ام محمد رانا
آج کے نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے کی حق دار ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے قائم کردہ معاشرے سے اکثر اوقات متصادم ہوتی ہیں۔ دنیا دار تو
ایک طرف رہے خود کو دین دار کہلوانے والے اکثر لوگوں نے بھی اپنے اردگرد
خود ساختہ ایک دائرہ قائم کیا ہوا ہے ۔ جسے باہر جھانکنے کو قطعاً تیار
نہیں ۔ لیکن بعض اوقات ایسی انہونی ہوتی ہے کہ ان خود ساختہ مذہبی دائروں
میں بند ہم جیسے لوگ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں ہمارے پیر و مرشد مولانا
محمد الیاس گھمن کی دوسری شادی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔
میں سمجھتی ہوں کہ اگر گناہوں سے لتھڑی ہوئی اس دنیا کی فرسودہ روایات و
اقدار اور بے ہودہ رسومات کے رسیا معاشرے میں آج جو نور و ہدایت اور صراط
مستقیم کی لطیف سی رمق ابھی تک موجود ہے وہ انہی جیسے اللہ کے محبوب بندوں
سے قائم ہے ۔
مولانا بفضلہ تعالیٰ مرد حضرات کے لئے جو دینی خدمات انجام دے رہے ہیں وہ
اپنی نظیر نہیں رکھتے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عرصہ دراز سے اہل دین کے دل اس
بات پر کڑھتے تھے جس نہج پر مردوں میں کام ہو رہا ہے خواتین میں کام کے لئے
بھی ایسے ادارے کے اشد ضرورت ہے ۔ جو خواتین کے اندر عقائد کی محنت کے ساتھ
ساتھ مسلک کے دفاع کی صلاحیت بھی پیدا کر سکے ۔
لیکن اس کے لئے مولانا کسی ایسی ہستی کے متلاشی تھے جو پہلے ان کے زیر سایہ
خود کندن بنے وہ اسے تمام معاملات میں خود گائیڈ کریں خواہ وہ دینی مسائل
ہوں یا عائلی احکام۔ مناظرے ہوں، یا نعت و منقبت کی محافل ۔
جس طرح ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر شادی کے پیچھے کوئی
نہ کوئی دینی مصلحت تھی اسی طرح اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے پیر و مرشد کی
شادی بھی بے شمار دینی مصلحتوں اور حکمتوں کا سرچشمہ ثابت ہوگی ۔ ان
شاءاللہ العزیز ۔
24 جنوری کی شام کو میرے شوہر نامدار(مولانا عابد جمشید رانا) نے اطلاع بہم
پہنچائی کہ کل 25 جنوری کو مولانا کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے مجھے
بھی مدعو کیا گیا ہے ۔ میں بڑی حیران تھی کہ اپنے خاندان تک کی شادیوں میں
تو شرکت کی تو مجھے اجازت نہیں ملتی یہ یقیناً عام شادیوں سے ہٹ کر شادی کی
تقریب ہو گی ۔ جس میں مجھے خود لے جانے کے لئے مصر ہیں۔
میں اپنی ایک ہونہار طالبہ اور دو چھوٹے بچوں سمیت اپنے شوہر نامدار(مولانا
عابد جمشید رانا) کی سنگت میں دن ساڑھے گیارہ بجے دلہن کے گھر پہنچے ۔مرد
حضرات کا انتظام تو مسجد میں تھا خواتین دلہن کے گھر رونق افروز تھیں ہم نے
اس رونق کو مزید دوبالا کیا گھر داخل ہونے پر ہمارا پر تپاک خیر مقدم کیا
گیا میرے دل میں یہ خدشات بار بار سر اٹھا رہے تھے کہ نجانے ادھر کیسی
صورتحال ہوگی ۔
کیونکہ ہمارے معاشرے میں جو شادی شدہ مرد ، بال بچے دار ،پہلی بیوی کی
موجودگی میں دوسری شادی کرے عام لوگ اسے گولی سے کم سزا کے قابل نہیں
سمجھتے ۔ اگر دوسری بیوی کنواری لڑکی ہو اور ہر قسم کے نقص اور خامی سے بھی
مبرا ہو تو لوگ نکتہ چینی اور تنقید کے پہاڑ کھڑے کر دیتے ہیں۔
میں بظاہر تو دلہن کی والدہ محترمہ کے ساتھ حال احوال دریافت کرنے میں
مصروف تھی لیکن میرے کان کسی ایسے جملے کے منتظر تھے جو عام سطحی ذہن کے
لوگ کہتے ہیں۔ مثلاً دیکھو جی دوسری جگہ بیٹی دے رہے ہیں ........ ہائے
اللہ چاند سی بیٹی کو اس کی عمر سے دگنے مرد سے بیاہ رہے ہیں ........ توبہ
توبہ چھ بچوں کا باپ ہے بیوی بھی موجود ہے پھر بھی اس لڑکی کے ماں باپ کی
آنکھوں پر پٹی بندھی ہے........ہائے بے چاری مظلوم........لیکن میں حیران
تھی اس گھرانے کے افراد تو ایک طرف علاقے کی عورتوں کے اتنے بڑے جم غفیر
