وَاِذَاسَمِعُو ‘ قرآن کریم کا ساتواں پارہ ہے ، اس کا
مطلب ہے ’’اور جب سنتے ہیں یہ لوگ‘‘ ۔ پارہ کا آغازسُورۃُ الْمَاءِدۃ کی
آیت83 سے ہوتا ہے، سُورۃُ الْمَاءِدۃکا اختتام اسی پارہ میں 120ویں آیت
پر ہوجائے گا ۔ یعنی پارہ چھ میں سُورۃُ الْمَاءِدۃ کی آخری 38 آیات کا
خلاصہ یہاں بیان کیا جائے گا ۔ اس کے بعدسورۃ الْانعْام شروع ہوگی جو کہ
مکی سورۃ ہے ، قرآن میں ترتیب کے اعتبار سے 6نمبر پر جب کہ نزول ترتیب میں
55ویں سورہ ہے ۔ اس میں 20رکو ع ہیں ، کل آیات 165ہیں ۔ ساتویں پارہ میں
سورۃ الْانعْام کی110آیات شامل ہیں ۔
پارہ ساتواں سُورۃُ الْمَاءِدہ کی آیت 83 سے شروع ہوتا ہے جس میں اہل
نصاریٰ کی تعریف کی گئی ہے ۔ ارشاد ربانی ہے ’’اور جب وہ رسول پر نازہ کیا
گیا ،کلام سنتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں آنسووَں سے نم
ہوجاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں
اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے لہٰذتو ہمارے نام (حق کی) گواہی دینے والوں
کے ساتھ لکھ لے اور ہمارے پاس کیا عذر ہے کہ ہم اللہ پر اور جو حق ہم تک
پہنچا ہے اس پر ایمان نہ لائیں ;238; اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہ
میں نیک لوگوں کے گروہ میں داخل کرے گا‘‘ ۔ یہ آیات حبشہ میں رہنے والے
عیسائیوں ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ، تاہم روایت کی رو سے نبیﷺ نے حضرت
عمر و بن امیہ ضمری ;230; کو اپنامکتوب دے کر نجاشی کے پاس بھیجا تھا جو
انہوں ے جاکر اسے سنایا، نجاشی نے وہ مکتوب سن کر حبشے میں موجود مہاجرین
ور حضرت جعفر بن ابی طالب;230; کو اپنے پاس بلایا اور اپنے علماء اور عباد
وزہاد (قسیسین) کو بھی جمع کر لیا ، پھر حضرت جعفر ;230; کو قرآن کریم
پڑھنے کا حکم دیا ۔ حضرت جعفر;230; نے سورہ مریم پڑھی جس میں حضرت عیسیٰ
;174; کی اعجازی ولادت اوران کی ودیت و رسالت کا ذکر ہے جسے سن کو وہ بڑے
متاثر ہوئے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور ایمان لے آئے، بعض کہتے
ہیں کہ نجاشی نے اپنے کچھ علما نبیﷺ کے پاس بھیجے تھے جب آپ ﷺ نے انہیں
قرآن پڑھ کر سنایا تو بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور
ایمان لے آئے ۔
حلال و حرام کے بعض مسائل کا ذکر اگلے آیات میں ہوا ہے، فرمایا اللہ نے
’’اے ایمان والو جو ایمان لائے ہو! وہ پاکیزہ چیزیں کو حرام مت ٹہراوَ جو
اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں ، اورتم حد سے نہ گزرو، بے شک اللہ حد سے
گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، اور اللہ نے تمہیں جو حلال پاکیزہ رزق دیا
ہے اس میں سے کھاوَ، اور اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو‘‘ ۔ ان آیات
کا سببِ نزول وہ باتیں ہیں جن میں بعض لوگ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کے پاس
آیا کرتے اور ان اشیاء کے بارے میں جو اللہ کی جانب سے حلال کی گئیں ،کسی
