محرر : ولی قادری مدنی (حسنین اشرف )
اللہ کے محبوب ،دانائے غیوب ، منزہ عن العیوب عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ
واالہ و سلم کا فرمانِ تقرب نشان ہے : بے شک بروزِقِیامت لوگوں میں سے میرے
قریب تَر وہ ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ دُرُود بھیجے ۔ (جامع ترمذی )
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
مرحبا صد مرحبا پھر آمدِ رَمضان ہے كِھل اٹھے مرجھائے دل تازہ ہوا ایمان ہے
ہم گناہگاروں پہ یہ كتنا بڑا احسان ہے یا خدا تُونے عطا پھر كردیا رمضان ہے
یا الہی تو مدینے میں كبھی رمضاں دكھا مدتوں سے دل میں یہ عطار كے ارمان ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !اللہ عزوجل کا کروڑہا کروڑ اِحسا ن ہے کہ اُس
نے ہمیں ماہِ رَمَضَان جیسی عظیمُ الشّان نِعمت سے نوازا ہے ۔ یہ ہی وہ
مہینہ ہے کہ جب اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ رجب کا چاند
دیکھتے تو یہ دعافرماتے: اللّھم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا الیٰ
رمضان ترجمہ :اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطافرما
اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا دے یعنی ہماری عمر اتنی دراز کردے کہ
ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب ہوجائے ۔
ماہ رمضان کی فضیلت
ماہِ رَمَضَان کے فَیضَان کے کیا کہنے !اِس کی تو ہر گھڑی رَحمت بھری ہے۔اس
مہینے میں آسمان اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور تمام اعمال کا
ثواب بڑھا کر دیا جاتا ہے۔نَفْل کا ثواب فَرض کے برابر اور فَرْض کا ثواب
ستّر گُنا کردیا جاتا ہے ۔بلکہ اِس مہینے میں تو روزہ دار کاسونا بھی عبادت
میں شُمار کیا جاتاہے، چنانچہ
سَیّدُناابو سعید خُدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، مکّی مَدَنی
سلطان، رَحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ رَحمت نشان ہے: جب
ماہِ رَمَضَان کی پہلی رات آتی ہے تو آسمانوں اور جنّت کے دروازے کھول دیئے
جاتے ہیں اور آخِر رات تک بندنہیں ہوتے۔ جو کوئی بندہ اس ماہِ مُبارَک کی
کسی بھی رات میں نَماز پڑھتا ہے تَو اللہ عز وَجَلَّ اُس کے ہر سَجْدہ کے
عِوَض(یعنی بدلہ میں ) اُس کے لئے پندرہ سو نیکیاں لکھتا ہے اور اُس کے لئے
جنّت میں سُرخ یا قُوت کا گھر بناتا ہے۔جس میں ساٹھ ہزار دروازے ہوں گے۔اور
ہر دروازے کے پَٹ سونے کے بنے ہوں گے جن میں یا قُوتِ سُرخ جَڑے ہوں گے۔پس
جو کوئی ماہِ رَمَضَان کا پہلا روزہ رکھتا ہے تَواللہ عز وَجَلَّ مہینے کے
آخِر دِن تک اُس کے گُناہ مُعاف فرمادیتا ہے،اور اُس کیلئے صبح سے شام تک
ستّر ہزار فِرِشتے دُعائے مَغفِرت کرتے رہتے ہیں۔ رات اور دِن میں جب بھی
وہ سَجدہ کرتاہے اُس کے ہر سَجدہ کے عِوَض (یعنی بدلے)اُسے (جَنّت میں)ایک
ایک ایسا دَرَخْت عطا کیا جاتاہے کہ اُس کے سائے میں گھوڑے سُوار پانچ سو
برس تک چلتا رہے۔ (شُعَبُ الایمان)اس مہینے اللہ عزوجل اپنی مخلوق پر نظر
رحمت فرماتا ہے اور ہر روز لاکھوں گناہ گارو ں کو جہنم سے آزاد فرمادیتا
ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : جب رَمَضان کی پہلی رات ہوتی
ہے تَو اللہ تعالیٰ اپنی مَخلوق کی طرف نَظَر فرماتا ہے اور جب اللہ