میں سے کسی خاتون کے منہ کا زاویہ ٹیڑھا دیکھنے میں بھی نہیں آیا ۔ مجمع
میں موجود تمام خواتین انتہائی خوش تھیں اور بار بار آکر ہم سے مصافحہ و
معانقہ کر رہی تھیں کہ آپ مولانا کے توسط سے تشریف لائی ہیں اور ہماری تو
خوش قسمتی ہے کہ اللہ نے ہمارے علاقے ، ہمارے شہر ہمارے رشتہ داروں میں سے
ہماری اس بیٹی کو دین کے اس خدمت گار کی خدمت کرنے کی سعادت بخشی ہے سچی
بات ہے کہ خوشی پورے مجمع کی آنکھوں سے جھلک رہی تھی ۔
تقریباً اڑھائی بجے ہم لوگ کھانے سے فارغ ہوئے نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد
میرے شوہر نامدار(مولانا عابد جمشید) نے فون پر مجھے فرمایا کہ دلہن والوں
سے کہو کہ وہ ہمیں جلد رخصت کریں تاکہ بروقت سرگودھا پہنچا جا سکے ۔
میں نے دلہن کی والدہ محترمہ کو یہ پیغام دیا ابھی ہم برقعے پہن ہی رہے تھے
کہ دلہن صاحبہ اپنی گاڑی میں تشریف رکھ چکی تھیں۔ تقریباً تین بجے ہم نے
حسن ابدال سے واپس سرگودھا کا رخ کیا۔ قسمیہ بات ہے کہ میں نے پورے گھرانے
میں کسی کی آنکھ بھی پر نم نہیں دیکھی حالانکہ کہ ہمارے ہاں لڑکی کی رخصتی
میں بے وقت یوں دھاڑیں مار مار کے رویا جاتا ہے۔
یہ مرحلہ تو الحمد للہ بخوبی طے پاگیا دوران سفر میرے دل کو قسم قسم کے
وساوس نے گھیرا ہوا تھا۔ کہ دلہن کے یہاں تو بیڑا پار ہوگیا اب آگے جب ایک
سوتن کی موجودگی میں نئی سوتن پہنچے گی تو نہ جانے پہلی بیوی کا کیا رد عمل
ہوگا۔ کبھی دل کو خیال آتا کہ سوتن (یعنی مولانا کی بڑی اہلیہ) شاید بخار
میں تپ رہی ہوں۔ کبھی سوچتی کہ نہیں وہ تو میکے چلی گئی ہوں گی ۔ پھر خیال
آتا نہیں رو رو کے برا حال کیا ہوگا۔
نماز عشاء کے وقت جب ہم سرگودھا پہنچے تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا
کہ یہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔مولانا نے جب گھر میں قدم رکھا تو ان کو خوش
آمدید کہنے والی سب سے پہلی ہستی ان کی بڑی اہلیہ تھیں انہوں نے بڑے پر
تپاک انداز میں اپنی سوتن کا استقبال کیا ۔ میرا خیال ہے کہ میں اپنے
بھائیوں کی شادی پر کبھی اتنا خوش نہیں ہوئی ہوں گی اور اتنے اچھے انداز
میں کبھی تیار نہ ہوئی ہوں گی جتنا مولانا کی بڑی اہلیہ خوش دلی سے ان کے
استقبال اور تیاریوں میں مصروف تھیں۔ بچے نئی امی ملنے کی خوشی میں پاگل
ہوئے جا رہے تھے ۔ مجھے یہ مناظر دیکھ کر اپنی سوچوں پر سخت شرمندگی ہوئی
کہ تو نے ایسے نیک لوگوں کے بارے میں کیا کیا بدگمانیاں کیں۔ آفرین ہے ان
لوگوں پر جنہوں نے چودہ سو سال گزرنے کے بعد حقیقی معنی میں سنت کا احیاء
کیا جسے لوگ آج عیب سمجھتے ہیں اور پھر بڑے فخر سے ان کو مسلمان اور دین کا
ٹھیکے دار بھی سمجھتے ہیں۔
جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک سے زائد شادیوں کی
ترغیب دی ہے تو ہم کون ہوتے ہیں ان سے ٹکر لینے والے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ
میری تمام بہنوں کو راہ ہدایت نصیب فرمائے کہ مولانا کی بڑی اہلیہ کی طرح
اپنے مجازی خدا کی خوشیوں میں حقیقی معنوں میں شریک ہوں اور اگر وہ عقد
ثانی کریں تو بجائے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھانے ، خود کشی کی دھمکیاں
دینے میکے جا کر بیٹھ رہنے اور خلع کا دعویٰ دائر کرنے ، اولاد کو نہر میں
پھینک کر مار دینے کی دھمکی دینے کی بجائے خود رشتے تلاش کریں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں دین کا صحیح فہم نصیب فرمائے ۔ اور اپنی ذاتی
خواہشات کو قربان کر کے اپنے شوہروں کو خوشیوں میں خوش رہنے کی توفیق عطا
فرمائے ۔ جب ہم جنت میں جاکر سینکڑوں حوروں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے
خوشی خوشی رہ سکتی ہیں تو اس فانی دنیا کے چند سال اپنی دو تین مسلمان
بہنوں کے ساتھ ایک گھر میں ہنسی خوشی کیوں نہیں رہ سکتیں؟ |