درس انسانیت

دانشوروں کا مقبول ترین جملہ ’’انسانیت‘‘ ہونی چاہئے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر’’ انسان‘‘ انسانوں کی قدر نہیں کر رہا؟

خوشیاں تقسیم کریں آسانیاں تقسیم کریں کیوں پاکستان میں ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے لالچ کے ساتھ ساتھ بے حسی نے تباہ صرف انسانیت کو کیا ہے یہی بچے کسی امیر کے گھر ہوتے تو ان کی شکل ان کی پوزیشن الگ ہوتی ان کی قسمت کے یہ غریب گھرانوں میں پیدا ہوئے لیکن کوئی کہیں پیدا ہو ہے تو انسان؟ اسلام ہمیں کیا درس دیتا ہے؟ انسانیت ہمیں کیا درس دیتی ہے ایک تو غریبی سے تنگ دو وقت کی روٹی سے تنگ اوپر کبھی پولیس اور کوبھی وڈیروں اور کبھی بیغیرتوں بدمعاش طبقے کا شکار بھی یہی لوگ؟ پاکستان کی آدھی آبادی کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں ہے جس کے پیٹ میں روٹی نہیں وہ کیا شعور حاصل کرے گا اس کی سوچ اگلے وقت کی روٹی سے آگے جا ہی نہیں سکتی رحم کھاو انسانیت پر رحم کھاو کروڑوں بچیاں، بچے، بوڑھے، معزور، بیوائیں مشکلات کا شکار ہیں اور کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں..
جہاں انسانیت،عدل و انصاف اور اعتماد ہو وہاں ڈر، خوف اور بدامنی جنم نہیں لیتی۔
اگر اپنی ترتیب تخلیق کو پہچان لیا جاے تو انسانیت کے مرتبے کو بھی آسانی سے پا یا جاسکتا ہے..
انسانیت کا درس دینے والے ہر انسان سے یہ سوال پوچھا جائے کہ انسانیت کا درس ’’مذہب‘‘ کو مٹانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے یا انسانوں کا خیال رکھنے کی دعوت دی جا رہی ہے؟ اس پر یہ چند نُکات بیان کرتے ہیں:
1۔ انسانیت کے لئے بڑے بڑے سیمینار کروانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وزیر اعظم، MPA، MNA،اسٹیبلشمنٹ، سرکاری اداروں میں کام کرنے والے CSPآفسیرز سے لے کر ایک عام نائب قاصد کو انسانیت کا درس دیا جائے کیونکہ یہ ادارے اپنا کام نہیں کر رہے بلکہ خالی کاغذی کاروائی کی جا رہی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ بتا دیں کہ ادارے میں آنے والے ہر انسان سے کیا سلوک کیا جاتا ہے اور کیا ادارے ’’انسانیت ‘‘ کے لئے کام کر رہے ہیں؟
2۔ انسانیت کا رونا رونے والوں سے یہ بھی سُنا ہے کہ عُمرہ کرنے کی کیا ضرورت ہے، قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے، یہی پیسہ غریبوں میں بانٹ دینا چاہئے حالانکہ ہر کوئی اپنے اپنے رسم و رواج پر عمل کرتا ہے تو مذہب پر چلنے والوں کو کیوں یہ تلقین کی جاتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانیت کا درس دینے کی آڑ میں مذہب کو بدنام کیا جا رہا ہے اور پھر اُمید بھی مذہبی لوگوں سے لگائی جاتی ہے۔
3۔ ایک ٹرین میں ایک مولوی صاحب اور ان کے دوست اپنی اپنی سیٹوں پربیٹھے تھے تو ایک داڑھی مُنڈے نے ان سے کہا کہ مجھے بھی ساتھ بٹھا لیں تو مولوی صاحب نے تنگ ہو کر بیٹھنے کی بجائے ان کو ساتھ بٹھانے سے انکار کر دیا۔ اُس نے مولوی صاحب کی خوب بے عزتی کی لیکن کسی اور داڑھی مُنڈھے نے اُس کو جگہ نہیں دی کیوں؟کیا انسانیت مولوی صاحب کیلئے لازمی ہے؟