عَزَّوَجَلَّ کسِی بندے کی طرف نظر فرمائے تو اُسے کبھی عذاب نہ دے گا۔اور
ہر رَوز دس لاکھ (گُنہگاروں) کو جہنَّم سے آزاد فرماتا ہے اور جب اُنتیسویں
رات ہوتی ہے تَو مہینے بھر میں جتنے آزاد کیے اُن کے مَجموعہ کے برابر اُس
ایک رات میں آزاد فرماتا ہے ۔ پھر جب عِیدُ الفِطْرکی رات آتی ہے۔ مَلائِکہ
خوشی کرتے ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے نُور کی خاص تَجلّی فرماتا ہے
اور فِرِشتوں سے فرماتا ہے،''اے گُرَوہِ مَلائکہ ! اُس مزدورکا کیا بدلہ ہے
جس نے کام پورا کرلیا؟''فِرِشتے عرض کرتے ہیں ،''اُس کو پُورا پُورا اَجْر
دیا جائے۔''اللہ تعالیٰ فرماتاہے،''میں تمہیں گواہ کرتا ہوں کہ میں نے ان
سب کو بَخش دیا۔'' (کَنْزُ الْعُمّال)
ایک اور حدیث پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرماتے ہیں : اللہ
عَزَّوَجَلَّ ماہِ رَمَضان میں روزانہ اِفطار کے وَقت دس لاکھ ایسے
گُنہگاروں کو جَہنّم سے آزاد فرماتا ہے جن پر گُناہوں کی وجہ سے جہنّم
واجِب ہوچُکا تھا،نِیز شبِ جُمُعہ اور روزِ جُمُعہ(یعنی جُمعرات کو غُروبِ
آفتاب سے لے کر جُمُعہ کو غُروبِ آفتاب تک )کی ہر ہر گھڑی میں ایسے دس دس
لاکھ گنہگاروں کوجہنَّم سے آزاد کیا جاتا ہے جو عذاب کے حقدار قرار دئیے
جاچُکے ہوتے ہیں۔ (کَنْزُ الْعُمّال)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ماہِ رَمَضان میں ہمیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
خوب خوب عِبادت کرنی چاہئے اور ہر وہ کام کرنا چاہئے جس میں اللہ
عَزَّوَجَلَّ اور اسکے مَحبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب
عَزَّوَجَلَّ و صلی اللہ علیہ وسلم کی رِضا حاصل ہو۔ اِس مقدس مہینے میں
اللہ عزوجل کی اپنے بندوں پربے شمار عنایات فرماتا ہے ، حدیث پاک میں ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ سلم نے ارشاد فرمایا : اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان
کیا ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ کاش ! پورا سال رمضان ہی ہوتا ۔ (صحیح ابن
خزیمہ )
روزے کی فرضیت اور اس کی فضیلت
اللہ عزوجل نے رمضان کے روزوں کو مسلمانوں پر فرض قرار دیا ہے ، اللہ عزوجل
سورہ بقرہ آیت 183 میں فرماتا ہے :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا
کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوۡنَ
ترجمہ : اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر
فرض کئے گئے تھے تا کہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔
احادیث مبارکہ میں بھی روزوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے ، چنانہ حضرتِ
سَیِّدُنا ابو سَعید خُدْری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایت ہے کہ ہمارے
میٹھے میٹھے آقا مکّی مَدَنی مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جس نے
رَمَضان کا روزہ رکھا اور اُس کی حُدُود کو پہچانا اور جس چیز سے بچنا
چاہیے اُس سے بچا تَو جو(کچھ گناہ) پہلے کرچکا ہے اُس کاکَفَّارہ ہوگیا۔
(الاحسان بترتیب صحیح ابنِ حَبّان) ایک اور حدیث پا ک میں ہے کہ حضرتِ
سَیِّدُنا ابُوہُریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایت ہے کہ سلطانِ دوجہان
