قرآن کریم : پارہ10 (وَاعْلَمُوْ) خلاصہ

وَاعْلَمُوْ‘ قرآن کریم کادسواں (10 )پارہ ہے ، اس کا مطلب ہے ’اوراے مسلمانوں جان لو‘ ۔ پارہ کا آغاز سورۃ الْاَنْفَال کی آیت 41 سے ہوتا ہے ۔ اس کی آخری آیت 75 ویں ہے ۔ گویا یہاں سورہ انفال کی24 آیات کا خلاصہ بیان کیا جاے گا ۔ پھر سُوْرَۃ التَّوْبَہ شروع ہوگی ۔

یہاں سورۃ الْاَنْفَالکی جن آیات میں مختلف موضوعات کا بطور خاص ذکر آیا ہے ان میں مال ِغنیمت، غزوہ بدر کے حالات، اللہ کی فتح نصرت کے اسباب، جنگ سے متعلق ہدایات اور ہجرت اور نصرت کے فضائل کا بیان ہے ۔ مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں آیت 41 میں بیا ن ہوا ہے کہ ’’ اور اے مسلمانوں جان لو کہ تم جو کچھ بھی مال غنیمت حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ یقینا اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور اس کے رشتے داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے ۔ اگرتم اللہ پر ایمان لائے ہو اور اس پر اس پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلے کے دن اتارا جس دن دو فوجوں میں ٹکراوَ ہواتھا اور اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے‘‘ ۔ مفسرین نے جنگ میں حاصل ہونے والے مال غنیمت کی تقسیم کی وضاحت اللہ کی ہدایت کے روشنی میں کی ہیں ، اس آیت میں اللہ کا لفظ تو بطور تبرک ، نیز اس لیے کہ ہر چیز کا اصل مالک وہی ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے سے مراد اللہ اور اس کے رسول کے حصے سے ایک ہی ہے، یعنی سارے مال غنیمت کے پانچ حصے کرکے چار حصے تو ان مجاہدین میں تقسیم کیے جائیں گے جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا ۔ ان میں بھی پیادہ کو ایک حصہ اور سوار کو تین گنا حصہ ملے گا، پانچواں حصہ جسے عربی میں ’’خُمُس ‘‘ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ یہ حصہ اپنی ضروریات، ازواج مظہرات کی ضروریات اور مسلمانوں کے مفاد عامہ میں لگاتے،لیکن آپ نے فرمایا ’’میرا جو پانچواں حصہ ہے وہ بھی مسلمانوں کے مصا لح ہی پر خرچ کیا جائے گا‘‘ ۔ مال غنیمت کا ذکر غزوہَ بدر کے حوالے سے اللہ نے کیا ۔ بعد میں اگلی آیت میں اللہ نے جنگ بدر کے بارے میں خوبصورت منظر کشی کی ہے ، ایسا لگتا ہے کہ ہم اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ غزوہ بدر کی تفصیل آیت 42سے شروع ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے ’’ جب کہ تم میدان بدر کے قریب والے کنارے پر تھے اور وہ کافر دور والے کنارے پر تھے، اور قریش کا تجارتی قافلہ تم سے بہت نیچے بحیرہ قلزم کے ساحل کی طرف تھا ۔ اور اگر تم دونوں فریق جنگ کے لیے آپس میں وعدہ کرتے تو مقررہ وقت پر ضرور اختلاف کرتے لیکن ہوا یہ کہ دونوں گروہ آمنے سامنے آگئے تاکہ اللہ اس کام کو پورا کردے جو ہونے والا تھا تاکہ جو ہلاک ہووہ حجت قائم ہونے سے ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ دلیل سے حق پہچان کر زندہ رہے اور بے شک اللہ خوب سننے والا ، خوب جاننے والا ہے‘‘ ۔ یہاں اللہ تعالیٰ بنی ﷺ کو وہ خواب بھی یاد دلا رہا ہے جس میں کافروں کی تعداد کم بتائی تھی ۔ آیت 43 میں اللہ فرماتا ہے ’’ اے نبی ! یاد کریں جب اللہ نے خواب میں آپ کو ان کی تعداد کم دکھائی اور اگر وہ آپ کو ان کی تعداد زیادہ دکھاتا تو تم ضرور ہمت ہار دیتے اور اس معاملے میں آپس میں اختلاف کرتے لیکن اللہ نے تمہیں بچالیا، بے شک وہ سینوں کے بھیک خوب جانتا ہے‘‘ ۔ اس کے بعد اللہ مسلمانوں کو جنگ میں دونوں فریقین کے آمنے سامنے کی صورت اس طرح بیان کررہا ہے ۔ فرمایا اللہ نے’’اے مسلمانوں یاد کرو! جب تم کافروں کے آمنے سامنے ہوئے تو اللہ نے انہیں تمہاری نظروں میں تھوڑا دکھایا اور تمہیں ان کی نظروں میں تھوڑا دکھایا تاکہ اللہ اس کام کو پورا کردے جو ہونے والا تھا اورسب کام اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں ‘‘ ۔ غزوہ بدر میں فتح و نصرت کے بیان کے بعد اللہ نے نصرت کے چار عناصر آیت 46 میں بیان کیے ہیں ایک میدان جنگ میں ثابت قدمی ، دوم اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کیا جائے، سوم آپس میں اختلاف اور لڑائی جھگڑے سے بچ کر رہنا،چہارم دشمن سے مقابلے کے وقت ناموافق امر پر صبر کرنا ۔ در اصل یہ مومن کی چھٹی خصوصیت ہے ، پہلی پانچ خصوصیات سابقہ پارہ میں بیان ہوچکی ہیں ۔

غزوہ بدر کے موقع پر شیطان کا کردر آیت 51-48 میں بتایا گیا کہ پہلے وہ مشرکین مکہ کو جنگ پر ابھارتا رہا اور اپنی مدد کا یقین دلاتا رہا لیکن عین وقت پر فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لیے نازل ہوتا دیکھ کر میدان جنگ سے بھاگ گیا اور لاتعلقی کا اعلان کردیا ۔ غزوہ بدر کے پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ کفار سے جنگ کے لیے پوری طرح تیار ی رکھیں ، تیاری سے مراد مادی ، عسکری اور روحانی تیاری سے ہے ۔ بدر میں مادی تیاری مکمل نہ تھی ، اللہ کی نصرت شامل حال رہی، اسی کا نتیجہ تھا کہ غیبی امداد مسلمانوں کو حاصل ہوئی جس کے نتیجے میں فتح و کامرانی مسلمانوں کا مقدر ٹہری ۔ آیت60 میں ارشاد ربانی ہے ’’ جہاں تک ہوسکے تم ان سے مقابلے کے لیے تیاری رکھو، قوت بھی اور گھوڑوں کا پالنا بھی کہ اس کے ذریعے تمہاری دھاک بیٹھی رہے اللہ کے دشمنوں پر اور تمہارے دشمنوں پر اور ان کے سوا دسرے لوگوں پر جنہیں تم نہیں جانتے اور اللہ انہیں جانتا ہے‘‘ ۔ اگلی آیت میں ہی اللہ نے یہ بھی حکم دیا کہ ’’اگر یہ کافر صلح کی جانب مائل ہوں تو تم بھی ان کی طرف مائل ہوجاوَ‘‘ ۔ جنگ بدر میں ستر(70)مشرکین کو گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا، حضر ت عمر ;230; اور چند دیگر صحابہ کی رائے تھی کہ نہیں قتل کردیا جائے اس کے برعکس حضرت ابو بکر صدیق;230; اور بعض دوسرے صحابہ کرام کی رائے تھی کہ انہیں فدیہ لے کر آزاد کردیا جائے ۔ اللہ کے رسول محمد ﷺ نے اسی رائے کو مناسب جانا اور قیدیوں کو رہا کردیا ۔ اس پر اللہ کی جانب سے وحی نازل ہوئی ،آیت 68 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اگر اللہ کا حکم نہ آچکا ہوتا تو جو فدیہ تم نے لیا ہے اس کے بدلے تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا‘‘ ۔ آیت70 میں ارشاد ہوا ’’اے نبی;174;! جو قیدی تمہارے ہاتھوں گرفتار ہیں ، آپ ان سے کہہ دیں اگر اللہ تمہارے دلوں میں بھلائی جان لے گا تو تمہیں اس فدیے سے کہیں بہتر عطا کرے گا جو تم سے لیا گیا ہے اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے ‘‘ ۔ اس سورہ کی آخری آیات میں ہجرت اور نصرت کے فضائل بیان ہوئے ہیں ۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ ’’دین ہجرت و نصرت سے پھیلا ہے اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے والوں اور ہجرت کرنے والوں کی مدد کرنے والوں کو حقیقی اور سچا مومن قرار دیا ہے ، اللہ کو خون بہانا پسند تھا لیکن چونکہ عمل مشورے سے ہوا تھا اس لیے فدیے کا مال حلال اور طیب قرار دیا گیا ۔ کہا گیا آیت74 میں اور جو لوگ ایما ن لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے مہاجرین کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہی لوگ سچے مومن ہیں ، ان کے لیے مغفرت اور باعزت روزی ہے ۔ آخر میں کہا گیا کہ ’اللہ کی کتاب میں خون کے رشتے دار آپس میں ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں ‘‘ ۔ اللہ کی کتاب یا اللہ کے حکم سے مراد یہاں لوح محفوظ میں اصل حکم یہی تھا ۔ اس کے بعد سورہ توبہ شروع ہوتی ہے ۔

سُوْرَۃ التَّوْبَہ

سُوْرَۃ التَّوْبَہ مدنی سورۃ ہے، قرآن کی ترتیب میں 9 ویں سورۃ ہے جب کہ نزول قرآن کی ترتیب میں 113نمبر پر ہے ۔ اس میں 16رکو ہیں ، 129آیات ہیں ۔ ’اسے سورۃ َبراۃ‘ بھی کہتے ہیں اس لیے کہ اس سورہ کا پہلا لفظ’ ’بَرَاءَ ۃ مَن َ اللہ ِ وَرَسُوْ لِہَ‘‘ جس کا مطلب ہے ’ صاف جواب ہے اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے ‘ اس سورہ میں احکام جہاد کے معاہدات سے برات کا اعلان کیا گیاجو مسلمانوں نے مشرکین کے ساتھ کیے تھے ۔ سورہ توبہ کو ’’سورۃ لفاضحہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ یعنی رسواکرنے والی سورت،وہ کفار جو خود کو مسلمان کہا کرتے تھے حالانکہ وہ دل سے مسلمان نہیں تھے ۔ اس سورت نے ان کے باطن کو یوں ظاہر کیا کہ سب نے جان لیا کہ کون منافق ہے اور مخلص موَمن ہے،کیونکہ اس سورہ سے منافقین کی اصلیت معلوم ہوگئی تھی اور وہ رسوا ہوئے اس لیے یہ سورہ ’سورۃ الفاضحہ‘ بھی کہلاتی ہے ۔ یہ قرآن کریم کی واحد سورہ ہے جس کے شروع میں ’بسم اللہ‘ نہیں پڑھی جاتی ۔

سُوْرَۃ التَّوْبَہ کی ابتدائی 93آیات کا خلاصہ یہاں بیان کیا جائے گا جب کے بقیہ 36آیات کا خلاصہ گیارہویں پارے میں بیان ہوگا ۔ یہ سورۃ کل 129آیات کا مجموعہ ہے ۔ سورہ توبہ کی وہ آیات جو دسویں پارہ کا حصہ ہیں ان میں دوموضوعات پر تفصیل سے بات کی گئی ہے ایک مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ جہاد، مشرکین سے جو معاہدے ہوئے تھے ان سے براعت کا اعلان، مشرکین کو حج بیت اللہ سے منع کردینا ، اہل کتاب کے ساتھ قتال کی اجازت دی گئی ۔ دوسرا مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز کرنے والی بنیادی وجہ غزوہ تبوک تھی، رومیوں کے ساتھ مقابلہ جو وقت کے طاقت ور تھے اور شدید گرمی اور فقر و فاقہ کے موقع پر پھل پکے ہوئے تھے ، مسلمان جوسوائے چند کے سب چلے گئے جب کہ منافقین نے باتیں تراشنا شروع کردیں ۔ ان آیات میں منافقین کی مذمت کے حوالے سے یہاں تک فرمادیا کہ اے پیغمبر! آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں تو بھی اللہ ان کی مغفر ت نہیں کرے گا اور اگر ان میں کسی کا انتقال ہوجائے تو آپ اس کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھیے گا، پھر ان مسلمانوں کا بھی ذکر ہے جو کسی عذر کی وجہ سے اس غزوہ میں نہ جاسکےَ ۔