4۔ انسانیت کے لئے حضرت عُمر رضی اللہ عنہ نے جو قانون بنایا وہ مغربی ممالک میںUmer's Lawکے نام سے رائج ہے جس سے انسانیت کو فائدہ ہو رہا ہے۔ہمارے مُلک میں قانون ہے لیکن قانون پر عمل کروانے والے ادارے وڈیرے، جاگیر دار، دو نمبر پیروں کے ہاتھوں یرمغال ہے اور بعض اوقات قرضے پکڑ کر ہم اپنے ہی ملک کے انسانوں کو گروی رکھ چُکے ہیں۔اس کا خاتمہ انسانیت کی معراج ہے لیکن انسانیت کا درس دینے والے وہاں نہیں بول سکتے۔
5۔ ہمارے مُلک کی تجزیاتی رپورٹ کہتی ہے کہ ہماری نسلیں2025کے بعد پانی کو ترسیں گی۔ ڈیم بنانے میں کون کون رکاوٹ ہیں، کیا وہ انسانیت کے خلاف نہیں ہیں؟
6۔ ہمارا معاشرتی نظام ہی درست نہیں ہے کیونکہ سادگی سے ہم کوئی کام نہیں کرتے بلکہ بچہ پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک سارے کام رسماً اور قرضہ پکڑ کرکئے جاتے ہیں جن پر ثواب نہیں ملتا اور کسی میں ہمت نہیں ہوتی کہ رسم و رواج کے خلاف لڑ سکے کیونکہ ہمت کس انسان نے کرنی ہے؟
7۔ ہمارے مُلک میں ایک کروڑ ’’نشہ‘‘ کرنے والے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہر24واں انسان نشائی ہے ، آپ قبرستان میں موجود نشے کے اڈے نہیں بند کرا سکتے کیونکہ وہ بھی کسی کی سرپرستی میں چلتے ہیں، انسانیت کا درس دینے والوں کو یہ بھی انسانوں پر ظلم نظر نہیں آتا۔
8۔ انسانیت کا درس وزیر اعظم، قانون بنانے والے اداروں، جاگیر داروں، وڈیروں، مولویوں یا کس کو دینا چاہئے کیونکہ جو نماز نہیں پڑھتا اُس کوبے نمازی کہا جائے۔اسلئے جو انسان انسانیت کا حق ادا نہیں کرتا کیا وہ انسان ہو سکتا ہے؟
9۔ یہاں عوام امام کو پسند نہیں کر رہی اور امام عوام سے نالاں ہے۔
10.جب کوئی عورت بچے کی پیدائش کے وقت تکلیف سے چیخ رہی ہوتی ہے تڑپ رہی ہوتی ہے تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس وقت اس کے شوہر کو لا کے ادھر کھڑا کروں تا کہ اسے پتا چلے اس کی بیوی اس کی نسل کی خاطر کیسے تڑپ رہی ہے تا کہ اسے بعد میں وہ زندگی میں کبھی نا کہہ سکے
کہ تم نے کیا ہی کیا ہے میری خاطر؟؟
تم نے اولاد پیدا کر کے کوئ انوکھا کام نہیں کیا
کبھی اسے گھر سے نکال دینے اور طلاق کی دھمکی نہ دے
ایک پل میں نہ کہہ دے اس کے ماں باپ کو کہ لے جاؤ اپنی بیٹی کو :'
کاش ۔ ۔ ۔
کاش کہ ایک پل میں عورت کو ایک کوڑی کا کر دینے والے مرد بھی اس تکلیف کا اندازہ کر سکیں جو بیس ہڈیوں کے ایک ساتھ ٹوٹنے کے برابر ہوتی ہے
اگر ہم سارے مل کر سسٹم کے خلاف بولتے رہیں گے توکچھ نہیں ہو گا لیکن اگر ہم قیامت کا خوف رکھتے ہوئے اپنی زندگی میں اپنے اپنے کام سے مخلص ہو جائیں گے تو سسٹم ٹھیک ہو نہ ہو ہماری آخرت ضرور ٹھیک ہو جائے گی۔اگر بات پسند آئے تو دوسروں سے شئیر بھی کریں اور خود اس پر عمل بھی کریں۔
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 458824 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More