شَہَنشاہِ کون ومکان، رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : آدمی
کے ہر نیک کام کا بدلہ دس سے سات سو گُنا تک دیا جاتا ہے۔ سوائے روزے کے کہ
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: اِلَّا الصَّوْمَ فَاِنَّـہ ٗ لِیْ وَاَنَا
اَجْزِیْ بِہٖ۔ روزہ میرے لئے ہے اور اِس کی جَزا میں خودُ دوں گا۔
حدیث قدسی ہے : بندہ اپنی خواہِش اور کھانے کو صِرف میری وَجَہ سے تَرک
کرتا ہے۔روزہ دار کیلئے دو خوشیاں ہیں۔ایک اِفطار کے وَقت اور ایک اپنے ربّ
عَزَّوَجَل سے ملاقات کے وَقت ۔ روزہ دار کے منہ کی بُواللہ عَزّوَجَلَّ کے
نزدیک مُشک سے زیادہ پاکِیزہ ہے۔ (صحیح مسلِم) مزید ارشاد ہے ، روزہ سِپَر
(یعنی ڈھال) ہے اور جب کسی کے روزہ کا دِن ہو تو نہ بے ہُودہ بَکے اور نہ
ہی چیخے۔پھر اگر کوئی اورشَخص اِس سے گالَم گلوچ کرے یا لڑنے پر آمادہ ہو،
تو کہہ دے ، میں روزہ دا رہوں۔ (صحیح بخاری)
جس طرح حدیث پاک میں روزہ رکھنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے ، اس ہی روزہ نہ
رکھنے والوں یا روزہ رکھ کر بلا وجہ توڑنے والوں کے لیے وعید ذکر کی گئی ہے
، حدیث پاک میں ہے حضرتِ سَیِّدُنا اَبُواُمامَہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
فرماتے ہیں، میں نے سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ
فرماتے سُنا ، میں سَویا ہواتھا تَو خواب میں دو شخص میرے پاس آئے اور مجھے
ایک دُشوار گُزار پہاڑ پر لے گئے ۔جب میں پہاڑ کے درمِیانی حصّے پر پہنچا
تو وہاں بڑی سَخت آوازیں آرہی تھیں، میں نے کہا: یہ کیسی آوازیں ہیں؟ تَو
مجھے بتایا گیا کہ یہ جہنَّمیوں کی آوازیں ہیں۔پھر مجھے اور آگے لے جایا
گیا تَو میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گُزرا کہ اُن کو اُن کے ٹخنوں کی
رَگوں میں باندھ کر (اُلٹا) لٹکایا گیا تھا اور اُن لوگوں کے جَبڑے پھاڑ
دئیے گئے تھے جن سے خون بِہ رہا تھا۔تَو میں نے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں؟
تَو مجھے بتایا گیا کہ یہ لوگ روزہ اِفطار کرتے تھے قَبل اِس کے کہ روزہ
اِفطار کرنا حَلال ہو۔ (صحیح ابن حبّان )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ روزے کا مطلب
صرف کھانے ، پینے سے رکنا نہیں بلکہ روزے کا مطلب ہے اپنے آپ کو تمام
گناہوں اور فضولیات والے کام سے بچانا بھی ہے ، اگر کوئی سارا دن کھانے
پینے سے تو رک جاتا ہے ، مگر دیگر گناہوں بھر ے کا م کرتا ہے تو اس کے روزے
کی اللہ عزوجل کو کوئی حاجت نہیں ، حدیث پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : جو بُری بات کہنا اور اُ س پر عَمَل کرنا نہ چھوڑے تَو اُس
کے بُھوکا پیاسا رہنے کی اللہ عَزّوَجَل کو کچھ حاجت نہیں ۔ (صحیح بُخار
ی)ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،صِرف کھانے اور
پینے سے باز رہنے کا نام روزہ نہیں بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ لغو اور بے ہُودہ
باتوں سے بچاجائے ۔ (مُسْتَدْرَک لِلْحَاکِم)
مدنی منے اور مدنی منیوں کو کتنی عمر میں روزہ رکھنا چاہیے
اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ احمد رضا خان علیہ الر حمۃ الرحمن فرماتے ہیں
: بچّہ جیسے آٹھویں سال میں قدم رکھے اس کے وَلی (یعنی سرپرست ) پر لازِم