بھی وجہ سے انہیں اپنے اوپر حرام کرنے کی باتیں کیا کرتے، بعض صحابہ زہد و
عبادت کی غرض سے بعض حلال چیزوں (مثلاً نکاح کرنے، رات کے وقت سونے، دن کے
وقت کھانے پینے سے اجتناب کرنا چاہتے تھے ۔ آپ ﷺ کے علم میں جب یہ باتیں
آئیں تو آپﷺ نے انہیں منع فرمایا اور اللہ کی جانب سے آیات بھی نازل
ہوئیں ۔ اس تسلسل میں اللہ نے بلاوجہ قس میں کھانے پر اور ان کے کفارہ ادا
کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ آیت 89 میں ارشاد ہوا ’’اللہ تمہاری بلا ارادہ
قسموں پر تمہیں نہیں پکڑے گالیکن ان قسموں پر ضرور پکڑ ے گا جو تم نے مظبوط
باندھ لیں ، چنانچہ اس کا کفارہ دس مسکینوں کو درمیانے درجے کا کھانا
کھلانا ہے جو اپنے اہل و عیال کوکھلاتے ہو یا انہیں کپڑے پہنانا ہے یا ایک
غلام آزاد کرنا ہے پھر جو اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے تین دن کے روزے
رکھنا ہے ۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا کر توڑ بیٹھو اور تم
اپنی قسموں کی حفاظت کرو ، اللہ اسی طرح تمہارے لیے اپنی آیتیں بیان کرتا
ہے تاکہ تم شکر کرو‘‘ ۔ شراب کے بارے میں یہاں تیسرا حکم آیا ، پہلے اور
دوسرے حکم میں صاف طور پر ممانعت نہیں فرمائی گئی لیکن یہاں آیت90 میں
شراب کے ساتھ جوا، پرستش گاہوں یا تھانوں اور فال نکالنے کے تیروں کو
’رِجس‘ پلید اور شیطانی کام قرار دے کر صاف الفاظ میں ان سے اجتناب کا حکم
دے دیا گیا ۔ شراب اور جوے کے نقصانات بھی بیان کیے گئے ۔ احرام کی حالت
میں شکار کرنے کی ممانعت کی گئی، ارشاد باری تعالیٰ ہے آیت 95 میں اے لوگو
جو ایمان لائے ہو! جب تم احرام کی حالت میں ہوتو شکار نہ مارو، اور تم میں
سے جو کوئی جان بوجھ کر شکار مارے تو جو جانور اس سے مرا اسے اس کے برابر
ایک جانوور مویشیوں میں سے فدیہ دینا ہوگا‘‘ ۔ اس جگہ آیت 98 میں اللہ
نے’’ حرمت والے گھر کعبہ کو لوگوں کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے اور حرمت والے
مہینے اور قربانی اور پٹوں والے جانوروں کو بھی حرمت دی، یہ اس لیے کہ تم
جان لو کہ بے شک اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں
ہے اور یہ کہ اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے‘‘ ۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ
کعبہ کو بیت الحرام اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی حدود میں شکار کرنا، درخت
کاٹنا وغیرہ حرام ہیں ۔
سُورۃُ الْمَاءِدہ کی آیت 110 میں حضرت عیسیٰ کا تذکرہ آیا ہے ۔ ارشاد
باری تعالیٰ ہے ’’ جب کہے گا اللہ’ اے عیسیٰ بن مریم! یاد کر میرا انعام جو
کیا میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر ، جب میں نے مدد کی تمہاری رُوح
لاقدس سے، باتیں کرتے تھے تم لوگوں سے گہورہ میں اور بڑی عمر میں بھی اور
جب سکھائی میں نے تم کو کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل اور جب بناتے
