پاکستان طویل عرصہ تک دہشت گردی سے شدید ترین طور پر
متاثر رہا اگرچہ اس کا مکمل خاتمہ ابھی بھی نہیں ہوا لیکن اس میں نمایاں
کمی ضرور آئی ہے اور ایسا تب ہو اجب 2014میں پشاور اے پی ایس پر حملے کے
بعد سیاسی جماعتوں نے مکمل اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان پر دستخط
کیے۔دراصل یہ حادثہ اتنا بڑا اور اندوہناک تھا اورقوم کی کمر پر ایسا وار
کیا گیا تھا کہ سخت ترین اقدامات کے علاوہ کوئی چارہ ِکار نہیں تھا اس لیے
جواباََدہشت گردوں پر کاری وار کیے گئے اور حقیقتاََ پہلی بار اِن کی کمر
توڑ دی گئی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ دہشت گردی میں ریکارڈ کمی آئی۔عوام
پاکستان نے سالوں بعدسکون کا سانس لیااگرچہ اس سکون کی بہت بڑی قیمت ادا کی
گئی۔سانحہء اے پی ایس کے147 شہداسے پہلے بھی ہزاروں شہری اور فوجی اس پرائی
جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے تھے فوج اِن دشمنوں سے مسلسل برسرپیکار تھی قربانی پر
قربانی دی جارہی تھی اور ہر بار ہر شہادت پر یہ کہہ کر قوم کو بہلا دیا
جاتا تھا کہ ہمیں شہادتوں پر فخر ہے اور یہ کہ دشمن کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور
یہ اس کی زخمی سانسوں کی آخری کاروائی ہے۔سالہاسال سے قوم یہی سن رہی تھی
اور آخر وہ ہوا جس کی کسی کو اُمید نہیں تھی،قوم کی اُمیدوں اور اس کے
مستقبل پر حملہ کردیا گیا اورقوم تو چیخ ہی اُٹھی لیکن ہماری قومی قیادت نے
بھی آخر کار دہشت گردی سے نمٹنے کا فیصلہ کر ہی لیااور جنوری 2015میں نیشنل
ایکشن پلان منظور کر لیا گیاجس میں شامل کیے گیے تمام نکات نے دہشت گردی کے
خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔انہی میں سے اہم ترین فوجی عدالتوں کا قیام
اور پھانسی کی سزا پر سات سالہ غیر اعلانیہ عائد پابندی کا خاتمہ بھی
تھا۔اِن عدالتوں کے قیام کا مقصد دہشت گردی کے مقدمات کا تیزی سے فیصلہ تھا
اور ایسا ہوا بھی اِن عدالتوں نے دہشت گردوں کو پھانسی کی سزائیں سنائیں
اور چیف آف آرمی سٹاف نے اُن کی توثیق بھی کی لیکن اِن میں بہت کم سزاؤں پر
عمل ہوالیکن اِن کم سزاؤں نے بھی عوام کو تحفظ کا احساس ضرور دلایا۔ایک
جائزے کے مطابق اپنے اختتام سے پہلے تک پیش کیے گئے مقدمات میں سے جن
مجرموں کو موت کی سزا سنائی گئی ان میں عمل درآمد بہت کم پر ہوا۔تقریباََ
نصف تعداد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ایک کم تعداد لیکن بَری بھی کیا گیا
یعنی مقدمات کا فیصلہ اِن کی نوعیت کے مطابق میرٹ پر ہوا لیکن پھر بھی
اعتراضات اُٹھائے گئے اگر چہ یہاں نیشنل ایکشن پلان کے تحت صوبائی
تعصب،نفرت،فرقہ پرستی و منافرت اور ایسے ہی دوسرے مقدمات بھی بھیجے گئے
تاہم پھر بھی انہیں متنازعہ بنا دیا گیااور انہیں ایک مدت کی توسیع دینے کے
بعدختم کر دیا گیا۔ایسا نہیں ہے کہ دہشت گردی میں کمی صرف فوجی عدالتوں کے
قیام کی وجہ سے آئی بلکہ ایسا اِن تمام اقدامات کی وجہ سے ہوا جو نیشنل
ایکشن پلان کے تحت اُٹھائے گئے مثلاََ بڑی تعداد میں یعنی تقریباََ پچپن
ہزار افغان مہاجرین کی فوری واپسی جن میں کئی دہشت گرد چھپے بیٹھے تھے،
موبائل سموں پر سخت ترین چیک، نفرت انگیز مواد اور تقاریر پر پابندی،
کالعدم تنظیموں پر کسی بھی نام سے کام کرنے پر مکمل پابندی، بلوچستان میں
خاص اقدمات،پنجاب میں بھی دہشت گردوں کی کسی بھی طرح کے نقل و حمل پر مکمل
پابندی وغیرہ اور اسی طرح کے دیگر اقدامات شامل تھے،لیکن سزا و جزا کے عمل
کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں اور اسی وجہ سے اینٹی ٹیررسٹ کورٹس اور فوجی
عدالتوں کے قیام اور کردار کا حصہ دہشت گردی میں کمی لانے میں سب سے اہم
رہا جس کا اندازہ اِس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ مارچ 2019میں فوجی
عدالتوں کی مدت ختم ہونے کے بعد دہشت گردی کے کئی واقعات یکے بعد دیگرے
