تحریر:سلیم اﷲ صفدر (غبار دل)
متعدد محاز... متعدد دشمن....
متعدد حملہ آور.... مگر صرف ایک دفاعی حصار....!
نائن الیون کے بعد پاکستان مشرقی و مغربی بارڈر پر تو مصروف ہوا سو ہوا....
پاکستان کے دفاع کی سب سے مضبوط لکیر پاک فوج اپنوں کی ملامتوں اور غیروں
کی سازشوں کا شکار ہونے لگی...
آج کا پاکستانی نوجوان نائن الیون کے وقت سن شعور میں داخل نہیں ہوا تھا اس
لیے آج کے نوجوان نے پاکستان میں مسلسل دہشت گردی، دھماکے، خونریزی، دیکھی.
غیروں کی سازشوں نے اس کی وجہ پاک فوج کو قرار دیا.... اپنوں کے فتوؤں نے
اسے مرتد اور امریکہ کا اتحادی جانا....!
وقت گزرتا گیا... آج کا نوجوان سن شعور میں داخل ہوا تو اسے بتایا گیا کہ
امریکہ جیسے طاغوت کا اتحادی بننا اور ایک کال پر ''لیٹ'' جانا کسے کہتے
ہیں. اسے جتانے کی کوشش کی گئی کہ اپنے ''مسلمان بھائیوں'' کو کافروں کے
حوالے کرنا... انہیں بیچنا کتنا بڑا گناہ ہے... اس پاکستانی نوجوان کو باور
کرایا گیا کہ کافروں کے ساتھ بات چیت کرنے والے مسلمانوں کو کافر سے پہلے
قتل کرنا کیوں ضروری ہے....!
پانی کی طرح شفاف ہر عقیدہ ہر نظریہ وہم و سراب میں لپیٹ کر اس نوجوان کے
سامنے پیش کر دیا گیا. پاکستانی نوجوان ہچکچاتا رہا مگر پاک فوج کا جوان
ہاتھوں میں گن اٹھائے سینہ تان کر مشرقی بارڈر پر انڈین آرمی کے خلاف اور
مغربی بارڈر پر امریکی فنڈڈ داعش.. ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار کے خلاف ڈٹا
رہا.
پاکستانی نوجوان کا ذہن تقسیم ہوتا رہا یہاں تک کہ سولہ دسمبر 2014 آ گیا.
خارجی اپنا حقیقی چہرہ لیکر پاکستان کے افق پر ابھرے اور ایک ناقابلِ تلافی
وار کرتے ہوئے اہل پاکستان کو زخمی کر گئے.
امریکہ کے وہ تمام مہرے جو اس نے پاکستانی صفوں میں گھسائے تھے... طشت از
بام ہو گئے. دوستوں آور دشمنوں کے درمیان فرق سمجھ آ گیا. اہل پاکستان کو
سمجھ آ گئی کہ جسے ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' کہا گیا تھا وہ کیا تھی اور
اگر اس سے مزید پہلو تہی کی گئی تو اس جنگ کے اثرات کہاں تک جا پہنچیں گے.
خارجیوں کے خلاف لڑائی کرنے والوں کو اخلاقی تخفط نہ دینے والے علماء کرام
اب اسے افضل جہاد قرار دینے لگے. سوات آپریشن کے بعد ضربِ عضب اور پھر
ردالفساد انہی علماء کرام کی نگرانی میں ہوئے اور پاکستان نے اپنے داخلی
محاذ پر فتح حاصل کر لی. خارجی محاذ پر پاکستان کبھی فتح کا اعلان نہ کرتا
لیکن ٹرمپ کی دہائی نے ساری دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان نے امریکہ کی مدد
سے کس طرح امریکہ کو شکست دی.
یہ نہیں کہ اس جنگ میں پاکستان صرف فتح ہی حاصل کرتا رہا. نہیں...! اسے زخم
بھی لگے لیکن ان زخموں نے اس کے حوصلوں کو کم نہ ہونے دیا. ان زخموں نے اس
کا نظریہ تبدیل نہ ہونے دیا.... اس کے موٹو ایمان تقوی اور جہاد فی سبیل اﷲ
کو نقصان نہ پہنچایا. پاک فوج کے جوان اپنے خون سے پاک دھرتی کو سیراب کرتے
رہے... ان کی وردیاں ان کے تابوت ان کے گھروں میں پہنچتے رہے. لیکن یہ
نقصان ہر لمحے پر ایک فتح و نصرت کی امید دیتے رہے.
بدگمانیاں پیدا کرنے والے آج بھی موجود ہیں جو پی ٹی ایم کی شکل میں مسلسل
وردی والوں کو دہشت گرد ثابت کرنا چاہتے ہیں..... انتشار ڈالنے والے آج بھی
مسنگ پرسنز کا رولا ڈال کر آئی ایس آئی اور پاک فوج پر الزام تراشی کرتے
ہیں مگر عزتیں دینے والا وردی والوں کی جرات مندی سامنے لاتا رہتا ہے اور
ان ''مسنگ پرسنز'' کی حقیقت کو ''مس'' نہیں ہونے دیتا. وہ مسنگ پرسنز وردی
والوں کے ہاتھوں اﷲ کی توفیق سے کسی نہ کسی موڑ پر سامنے آ ہی جاتے ہیں.
ہر نئے دن کے ساتھ جہاں آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج کا جوان قربانیاں
دینے کے لیے تیار ہوتا ہے وہاں ان کا خلوص بھی چھپائے نہیں چھپتا. اور شاید
یہ شہدا کے خون کی تاثیر ہی ہے کہ آج پورے پاکستان میں پاکستانی نوجوان پاک
فوج کے شہداء اور غاذیوں کو دل کی گہرائیوں سے سلام پیش کرتا ہے. پاکستانی
نوجوان نہ صرف وردی پہنے سرد و گرم موسم میں اپنی ''ڈیوٹی'' ادا کرنے والوں
کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے بلکہ ان کی وردی اپنے جسم پر پہننا اپنے لیے
باعث تکریم سمجھتا ہے. ہر آنے والا کل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ایمان
تقوی جہاد فی سبیل اﷲ کا موٹو رکھنے والے نہ صرف اس دھرتی کے محافظ و پہرے
دار ہیں بلکہ اہل پاکستان کے دلوں کے حکمران بھی.
اپنے ہی خوں سے نکھاریں گے رخِ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
ہم نے خیرات میں یہ پھول نہیں پائے ہیں
خون ِدل صرف کیا ہے تو بہار آئی ہے....!
تحریر:سلیم اﷲ صفدر
|