تھے تم گائے سے پرندے کی صورت میرے حکم سے، پھر پھونک مارتے تھے اس میں تو
بن جاتا تھا وہ پرندہ میرے حکم سے اور اچھا کردیتے تھے تم مادر زاد اندھے
کو اور کوڑھی کو میرے حکم سے اور جب نکال کھڑاکرتے تھے تم مُردوں کو میرے
حکم سے اور جب روکا تھا میں نے بنی اسرائیل کوتم پر زیادتی کرنے سے جب لے
کر گئے تھے تم اُن کے پاس روشن دلیلیں تو کہنے لگے وہ لوگ جو کافر تھے اُن
میں سے کہ نہیں ہے یہ، مگر جادو کھلا‘ ۔ اس آیت آیت میں حضرت عیسیٰ کے
گہوارہ میں باتیں کرنے سے مراد وہ واقعہ ہے جب حضرت عیسیٰ کی ماں پر الزام
لگایا کفار نے تو وہ اپنی ماں کی گود میں بول پڑے اور اپنی ماں کی بے گناہی
بیان کی ۔ اگلی آیت میں فرمایا ’’ اور جب دل میں ڈالا میں نے حواریوں کے
کہ ایمان لاوَمجھ پر اور میرے رسول پر تو وہ کہنے لگے ہم ایمان لائے اور اے
اللہ تو گواہ رہ کہ ہم مسلمان ہیں ۔ جب کہا حواریوں نے اے عیسیٰ بن مریم
کیا ایسا کرسکتا ہے، تمہارا تب کہ اُتارے ہم پر ایک خوان آسمان سے ، کہا
عیسیٰ نے کہ ڈرو اللہ سے اگر ہو تم مومن‘‘ ۔ حضرت عیسیٰ کی قوم نے خوان کا
مطالبہ کیا جس پر حضرت عیسیٰ نے اللہ سے خوان کی درخواست کہ وہ خوان نازل
کردے ، اللہ نے خوان اتارنے کا وعدہ کیا لیکن یہ بھی کہا کہ ’’پھر جس نے
ناشکری کی اس کے بعد تم میں سے تو میں عذاب دوں گا اس کو ایک ایسا عذاب کہ
نہیں دونگا اس جیسا عذاب کسی کو اہل جہاں میں سے‘‘ ۔ پھرجب اللہ نے عیسی
ابن مریم سے کہا ’کیا تونے کہا تھا لوگوں سے کہ بنالو مجھے اور میری ماں کو
دو معبود اللہ کے سوا‘‘عیسیٰ نے کہا کہ ’پاک ہے تو ، نہیں زیب دیتا مجھے کہ
کہوں میں ایسی بات جس کانہیں مجھے کوئی حق ، اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی
تو تجھے اس کا علم ہوتا ، تو جانتا ہے جو میرے دل میں اور نہیں جانتا میں
جو تیرے جی میں ہے‘‘ ۔ اس کے بعد قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ ارشاد
فرماتا ہے کہ ’’یہ وہ دن ہے کہ جولوگ سچے تھے ان کا سچا ہونا ان کے کام
آئے گا، ان کو باغ ملیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ
ہمیشہ و رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور خوش اور یہ اللہ سے راضی اور
خوش ہیں ، یہ بڑی بھاری کامیابی ہے ۔ قیامت کے ذکر کے ساتھ ہی سُورۃُ
الْمَاءِدہ ختم ہوجاتی ہے ۔
سورۃ الْانعْام
سورۃ مائدہ کے بعد سورۃ الْانعْام دوسرے پاوَ سے شروع ہوتی ہے جیسا کہ اوپر
کہا گیا کہ اس سورہ میں 165آیات ہیں اوربیس رکو ہیں ۔ یہاں ساتویں پارہ
میں 110آیات کا خلاصہ بیان کیا جائے گا ۔ یہ مکی سورۃ ہے ۔ وہ سورتیں جو
مکہ المکرمہ میں نازل ہوئیں ان میں عام طور پر تین بنیادی عقائد بیان ہوئے
ہیں ۔ توحید ، رسالت اور قیامت ۔ اس کے علاوہ اس سورہ میں جو مضامین زیادہ
بیان ہوئے ہیں ان میں شرک کی نفی کی گئی ہے، عقیدہ توحید کی دعوت، عقیدہ
آخرت کا بیان، فضول رسومات اور توہمات جو دور جہاہلیت میں راءج تھیں ان کی
