آخر وہ اپنے گھر پہنچ گیا
لیکن اسے اپنا بچہ سوتا ہوا ملا -
یہ کوئی نئی بات نہیں تھی -
جب بھی وہ ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے گھر پہنچتا تو اسے بچے سوتے
ہی ملتے تھے - لیکن اس مرتبہ ایک نئی بات تھی - بچہ روتا ہوا سویا تھا - آ
نکھوں سے آنسو بہہ کر بچے کے گالوں تک پہنچ گئے تھے اور اپنے نشان چھوڑ گئے
تھے - بچےکے بال بکھرے ہوئے تھے -
'میں نے بال صحیح کرنے کی کوشش کی تھی اور صبح سویرے کنگھی بھی کی تھی ' اس
کی بیوی زرینہ کہہ رہی تھی لیکن یہ بال بار بار بکھیر ا دیتا تھا اور کہتا
تھا 'میں نے عید نہیں منانی ---- میں نے عید نہیں کرنی '
'تو تم عید نہیں مناتیں ' عصمت گل نے کہا
'یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ' زرینہ نے خوفزدہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے
کہا ' کوئی سن لے گا ----- بس آپ خاموش رہیں - میں چائے بنا کر لاتی ہوں -
عصمت گل صحن میں پڑی ہوئی چارپائی پر لیٹ گیا -
وہ کھلونے جو وہ بڑی چاہ سے لایا تھا اور وہ کپڑے جن کی قیمت طے کرانے میں
بہت جھک جھک کی تھی ادھر ادھر پھیل گئے -
عصمت گل نے دل میں سوچا کہ غلطی میری ہی تھی -مجھے کارخانے سے نکل بھاگنا
ہی چاہئے تھا -
پھر دل نے ہی تردید کی ' نہیں نہیں -- کار خانے کے ٹھیکے دار نے اسے رکشے
کے پیسے بھی دئے تھے بلکہ خود رکشہ لے کر دیا تھا کہ کہیں وہ پیسے بچانے کے
چکر میں دیر سے اسٹیشن نہ پہنچے اور ٹرین نکل جائے اور وہ عید سے رہ جائے -
ٹرین بھی مل گئی -- ٹرین بغیر کسی تاخیر کے چلی اور بغیر کسی تاخیر کے پہنچ
بھی گئی - ( دو ڈھائی گھنٹے کی تاخیر کو عصمت گل تاخیر نہیں لیتا تھا )
عصمت گل گھر پہنچ بھی گیا - لیکن --- عید پھر بھی رہ گئی -
عصمت گل نے ٹھنڈی سانس بھر کر کروٹ لی --- چر چر کی آواز آئی - ایک کھلونا
اس کے جسم کے نیچے آکر ٹوٹ گیا - لیکن عصمت گل نے کوئی پرواہ نہیں کی - وہ
خلا میں گھورے جا رہا تھا -
عصمت گل کراچی کے ایک کارخانے میں روزانہ اجرت کے مزدور کے طور پر کام کرتا
تھا - کارخانے کے مالکان بشمول فور مین اسے پسند کرتے تھے - وہ کام بھی تو
ایسی تن دہی سے کرتا تھا - اس مرتبہ اس نے عید اپنے گھر پشاور میں کرنے کا
فیصلہ کیا تھا -جہاں اس کی بیوی ‘ بچے اور ماں رہتے تھے - اسی وجہ سے اس نے
طویل عرصےسے کوئی چھٹی بھی نہیں کی تھی - حالانکہ چھ سات مہینے پہلے اسے
نزلے کے سبب بخار بھی ہو گیا تھا لیکن اس حالت میں بھی وہ بلا ناغہ کارخانے
جاتا رہا - عصمت گل نے اس قلیل سی تنخواہ میں سے بچت کر کے اپنے پیارے بیٹے
شمریز گل کے لئے منگل بازار سے کپڑوں کا ایک جوڑا اور کچھ کھلونے خریدے تھے
- وہ سوچتا رہتا تھا یہ چین بھی عجیب ملک ہے -اتنی کم قیمت کے کھلونے کیسے
مہیا کرتا ہے - شاید بہت نیک آدمی اس ملک کا بادشاہ ہے جو بچوں کو سستی
قیمت کے کھلونے بنا کر دیتا ہے -
یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ اس کی چھٹی شروع سے ایک روز قبل کارخانے کے پمپ
میں کوئی مسئلہ آگیا تھا - -سب ملازمیں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے - سب نے
سمجھ لیا کہ کہ سیٹھ ان کی تنخواہ اور ان کا بونس نہیں دے گا - سیٹھ کے
منیجر نے سب ملازمین کو بلایا اور کہا کہ تم لوگ ہمت نہیں ہارو -تمہیں پتہ
ہے کہ ہماری سپلائی عید کو بھی جاری رہتی ہے - - سمجھ لو کہ ان سب کی عید
ہماری سپلائی ہی کے سبب ہے - ان لوگوں کی عید مت خراب کرو اور یہ پمپ صحیح
کردو - - عصمت گل کے دل کی عجیب حالت تھی - اسے اپنے طویل سفر کا خیال آتا
کہ پشاورجانا ہے اور پھر اس کے بعد آگے کرایہ کی گاڑی میں اپنے گاؤں - وہ