رونما ہوئے۔جن میں عام شہری علاقوں سے لے کر قانون نافذ کرنے والے اداروں
سب پر حملے شامل ہیں۔مکرا ن کوسٹل ہائی وے پر بس سے اُتار کر چودہ افراد کو
اُن کے قومی شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد شہید کر دیا گیااِن میں سیکیورٹی
اداروں کے اہل کار اور عام شہری شامل تھے اس واقعے کے ڈانڈے جہاں سے بھی
ملتے ہیں لیکن اِن بیرونی عناصرکے سہولت کار تو ہمیشہ مقامی ہی ہوتے
ہیں۔اسی طرح گوادر پی سی ہوٹل پر حملہ تاکہ بیرونی سرمایہ کاری کو نقصان
پہنچایا جائے۔داتا دربار میں زائرین پر دہشت گرد حملہ،کوئٹہ میں ہزارہ
کمیونٹی پر حملہ، پشاور میں حیات آباد میں ایک گھرمیں دہشت گردوں کی پناہ
اور کاروائی یعنی ملک کے ہر حصے میں دہشت گردوں نے اپنی موجودگی کا احساس
دلایاکہ ابھی بھی وہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں اور دوبارہ سے زور پکڑ
سکتے ہیں تو کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ دوبارہ اِن کے زور پکڑنے سے پہلے ہی
اپنے آپ کو مضبوط اور محفوظ کر لیا جائے۔ہمارے سیاستدان فوجی عدالتوں پر
اعتراض تو کرتے ہیں لیکن اُن کے پاس اس کا کوئی نعم البدل منصوبہ یا طریقہ
کار بھی نہیں۔اسی طرح اِن عدالتوں کے بڑے مخالفین میں انسانی حقوق کی
تنظیمیں بھی شامل ہیں جو مجرموں کی سرپرستی اور پشت پناہی کے لیے تو اُٹھ
کھڑی ہوتی ہیں لیکن کسی سکول یا دربار پر دھماکوں میں مرنے والوں اور اِن
کے خاندانوں کے حقوق انہیں یاد نہیں رہتے۔ ایسے معاملات میں بین الاقوامی
اداروں کے پاکستانی تنخواہ دارمیڈیا پر بیٹھ کر لمبے لمبے تبصرے نما تقاریر
تو کرتے ہیں اور یوں قومی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں کیونکہ انہیں تو
اپنی تنخواہ لینی ہوتی ہے لہٰذا انہیں بے گناہ مرنے والوں سے زیادہ ملک کے
اِن مجرموں کا خیال رہتا ہے۔ ایک خاص نکتہء نظر پھیلانے میں بیرونی این جی
اوز کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے جن کا کاروبار ہی تباہ حال ملکوں میں کام
کرنے سے چلتا ہے یعنی نہ تباہ حالی ہو گی نہ اِن کے مشن ہوں گے نہ فنڈ ہوں
گے نہ شہرت ہو گی نہ تنخواہیں اور مراعات اور بنگلے ہوں گے اِن تمام
مخالفین سے اگر پوچھا جائے کہ مقدمات کی تیز تر سماعت کیسے ہو اور جن
خاندانوں اور جس معاشرے کے نقصان کا ازالہ تو ممکن نہیں لیکن کم از کم اِن
نقصان پہنچانے والوں کو سزا کیسے دی جائے تو اِن کے پاس کوئی قابل عمل
منصوبہ نہیں ہوتالیکن مسئلہ اِن کا نہیں مسئلہ پاکستان اور پاکستانیوں کا
ہے جن کے بچے، ماں، باپ اور بہن بھائی شہید ہوتے ہیں جن کی املاک تباہ ہوتی
ہیں جن کے گھر اجڑے ہیں کیا اُن کے حق میں بولنے والا اور کچھ کرنے والا
کوئی ہے۔ ضروری نہیں کہ فوجی عدالتیں یہ کام کرے کیونکہ مقدمہ، انصاف اور
فیصلہ عدالتوں کا کام ہے فوج کا نہیں لیکن کیا ہماری عدالتوں میں سالہا سال
تک چلنے والے مقدمے اور فیصلے اور نظام تیزی سے فیصلے کر سکتا ہے۔کیا ایسا
بھی نہیں ہوا کہ ثابت شدہ دہشت گرد بلکہ ٹیلی وژن کی سکرین پر اعتراف جرم
کرتا یا جرم کرتے ہوئے نظر آنے والا مجرم بھی بَری نہیں ہوا اس کے جرم کی
گواہ پوری قوم تھی لیکن ثبوت ناکافی تھے۔عدالت فوجی ہو یا سول فیصلہ اُسی
رفتار سے چاہیے جس رفتار سے فوجی عدالت کرتی ہے۔وہ مقدمے جو صرف ضابطے کی
ایک کاروائی ہوتے ہیں وہ بھی لٹکا دیے جاتے ہیں اور اِس دوران یا ڈی آئی
خان کی جیل ٹوٹ جاتی ہے اور یا شکیل آفریدی کی جیل توڑنے کی کوشش کر لی
جاتی ہے لہٰذا کیا یہ بہتر نہیں کہ رفتارہی اتنی ہو کہ ایسا موقع ہی نہ آئے
اِس سے یہ بھی ہر گز غرض نہیں کہ فیصلہ آنکھ بند کر کے ہو لیکن تاریخ پہ
تاریخ اور پھراور پھر تاریخ۔اگر کاروائی ہی اتنی تیز ہو کہ جرم کو پنپنے کا
موقع ہی نہ ملے چاہے عدالت فوجی ہو یا دہشت گردی کے خلاف خصوصی عدالتیں یا
عام عدالت عوام کو تیزرفتار انصاف بہر حال چاہیے۔
|