ہے کہ اسے نماز روزے کا حکم دے اور جب اُسے گیارہواں (سال ) شروع ہوتو وَلی
پر واجب ہے کہ صوم و صلوٰۃ (یعنی روزے اور نماز کے ادا نہ کرنے ) پر مارے
بشرطیکہ نماز و روزے کی طاقت ہو اور یہ ضَرر (یعنی نقصان ) نہ کرے ۔ حدیثِِ
پاک میں ہے : جب بچّے سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز کا حکم دو اور دس
سال کے ہوجائیں توانہیں نماز نہ پڑھنے پر سزا دو ۔ (سنن ابو داود )
تراویح
الحمد للہ عزوجل !رَمَضانُ الْمبارَک میں جہاں ہمیں بے شمار نعمتیں مُیسَّر
آئی ہیں انہی میں تراویح کی سنّت بھی شامِل ہے ، سنّت کی عظمت کے کیا کہنے
! اللہ کے پیارے رسول، رسولِ مقبول، سیِّدہ آمِنہ کے گلشن کے مہکتے پھول
عَزَّوَجَلَّ و صلی اللہ علیہ وسلم و رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمانِ جنّت
نشان ہے : جس نے میری سنّت سے مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی اور
جس نے مجھ سے مَحَبَّت کی وہ جنّت میں میرے ساتھ ہو گا۔(جامع ترمذی )
تراویح سنّتِ مُؤَکَّدَہ ہے اور اس میں کم از کم ایک بار ختمِ قراٰن بھی
سنّتِ مُؤَکَّدَہ ، حدیث پاک میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : بے شک اللہ عزوجل نے رَمضان کے روزے تم پر فرض کئے اور میں
نے تمہارے لیے رَمضان کے قیام کو سنت قرار دیا ہے لہٰذا جو شخص رَمضان میں
روزے رکھے اور ایمان کے ساتھ اورحصولِ ثواب کی نیت سے قیام کرے (یعنی
تراویح پڑھے) تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے ولادت کے دن اس کو اس
کی ماں نے جنا تھا۔(سنن نسائی )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کیسے گزارتے تھے ؟
ہمارے پیارے پیارے اور میٹھے میٹھے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اس مبارک مہینے
کی آمد کے ساتھ ہی عِبادتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں بہت زیادہ مَگن ہوجایا
کرتے تھے۔ چُنانچِہ اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ
رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: جب ماہِ رَمَضان آتا تو میرے سَرتاج،
صاحِبِ مِعراج صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عِبادت کیلئے
کَمربَستہ ہو جاتے اورسارا مہینہ اپنے بِسترِ مُنَوَّرپر تشریف نہ لاتے۔
(اَلدُّرُّ المَنْثُور )
ایک اور روایت میں ام المومنین حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا
فرماتی ہیں : جب ماہ رمضان تشریف لاتا تو حضور اکرم ، نور مجسم ، شاہ بنی
آدم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ متغیر (تبدیل ) ہو جاتا اور نماز کی کثرت
فرماتے اور خوب دعا ئے مانگتے ۔ (شعب الایمان ) ایک روایت میں حضرت عبد
اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں : جب ماہ رمضان آتا تو سرکار مدینہ
صلی اللہ علیہ سلم ہر قیدی کو رہا کرتے اور ہر سائل کو عطا فرماتے ۔(در
منثور )
ہم رمضان کیسے گزاریں ؟
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اس مقدس مہینے کو عظیم
الشان طریقے سے خوش آمدید کہنے کی تیاری شروع کردیں ، اسے فضولیات اور غفلت
میں گزارنے کے بجائے اخلاص کے ساتھ نیک اعمال میں گزاریں ۔ افسوس ! اس
مہینے میں اکثر لوگ اپنا قیمتی وقت پتنگ بازی ، کبوتر بازی ، کرکٹ ، فٹبال