تردید کی گئی ہے، اسلامی معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے لیے دلائل اور بیان،
کفار کے اعتراضات کو دو ٹوک جواب، نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ کی مشکلات
میں حوصلہ افزائی ، تسلی اور دل جوئی ، منکرین اور مخالفین کو سخت الفاظ
میں تنبیہ کی گئی ہے ۔ ابتدائی آیت میں کہا گیاکہ ’سب تعریفیں اللہ ہی کے
لیے ہیں جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور نور کو بنایا
،پھر بھی کافر اللہ کو اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں ، وہی اللہ ہے جس نے
تمہیں مٹی سے پیدا کیا ، پھر اس نے تمہارے لیے ایک وقت مقررف کیا اور اس کے
ہاں قیامت کا ایک مقرر وقت بھی ہے ، پھر بھی تم شک کرتے ہو ۔ فرمایا ’وہی
ہے معبود برحق آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، وہ تمہارے پوشیدہ احوال
کو بھی اور تمہارے ظاہراحوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس
کو بھی جانتا ہے‘ ۔ کفار نے اس سچی کتاب کو بھی جھٹلادیا ، کفار نے فرشتہ
کے ذریعہ اللہ کا پیغام پہنچانے کی بات کی،ان باتوں کا جواب اللہ تعالیٰ نے
ساتویں اور آٹھویں آیت میں اس طرح دیا ’اور اگر ہم کاغذ پر لکھا ہوا کوئی
نوشتہ آپ پر نازل فرماتے پھر اس کو یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے تب
بھی یہ کافر لوگ یہی کہتے کہ یہ کچھ بھی نہیں مگر صریح جھوٹ ہے، اور یہ لوگ
یوں کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا اوراگر ہم کوئی
فرشتہ بھیج دیتے تو سارا قصہ ہی ختم ہوجاتا ۔ پھر ان کو ذرا مہلت نہ دی
جاتی ‘ ۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جتنے بھی انبیا
ء و رسل بھیجے وہ انسانوں میں سے ہی تھے اور ہر قوم میں اسی کے ایک فرد کو
وحی و رسالت سے نوازدیا جاتا تھا ۔ یہ اس لیے کہ اس کے بغیر کوئی رسول
فریضہَ تبلیغ و دعوت ادا ہی نہیں کرسکتا تھا ۔ اگر فرشتوں کو اللہ رسول بنا
کر بھیجتا تو ایک تو وہ انسانی زبان میں گفتگو ہی نہ کر پاتے دوسرے وہ
انسان جذبات سے عاری ہونے کی وجہ سے انسان کے مختلف حالات میں مختلف کیفیات
و جذبات کے سمجھنے سے بھی قاصر رہتے ۔ ایسی صورت میں ہدایت و رہنمائی کا
فریضہ کس طرح انجام دے سکتے تھے ۔ اس لیے اللہ کا انسانوں پر ایک بڑ احسان
ہے کہ اس نے انسانوں کو ہی نبی اور رسول بنایا ۔ اللہ نے اس احسان کا ذکر
قرآن پاک کی سورۃ آل عمران میں فرمایا ہے ۔
آخرت کے بارے میں آیت 32 میں واضح طور پر کہا اللہ نے ’’ اور دنیا کی
زندگی بس کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں آخرت کا گھر ان لوگوں لے لیے یقینا
بہتر ہے جو پرہیز گاری اختیار کرتے ہیں ، کیا پھر بھی عقل نہیں رکھتے‘‘ ۔
روز قیامت کا ذکر سورہ72 میں بھی آیا جس میں اللہ نے فرمایا’وہی ہے جس نے
آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور جس دن وہ کہے گا ہوجا تو حشر