کیسے پہنچے گا ؟ اس نے بچے کے لئے جو کھلونے اور کپڑے خریدے ہیں سب دھرے کے
دھرے رہ جائیں گے اسی وجہ سے اسکے انداز میں تھوڑا چڑ چڑا پن بھی پیدا ہو
گیا تھا - فور مین سب کو حوصلہ دے رہا تھا اور ہمت بڑھا رہا تھا - آخر سب
کچھ صحیح ہو گیا - پمپ کے اندر جو آواز پیدا ہورہی تھی بالکل ختم ہو گئی
جیسے اس میں آواز تھی ہی نہیں - ادھر گاڑی جانے میں ایک گھنٹہ رہ گیا تھا -
سب مزدوروں کو تنخواہیں اور بونس مل گیا -
عصمت گل ایک ہاتھ میں پیسے اور دوسرے میں سامان کا تھیلا تھامے سوچ رہا تھا
سب بے کار ہے - سب بے کار - فور مین خصوصی طور پر اس کے پاس گیا اور کہا
سیٹھ نے ٹیکسی کے لئے الگ پیسے دئے ہیں تاکہ تم وقت پر اسٹیشن پہنچ سکو اور
خود ہی رکشہ دلا کر ' عصمت گل کو بٹھا کر واپس ہوا -
سفر کے دوران ایک ہم سفر نے کہا کہ پشاور والے ابھی فیصلہ کر رہے ہیں کہ کل
عید کریں یا پرسوں -
خدا کرے پرسوں عید ہو --- سب مسافروں نے صدق دل سے دعا کی - یہ سب اپنے
اپنے گھر عید منانے جا رہے تھے - سب کے پاس تحفے تحائف تھے جو انہوں نے گھر
والوں کے لئے خریدے تھے - سب مسافر کبھی کبھار ایک دم یہ تحائف ایک دم گرفت
میں لے لیتے تھے کہ شاید ان سے کوئی چھین رہا ہے - ایک مسافر جس کے پاس ایک
قیمتی موبائیل فون تھا اچانک مایوسی میں بڑ بڑایا "عید ہو گئی ہے ---کل عید
ہے "
نہیں --- نہیں -- دہ دروغ دے - باقی مسافر ایک دم چلائے اور اپنے اپنے
تحفوں کو سختی سے تھام لیا - یہ سچ نہیں ہے -- یہ جھوٹ ہے - ہم تو عید سے
دو دن قبل روانہ ہوئے تھے بلکہ عید نہ ہوتی تو سمجھو عید سے تین دن پیشتر
روانہ ہوئے تھے - یہ کیسے ہوا ---؟ یہ کیوں ہوا ؟ -ہم سب ملکر کیوں نہیں
چلتے ؟ ایک دوسرے کی دشواریوں کا احساس کیوں نہیں کرتے ؟ ایک دوسرے کے
مسائل کو کیوں نہیں سمجھتے ؟ ایک ساتھ عید کیوں نہیں کرتے ؟ یہ حکومت کا
کام ہے کہ عید کے ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کرے - لیکن ان کے دل جلانے سے کیا
ہوتا -
ایک خوب رو نوجوان سفید شلوار قمیض پہنے ہوئے اپنے حلئے سے کسی مدرسے کا
طالب علم لگ رہا تھا اپنی سنگل سیٹ پر بیٹھا کلام پاک میں سے سورہ انعام کی
تلاوت کر رہا تھا " اللہ تعالیٰ کے عذاب میں اوپر سے آفت سماوی بارش طوفان
وغیرہ -- زمین سے زلزلہ ' سیلاب اور آپس میں تفرقہ شامل ہیں -"
سب کے دل بجھ سے گئے -- وہ چہرے جو کچھ دیر پہلے شاداں و فرحان تھے اب
مایوسی کا نشان بنے ہوئے تھے - عصمت گل بھی ان میں شامل تھا - 'یہ لو --
چائے لو ' اس کی بیوی نے اسے اٹھایا اور وہ ماضی کی دھندلکوں سے نکل آیا -
'پھر کیا ہوا تھا ؟ ' عصمت گل نے پوچھا
کچھ نہیں -- تمہارا بیٹا شمریز گل بہت روتا تھا
عصمت گل کی ماں جو کونے میں سو رہی تھی اٹھ بیٹھی تھی - اس نے کہا 'بولتا
تھا --عید نہیں کروں گا - بابا نے تو عید سے پہلے پہنچنا تھا - یہ عید پہلے
کیوں پہنچ گئی - شاید ہوائی جہاز پر آئی ہے - ہوائی جہاز تو تیز ہوتا ہے
محلے والے بچے تمہارے بچے کا بہت مذاق اڑا رہے تھے کہ عید کے دن بھی اس کے
پاس کپڑے نہیں ہیں - پرانے کپڑے ہیں - بس وہ گھر آکر بیٹھ گیا کہ میری عید
نہیں ہے -- نہ جانے کس کی عید ہے - میں عید نہیں مناؤں گا - میں نے بھی اسے
بٹھا لیا کیوں کہ جو لوگ عید نہیں منا رہے تھے مسجد والے انہیں مار رہے تھے
- وہ اسے بھی مارتے - پھر شمریز گل خاموش ہو گیا تھا - کبھی کبھی آنسو بہنے
لگ جاتے تھے - اسی طرح وہ روتے روتے سو گیا ہے - اس کی ماں متواتر بولے جا
رہی تھی -
ہاں ماں ٹھیک کہتی ہو - عصمت گل اپنے بیٹے کے گال سہلاتے ہوئے بولا ہماری
قوم بھی سو چکی ہے -فہم و فراست کے بغیر بھی کوئی قوم قوم ہوتی ہے - اس میں
اور سوئی ہوئی قوم میں کوئی فرق نہیں - |