، لڈو ، کیرم ، اسنوکر ، ویڈیو گیم ، موبائل و انٹر نیٹ کے استعمال اور
بازاروں میں گھوم پھر کر گنوا دیتے ہیں ، یاد رکھیے ! ہرگز دین اسلام کی
تعلیمات یہ نہیں ہیں، دین اسلام ہمیں بالخصوص اس مبارک مہینہ میں اللہ
عزوجل کی عبادت کی طرف کمر بستہ ہونے، مسجد و قرآن سے اپناتعلق جوڑنے اور
لہو و لعب اور فضولیات سےبچنے کا درس دیتا ہے۔ لہذا ہمیں اپنے قیمتی وقت کی
قدر کرتے ہوئے اس ماہ مبارک کے ہر وقت کو نیکی والے کاموں میں گزارنے
چاہییں۔براکام ہر وقت اور ہر جگہ برا ہے اور کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے
مگر بالخصوص اس مقدس مہینے کا احترام کرتے ہوئے ہمیں جھوٹ ، غیبت ،
چغلی،وعدہ خلافی ، گالی گلوچ ، ماں باپ کی نافرمانی ، لوگوں کی دل آزاری سے
بچیں گے تو ان شاء اللہ عزوجل باقی سال بھی ان گناہوں سے بچنے کی عادت رہے
گی۔
فرائض و واجبات تو ہمیشہ ادا کرنے ہوتے ہیں اس مہینے میں ہمیں ان کے ساتھ
ساتھ سنن و مستحبات پر بھی عمل کرنا چاہیے ، نوافل کی کثرت کرنی چاہیے ، ہر
لمحے کو ذکر و اذکار میں گزارنےکی پوری کوشش کرنی چاہیے ۔ روزانہ تلاوت
قرآن کے ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ اور تفسیر( تفسیر صراط الجنان ) بھی پڑھنی
چاہیے ، جو درست طریقے سے قرآن مجید کی تلاوت نہ کر سکتے ہوں انھیں کسی
قاری صاحب کے پاس مدنی قاعدہ پڑھ کر درست ناظرہ ٔ و قرآن کی مشق کرنی چاہیے
۔ جو حافظ ہو ، ان کو اپنی منزل مضبوط کر کے تراویح پڑھانی یا کم از کم
سماعت کرنی چاہیے ۔اس لیے کے حدیث پاک میں قرآن کو یاد کرکے بھول جانے کی
کثرت سے وعید ات ذکر کی گئی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
جو شخص قرآن حکیم پڑھنا سیکھ لے پھر اسے بُھلا دے وہ اﷲ تعالیٰ سے اِس حال
میں ملاقات کرے گا کہ ا س پر (مرضِ) کوڑھ طاری ہوگا۔(ابو داود)
درود و سلام تو ویسے بھی اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے پڑھتےہی رہنا چاہیے لیکن
بالخصوص اس ماہ مبارک میں درود و سلام کی کثرت کرنی چاہیے۔ حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر ایک دن میں ہزار مرتبہ درود
بھیجتا ہے اسے اس وقت تک موت نہیں آئی گی جب تک وہ جنت میں اپنا ٹھکانہ نہ
دیکھ لے۔ (الترغیب و الترھیب ) اس کے ساتھ ساتھ ہمیں حمد و نعت سننے سنانے
میں اور علم دین کی محفل میں وقت گزارنا چاہیے ۔ بالخصوص رمضان میں ہونے
والے مدنی کاموں اور ماہ رمضان کے مدنی مذاکروں میں اول تا آخر شرکت کرنی
چاہیے۔ مدنی چینل پر نشر ہونے والے فیضان رمضان سے مالا مال مختلف سلسلے
دیکھنے اور دعوت اسلامی کے تحت ہونے والے اجتماعی اعتکاف کی سعادت سے
فیضیاب ہونا چاہیے ، بالخصوص نویں اور دسویں جماعت کے طلبہ اپنے سرپرست کی
اجازت سے اجتماعی سنت اعتکاف کی ضرور سعادت حاصل کریں، اور نیک لوگوں کی
صحبت سے فیضیاب ہوں۔
الغرض اس ماہ میں ہمیں ہر اس نیک و جائز کام میں وقت گزارنا چاہیے جس سے
اللہ عزوجل اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا حاصل ہو ۔ اے
کاش ! ہم گناہگاروں کی ناقص عقل میں بھی رمضان المبارک کی اہمیت راسخ
ہوجائے اور ہم بھی اس مہینے میں نیکیاں جمع کرکے اپنے آپ کو جہنم سے نجات
دلانے اور جنت کا حق دار بنانے میں کامیاب ہوجائیں ۔ آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہ علیہ وسلم
|