بپا ہوجائے گا، قول اس کا حق ہے، اور اسی کی حکومت ہوگی، جس دن صور پھونکا
جائے گا وہ چھپی اور ظاہر سب باتوں کو جاننے والا ہے اور وہی حکمت والا
خبررکھنے والا ہے‘ ۔ اس کے بعد یہاں حضرت ابراہیم ;174; کا ذکر آیا ہے ۔
نبی ﷺ کو لوگوں نے بہت پریشان کیا تو اللہ نے نبی ﷺ کی تسلی اور دلجوئی کے
لیے آیت نازل کی جس میں کہا گیا کہ ’اے نبی ! تحقیق ہم جانتے ہیں کہ بے شک
آپ کو وہ بات غمگین کرتی ہے جو وہ کہتے ہیں پس بے شک وہ آپ کو نہیں
جھٹلاتے بلکہ دراصل یہ ظالم تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ‘ ۔ نبی ﷺ
کی مزید تسلی کے لیے کہا گیا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ کافر اللہ کے
پیغمبر کا انکار کرتے رئے ہیں بلکہ اس سے پہلے بھی بہت سے رسولوں گزرچکے
ہیں جن کی تکزیب کی جاتی رہی، پس آپ بھی ان کی اقتدا کرتے ہوئے اسی طرح
صبر کریں اور حوصلے سے کام لیں ۔ آیت 32-34 میں اللہ نبیﷺ سے اس طرح مخاطب
ہوا ۔ ’’ اے نبی! بے شک آپ سے پہلے بہت سے رسول جھٹلائے گئے ، تو انہوں نے
جھٹلائے جانے اور تکلیف دیے جانے پر صبر کیا، حتیٰ کہ ان کے پا س ہماری مدد
آپہنچی اور اللہ کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں ‘ ۔ غیب کا علم صرف
اللہ ہی کو ہے‘‘ ۔ آیت 59 میں اس پر بات کی گئی اس آیت سے علم ہوتا ہے کہ
عالم غیب صرف اللہ کی ذات ہے، غیب کے سارے خزانے اسی کے پاس ہیں ، اس لیے
کفار و مشرکین وار معاندین کو کب غذاب دیاجائے;238; اس کا عل بھی صرف اسی
کو ہے وہی اپنی حکمت کے مطابق اس کا فیصلہ کرنے والا ہے ۔ حدیث میں بھی
آیا ہے کہ مفاتح الغیب پانچ ہیں قیات کا علم، بارش کا نزول، رحم مادر میں
پلنے والا بچہ، آئندہ کل میں پیش آنے والے واقعات اور موت کہاں آئے گی ۔
ان پانچ امور کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ۔ نیند یا انسان کا سوجانا
گویا موت ہے ۔ آیت 60 میں اللہ نے کہا کہ ’اور اللہ ہی ہے جو رات کو تمہیں
فوت کرتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم دن میں کرتے ہو، پھر دوسرے دن تمہیں
اٹھاتا ہے تاکہ زندگی کی مقررہ مدت پوری کی جائے ، پھر اسی طرف تمہاری
واپسی ہے ، پھر وہ تمہیں بتادے گا جو تم کرتے رہے ہو‘ ۔ اللہ نے نیند کو
وفات سے تعبیر کیاہے اسی لیے اسے وفاتِ اصغر اور موت کو وفات اکبر کہا جاتا
ہے ۔ وفات کا ذکر سورہ آل عمران میں بھی آیا ہے ۔
آیات 83تا 86اللہ نے اپنے نبی ﷺ کی تسلی کے لیے اٹھارہ انبیاء کرام کا
تذکرہ کلام مجید میں کیا ہے ۔ آیت میں کہا گیا ’دلیل جو حضرت ابراہیم
;174; ;174;کو عطا کی اس کی قوم کے مقابلے میں ، بلند کرتے ہیں ہم درجات کے
چاہیں بے شک تیرا رب بڑی حکمت والا ہے،اور دی ہم نے اُسے اسحاق ;174;اور
یعقوب ;174;جیسی اولاد،سب کو راہ راست دکھائی ہم نے اور نو ح کو راہ دکھائی
ہم نے ان سے پہلے اور اسی کی نسل میں سے داوَد اور سلیمان ;174;اور، حضرت
