سٹار پلس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے ستارے ٢

اسلام علیکم
سٹار پلس کے ستارے آرٹیکل جب میں نے لکھا تو یہ میرے دل کی ایک بات تھی جو میں نے چاہا کہ آپ لوگوں سے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا جائے۔ اس پر آپ دوستوں کی طرف سے بہت اچھے اچھے کمنٹس بھی ملے جنہیں پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔

پچھلی دفعہ کچھ باتیں ادھوری اور ان کہی رہ گئ تھیں جن کو میں اس دفعہ بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

جہاں تک انڈین میڈیا یا انڈین ڈراموں کا تعلق ہے تو اس مسئلے میں ہمارا معاشرہ دو بڑے بڑے طبقوں میں بٹ چکا ہے۔ ایک وہ طبقہ ہے جو پہلے دن ہی سے، چاہے وہ آدم اور شیطان کا معاملہ ہو۔ چاہے ابراہیم اور نمرود کا چاہے موسیٰ اور فرعون کا،چاہے محمد اور قریش کے بت پرستوں کا،یا پھر چاہے اگست ١٩٤٧ کے زمانے سے ہی اپنی شناخت اور تہذیب و ثقافت کے لئے ہو ہمیشہ اپنے مخالف نظریات کے حامی لوگوں کا مخالف رہا ہے اور ہر پلیٹ فارم پر اس کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جن کے دل میں اپنے مذہب اپنی ثقافت و تہذیب سے محبت اور خلوص پایا جاتا ہے ۔ یہ طبقہ کسی صورت بھی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ آج ہزاروں سال بعد وہ پیغمبروں، رسولوں اور بزرگان دین کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کریں جن سے کہ ان کی تعلیمات کی نا صرف مخالفت ہو بلکہ ان کی تذلیل و تضحیک بھی ہوتی ہو۔

اور بات صرف مذہب ہی کی نہیں ہے ہمیں اس بات کو مان لینا چاہیے کہ ان نام نہاد ڈراموں کی وجہ سے ہمارے معاشرے نے بہت خطرناک اور قابل نفرت چیزیں حاصل کی ہیں جن کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آج ہمارے رشتوں میں بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔ آج لوگ پہلے سے زیادہ احساس کمتری کا شکار ہیں کیونکہ ان کو کامیاب زندگی کی ایک تصویر دکھائی جاتی ہے جس کا حصول ان کو ناممکن دکھائی دیتا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یا تو اپنی زندگی سدھارنے کیلئے چوری ڈاکے کا راستہ اختیار کیا جائے یا پھر درویشانہ انداز زندگی اپنا لیا جائے۔ کیونکہ ہیرو وہی ہے جو ایک بڑی سی گاڑی میں گھومتا ہے اور زندگی کی تمام سہولیات اس کے پاس ہیں جس کو دیکھ کر دوسرے لوگ اس کے زیر اثر نظر آتے ہیں ۔ اور جب ایسے ہیرو کی پیروی کرنے کی بات آتی ہے تو اکثر لوگ کو زندگی کا کوئی مقصد ہی نظر نہیں آتا ۔ وہ اپنے آپ کو معاشرہ کا ایک بدقسمت انسان سمجھنے لگ پڑتا ہے جو کہ ایک بہت خطرناک بات ہے کیونکہ اس کو اپنی قسمت سدھارنے کے لیے جو طریقے ان ڈراموں سے ملتے ہیں وہ دھوکہ دہی، فریب ،حق تلفی ، جھوٹ، مکاری اور قتل و غارت کا راستہ دکھاتے ہیں۔ اور بڑے دکھ کی بات ہے کہ لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں۔

جب کیبل نیٹ ورک کا دور شروع ہوا تو ہمارے ملک میں تمام علما نے اس کے نتائج سے خبردار کیا تھا۔ مگر ان کی آواز کو لاؤڈ اسپیکر ایکٹ سے دبا دیا گیا۔ان ہی میں سے ایک نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ اگر آپ کو کسی جہاز میں یا ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر آسمان پر لے جایا جائے اور وہاں سے آپ دیکھیں تو یہ کیبل نیٹ ورک کا جال شیطان کی آنتوں کی صورت ہمارے ملک کے ہر گھر میں گھس چکا ہے ۔ ہمارے بچے ہماری اولاد اور نادان بہن بھائی اس زہر سے متاثر ہو رہے ہیں مگر ہم میں سے کسی کو بھی یہ توفیق نہیں ہے کہ اس کا سدباب کیا جائے۔ یہاں یہ بات آتی ہے کہ کیبل نیٹ ورک بذات خود بری چیز نہیں ہے اس پر تو اچھے معلوماتی، تفریحی اور اسلامی چینلز بھی آتے ہیں ۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنے فیصد لوگ یہ چینلز دیھکتے ہیں اور کتنے لوگ بھارتی۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Ahmad Faisal Ayaz
About the Author: Ahmad Faisal Ayaz Read More Articles by Ahmad Faisal Ayaz: 9 Articles with 13640 views My name is Ahmad Faisal Ayaz. (Gd PU Lahore). I live in Hafizabad. I am a small writer and have written a novel named "Khawab Adhory hain mere".
As w
.. View More