلسفہ اور تفسیر القران کے مضامین میں کوئی
خاص فرق نہیں لیکن مذہب کے نام پر دکانداری چمکانے والوں نے ڈیڑھ اینٹ کی
الگ مسجد بنا کر اپنی اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے اور اختلافات کی یہ دیوار
گرانے کا فیصلہ کوئی بھی سابقہ حکومت نہیں کر سکی ۔دیکھا جائے تو ملک میں
لگ بھگ جو 30ہزارسء زاائد رجسٹرڈ مدارس قائم ہیں ان سے سالانہ لاکھوں
علمائے دین اپنی سند کے حصول کے بعد روزگار کے حصول کے لئے درس نظامی کی
سند ہاتھ میں پکڑے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے نظر آتے ہیں جس کی بنیادی وجہ
حکومتی سرپرستی کا نہ ہونا ہے ۔ میں نے اپنے ایک سابقہ کالم میں بھی ذکر
کیا تھا کہ اگر ان مدارس سے لاکھوں کے حساب سے طلباء فارغ التحصیل ہو رہے
ہیں تو یہ حکومت وقت کا فرض ہے کہ ملکی اداروں خاص طور پر پرائمری سکولوں
میں بطور خطیب اور دینی معّلم ان کو تعینات کیا جائے اور یہ صرف اس صورت
میں ممکن ہے جب مدارس کی عطا کردہ ڈگری کو حکومتی سرپرستی حاصل ہو جو صرف
اس صورت میں ممکن ہے جب تمام مداارس کا نظام حکومتی کارندوں کے ہاتھ میں ہو
اور فیڈرل بورڈ کی طرز پر وہ اپنا نظام ِامتحانات رائج کرنے کے ساتھ ساتھ
مستقبل میں مدارس کے اساتذہ کی تربیت اور ریفرشر کورسز کا بندوبست کرے ۔
پاکستان میں کسی بھی ڈویژنل سطح پر قائم شدہ تعلیمی بورڈ حکومت کا ایک کماؤ
ادارہ ہے جو طلباء سے حاصل شدہ امتحانی فیسوں سے نہ صرف اپنے ملازمین کا
پیٹ پالتا ہے بلکہ تمام تعلیمی بورڈ ملکی ریونیو میں بھی اپنا حصہ ڈال رہے
ہیں ۔وفاق المدارس ، تنظیم المدارس، تنظیم اساتذہ جیسے مختلف فقہ کے مدارس
بورڈ اپنی اپنی طرز پر کام تو کر رہے ہیں لیکن حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی
بنا پر ان کی آمدنی کا بہت بڑا حصہ مخصوص جیبوں میں جانے کے علاوہ ضائع بھی
ہو رہا ہے ۔
سائنس نہ صرف ایک اہم علم ہے بلکہ دنیاوی علوم میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے
جس کے بغیر زندگی گزارنے کا کوئی تصور ہی نہیں کر سکتا کیونکہ دیکھا جائے
تو یہ واحد علم ہے جوہر شعبہ زندگی میں انسانیت کی خدمت کر رہا ہے لیکن اگر
پاکستان میں موجود تمام مدارس کے نصاب کو بغور جائزہ لیا جائے تو ہمارے
مشاہدے میں یہ بات آتی ہے کہ چاہے وفاق المدارس کا نصاب ہو یا وفاق العلماء
کا یا تنظیم المدارس کا، کسی بھی امتحانی بورڈ نے اپنے نصاب میں سائنس کو
کئی اہمیت نہیں دی بلکہ موجودہ سائنسی علوم سرے سے کسی بھی مدرسے میں نہیں
پڑھائے جا رہے اس لئئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ملک کے یہ
35000سے زیادہ مدارس بے روز گار مولوی اور عالم پیدا کرنے میں تو پیش پیش
ہیں لیکن مجموعی طور پر عظیم سائنسدان ، ماہر معاشیات ، بہترین انجینئیر
پیدا کرنے میں ناکام ہی دکھائی دے رہے ہیں کجا یہ کہ ایک دور تھا کہ دنیا
میں مسلمان سائنسدانوں کی دھوم مچی ہوئی تھی جو انہی مدارس سے فارغ التحصیل
تھے جن میں بو علی سینا، جابر بن حیان، ابن الہیثم اور عبدالمالک اصمعی
جیسے عظیم ستارے آج بھی سائنس کے افق پر جگمگا رہے ہیں۔ اگر بات کی جائے
ٹیلنٹ اور حافظے کی تو میرے خیال میں آئی کیو یعنی ذہانت کے لحاظ سے
پاکستان میں سب سے اچھے گریڈ حفاظ کرام کے ہوتے ہیں جس کی بنا پر حفظ قران
کے بعد نہ صرف ان کے سینے بلکہ دماغ بھی کشادہ ہو جاتے ہیں لیکن ضرورت اس
امر کی ہے کہ ان کو معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لئے ایسا نصاب تعلیم
پڑھایا جائے جس سے وہ مستقبل قریب میں اپنی تمام ذہنی اور جسمانی استعداد
کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک وقوم کے لئے کارہائے نمایاں سر انجام دے سکیں۔
الغرض پاکستان کے علماء ، دینی مدارس اوردینی جماعتوں کی تمام تر خدمات،
ایثار اور حب الوطنی کے باوجود موجودہ دور کے تقاضوں اور ضروریات کے حوالے
سے مدارس کے نصاب وانتظام میں مناسب ترمیم و اضافہ وقت کی ایک اہم ترین
ضرورت ہے جس کی جانب سنجیدہ حلقے، علماءِ حق اور ماہرین تعلیم ہر سیاسی دور
حکومت میں توجہ دلاتے رہے ہیں اور میری درخواست بھی یہی ہے کہ جدید دور کے
تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے علمائے دین اجتہاد سے کام لیں اور موجودہ حکومت
کا بھر پور ساتھ دیں کہ وہ تمام مدارس کے نصاب کو یکساں کرنے کے ساتھ ساتھ
جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرسکے۔
|