ایوب اور یوسف ;174;اور موسیٰ ;174;اور ہارون ;174;کو بھی راہ دکھائی، اور
اسی طرح جزا دیتے ہیں ہم نیکو کاروں کو ۔ اور زکریا ;174;، اور یحییٰ
;174;اور عیسی ;174;اور الیاس ;174; کو بھی راہ دکھائی،یہ سب تھے صالحین
میں سے ،اورسماعیل ;174;، حضرت یسع ;174; اور یونس ;174; اور لوط ;174; کو
بھی اور سب کو فضیلت دی ہم نے سارے جہاں والوں پر‘ ۔ اٹھارہ انبیا کے
اسمائے گرامی کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ اگر یہ لوگ بھی شرک
کا ارتکاب کرلیتے تو ان کے سارے اعمال برباد ہوجاتے ، بالکل اس طرح جیسے
اللہ نے سورہ ’الزمر‘39، آیت 65 میں اللہ نے فرمایا ’جب کہ وحی بھیجی گئی
ہے تیری طرف اور ان انبیا کی طرف جو تجھ سے پہلے تھے ، اگر تم نے شرک کیا
تو ضرور ضائع ہوجائیں گے تمہارے اعمال اور ضرور ہوجاوَ گے تم گھاٹے میں
رہنے والوں میں سے‘ ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کے بارے میں
سخت موقف رکھتا ہے ، اس نے انبیاکو بھی اور آخری نبی حضرت محمدﷺ کو بھی
صاف الفاظ میں شرک سے دور رہنے کی تلقین کی ہے ۔ اللہ کے پر جھوٹی باتیں
لگانے میں انزال کتب اور ارسال رسل کا انکار بھی ہے اور جھوٹا دعوی ٰ بنوت
بھی ہے اسی طرح بنوت و رسالت کا انکار و استکبار ہے ان دونوں وجوہ سے انہیں
ذلت و رسوائی کا عذاب دیا جائے گا ۔ اس کی تفصیل آیت 93 میں آئی ہے ۔ بعض
لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹہرا دیا ، حالا نکہ اس نے تو جنو کو پیدا
کیا، انہوں نے بغیر تحقیق کے اللہ کے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لیے ، وہ پاک ہے
اور ان باتوں سے بلندجو وہ بیان کرتے ہیں ۔ اگلی آیت 101 میں اللہ نے
مشرکین کی ان باتوں کا جواب اس طرح دیا کہ’وہی آسمانوں اور زمین کا موجد
ہے اس کی اولاد کیسے ہوسکتی ہے جب کہ اس کی کوئی بیوی نہیں اور اسی نے ہر
چیز کو پیدا کیا ہے اورو ہی ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے‘ ۔ مشرکین طرح طرح
کے ہیلے بہانے اور عجب عجب منطق تلاش کر کے لایا کرتے تھے رسول اکرمﷺ کو
پریشان کرنے کے ۔ کفار نے کسی مخصوص اور بڑی نشانی کا مطالبہ کیا جیسے
عصائے موسیٰ ، احیائے موتی اور ناقہَ وغیرہ کی قسم کا ۔ اللہ نے آیت 109
میں کہا کہ’’ اے نبی! کہہ دیجئے نشانیاں تو صرف اللہ کے پاس ہیں اور تمہیں
یہ بات کون سمجھائے کہ بے شک جب وہ نشانی آجائے گی تو بھی وہ ایمان نہیں
لائیں گے‘‘ ۔ بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ کفار مکہ نے مطالبہ کیا تھا
کہ صفا پہاڑ سونے کا بنادیا جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے ۔ تفسیر ابن کثیر
میں ہے کہ اس بات پر جبرائیل نے آکر کہا کہ اگر اس کے بعد بھی یہ ایمان نہ
لائے تو پھر انہیں ہلاک کردیا جائے گا لہٰذا آپ چاہیں تو ان کو ان کے حال
پر چھوڑ دیں ، ہمارے نبی ﷺ نے اسے پسند فرمایا ۔ پارہ 7 وَاِذَاسَمِعُو کا
یہاں اختتام ہوتا ہے ۔ (7 رمضان المبارک 1440ھ، 13مئی2019ء)
|