مشرکین سے برات کا اعلان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے ۔ کفار قریش نے حسد کی بنا پر صلح حدیبہ کے صلح نامہ کو توڑدیا تھا، اللہ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول;174; کی طرف سے مشرکین کی ذمہ داری ختم ہوگئی ، جنہوں نے معاہدہ توڑ ڈالا ۔ حج اکبر کے دن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری الزمہ ہیں ، ہاں جو قبائل معاہدات پر قائم ہیں ان کے ساتھ معاہدات کی پاسداری کی جائے اور جو مشرک کافر توبہ کرلیں ، نماز قائم کریں ، زکوۃ ادا کریں تو وہ مسلمانوں کے دینی بھائی ہیں ۔ یہ ’’سورہ براۃ‘‘ بھی کہلاتی ہے، یہی نہیں بلکہ اسے ’’سورۃ الفاضحہ‘‘ یعنی رسوا کرنے والی سورۃ بھی کہا گیا ہے ۔ وہ اس لیے کہ اس میں منافقوں کی علامات اور ان کے اندر کے حال کو اس انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ سب کے سامنے ذلیل اور رسواہو کر رہ گئے ، اس سورہ کے نزول سے قبل انہوں نے اپنے آپ کو اسلام کے زبانی دعوے کے پردے میں چھپارکھا تھا لیکن اس سورہ نے ان کے باطن کو یوں ظاہر کیا کہ ہر کسی نے جان لیا کہ کون منافق ہے اور کون مخلص مومن ہے، منافقوں کی کمزوریوں اور عیوب کو نمایاں کرنے کا ظاہری سبب غزوہَ تبوک بنا، غزوہَ تبوک میں مادی اعتبار سے اپنے وقت کی سب سے بڑی فوج کے ساتھ مقا بلہ تھا اور وہ بھی شدید گرمی اور فقر و فاقہ کے دنوں میں ، اس غزوہ کے حوالے سے منافقوں سے جو حرکتیں سرزد ہوئیں ان کا اندازہ سورہ توبہ کی بعض آیات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ کی مختلف آیات میں ان فضول، بیہودہ اور عجیب و غریب حرکتوں کو بیان کیا ہے ۔ آیت 42’’اگر مال غنیمت قریب الحصول اور سفر درمیانہ ہوتا تو وہ منافق آپ کے ساتھ ضرور چلتے لیکن کٹھن منزل ان پر دور ہوگئی ا ور عنقریب وہ اللہ کی قس میں کھائیں گے کہ اگر ہم طاقت رکھتے تو تمہارے ساتھ ضرور نکلتے ۔ وہ خود کو ہلاک کررہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ بے شک وہ سراسر جھوٹے ہیں ‘‘ ۔ اللہ نے فوری بعد کی آیت میں کہا کہ ’’اگر وہ منافق تمہارے ساتھ نکلتے بھی تو وہ تمہیں خرابی میں ہی زیادہ ڈالتے اور تمہارے اندر فتنہ کھڑاکرنے کی خواہش لیے دوڑے دوڑے پھر تے اور تم میں بعض ان کے جاسوس ہیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے‘‘ ۔ پھر کہا ’’اے نبی ;174;! یقینا انہوں نے اس سے پہلے بھی فتنہ پھیلانا چاہا تھا اور آپ کے معاملات بگاڑنے کی کوشش کی تھی، یہاں تک کہ حق آگیا اور اللہ کا حکم غالب ٹہرا جب کہ وہ ناپسندہی کرتے رہے‘‘ ۔ الغرض کئی منافقوں نے مضحکہ خیز عذر پیش کر کے اپنے لیے چھوٹ حاصل کرنے کی کوشش کی ،ایک شخص جدبین قیس نامی جو کہ مشرک تھا نے کہا ’’اے اللہ کے رسول;174; میں دل کا بڑا کمزور ہوں جب کہ رومیوں کی عورتیں گورے رنگ کی ہوتی ہیں ، مجھے ڈر ہے اگر میں جہاد میں گیا تو انہیں دیکھ کر فتنہ میں مبتلا ہوجاؤں گا‘‘ ۔ اللہ نے یہاں صاف صاف کہہ دیا آیت 56و میں کہ ’’و ہ اللہ کی قس میں کھاتے ہیں کہ بے شک وہ تم میں سے ہیں ، حالا نکہ وہ تم میں س نہیں ہیں ‘‘ ۔ ہمارے نبیﷺ سارے جہاں کے لیے نبی تھے، ہر ایک مومن مسلمان کے لیے نبی تھے ، ہر ایک کی بات توجہ سے سناکرتے ، مشرکین کو آپ ﷺ کی یہ بات بھی اچھی نہ لگتی تھی، اللہ نے مشرکین کی اس بات کا ذکر آیت 61 میں اس طرح کیا ’’ اور ان منافقوں میں سے بعض وہ ہیں جونبی کو تکلیف دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو صرف کان ہیں ، ہر ایک کی سن اور مان لیتے ہیں ، آپ کہہ دیجئے یہ تمہارے لیے خیر کا کان ہے وہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں اور مومنوں کی باتوں پر یقین کرتے ہیں اور تم سے جو ایمان لائے ان کے لیے رحمت اور جو لوگ اللہ کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہیں ‘‘ ۔ آیت 64 میں کہا ’’منافقین اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ان مسلمانوں پر کوئی سورت ہو جائے جو انہیں ہر بات بتادے ، جو ان منافقوں کے دلوں میں ہے، کہہ دیجئے ! تم مزاق کرتے رہو، بے شک اللہ وہ باتیں ظاہر کرنے والا ہے جس سے تم ڈرتے ہو‘‘ ۔

برے کاموں کی ترغیب دینا، نیکی سے روکنا، بخل کرنا منافقین کی نمایاں صفات تھیں ، اللہ تعالیٰ نے منافقین کی بری صفات کا اور مومنین کی اچھی صفات کا ذکر ان آیات میں فرمایا ۔ منافقین کی بری باتوں کی طویل فہرست ہے جن کا ذکر سورہ توبہ کی آخری آیات میں ملتا ہے ۔ اللہ نے ایک طرف منافقین کی غلط صفات کا تذکرہ کیا تو دوسری جانب یہاں مخلص مسلمانوں کا بھی اچھے الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے ۔ وہ مسلمان جو ضعیف ہونے کے باعث، شدید بیماری کی وجہ سے یا کسی اور معقول وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہوسکے، وہ بہت افسردہ ہوتے، رو رو کر اللہ سے اپنی پریشانیاں سے نجات کی التجا کرتے کہ وہ بھی جہاد میں شریک ہوسکیں ۔ آیت 91 میں اللہ نے بیمار ، ضعیف ، کمزور، بے سہارا، کچھ خرچ کرنے کی سکت نہ رکھنے والے ، جو خواہش تو رکھتے ہیں اپنے رسول ﷺ کے ساتھ جانے کی لیکن نہیں جاسکتے ، اللہ نے اس آیت میں ان کے لیے کہا کہ’’ کوئی گناہ نہیں جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے خیر خواہی کرتے ہیں ، نیکی کرنے والوں پر گرفت کی کوئی راہ نہیں اور اللہ بہت بخشنے والا ، نہایت رحم کرنے ولا ہے‘‘ ۔ آخر میں اللہ نے بنی;174; کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اے نبی;174; گرفت کی راہ ان لوگوں پر ہے جو آپ سے رخصت مانگتے ہیں ، حالانکہ وہ مالدار ہیں ۔ وہ اس بات پر راضی ہوگئے کہ پیچھے گھروں میں رہنے والی عورتوں کے ساتھ رہیں ۔ اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی چنانچہ وہ نہیں جانتے ‘‘ ۔ ’’لایعلمون ‘‘ کا مطلب ہے، وہ نہیں جانتے کہ پیچھے رہنا کتنا بڑا جرم ہے ورنہ شاید وہ رسول ﷺ سے پیچھے نہ رہتے ۔ دسوں پارہ یہاں اختتام ہوتا ہے تاہم سُوْرَۃ التَّوْبَہ ابھی جاری ہے ۔ اس کی بقیہ آیات کا خلاصہ انشاء اللہ اگلے پرہ میں پیش کیا جائے گا ۔ (10 رمضان المبارک 1440ھ،16مئی2019ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437477 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More