چینی باشندے اور معصوم لڑکیاں

تحریر: مہک سہیل،کراچی
(غیر قانونی) انسانی نقل و حمل کا مطلب کسی بھی آدمی کی فروخت، خریداری، بھرتی، قید ، منصوبہ بندی یا وصولی ، اس کی صریح یا اخذ کردہ مرضی سے، لالچ، اغوا، گمشدگی، پاکستان کے اندر لانے یا پاکستان سے باہر لے جانے کیلئے کسی بھی ذریعے سے غیر قانونی طریقے سے کسی بھی مقصد کیلئے ایک ملک سے دوسرے ملک بھجوانا یا بیچنا ہے۔پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے سے اس قسم کی شکایات سامنے آ رہی تھیں تاہم سرکاری طور پر کسی تحقیقاتی ادارے کی طرف سے کارروائی حال ہی میں سامنے آئی ہے۔ اس کا آغاز ڈپٹی ڈائریکٹر جمیل احمد میؤ اور ان کے عملے کی طرف سے فیصل آباد میں ایسی ہی ایک شادی کی تقریب پر چھاپے سے ہوا۔جس میں دو چینی باشندوں سمیت چار افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کے مطابق گرفتار کیے گئے ان افراد سے تفتیش کی روشنی میں دیگر مقامات پر کارروائیاں عمل میں لائی گئیں جس میں درجنوں معصوم لڑکیوں کو اس چین جاؤ پیسا کماؤبزنس کا نشانہ بنایا گیا۔پاکستانی لڑکیوں کو شادیوں کا جھانسہ دے کر چین اسمگل کرنے والے گینگ نے دوران تفتیش سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ لڑکیوں سے آن لائن دوستی سے آغاز کرتے اور اسلام کو بطور مذہب قبول کرنے کی یقین دہانی کرانے کے بعد لڑکی کو پوری طرح اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔
پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے سے اس قسم کی شکایات سامنے آ رہی تھیں تاہم سرکاری طور پر کسی تحقیقاتی ادارے کی طرف سے کارروائی حال ہی میں سامنے آئی ہے انسانی حقوق پر کام کرنے والے کارکنوں کے مطابق پچھلے ایک سال سے پاکستان کے صوبے پنجاب میں چینی باشندے شادی کی غرض سے آ رہے ہیں اور لڑکیوں کو شادی کر کے چین لے جا رہے ہیں۔جو لڑکیاں جسم فروشی کے کاروبار کے لیے موزوں نہیں رہتی تھیں، انھیں انسانی اعضا کی تجارت میں استعمال کیا جاتا تھا پاکستان میں زیادہ تر مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا تاہم متاثرہ خواتین میں مسلمان لڑکیاں بھی شامل تھیں.اگر لڑکی مسیحی ہوتی تھی تو یہ (گروہ) چینی لڑکے کو مسیحی اور اگر مسلمان ہوتی تھی تو اسے مسلمان ظاہر کرتے تھے.’ ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان ‘زیادہ تر اس حوالے سے تصدیق نہیں کرتے تھے.یہ پاکستانی لڑکیوں کو بہتر مستقبل کا جھانسہ دے کر ان کی چینی لڑکوں سے شادی کرواتے تھے اور اس طرح انھیں چین لے جاتے تھے.چین لے جا کر ان پاکستانی لڑکیوں کو جسم فروشی کے کاروبار میں دھکیل دیا جاتا تھا.یہ شادیاں نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر جسم فروشی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔جس میں چینی لڑکے خود کو مسلمان ظاہر کرتے اور یہاں کچھ ایجنٹس کے ساتھ مل کر ان معصوم اہر کم عمر لڑکیوں کے گھروالوں کو یہ کہہ کر بھلاتے کہ پاکستانی شہریت کے لیے شادی کرینگے اور بعد میں لڑکی کے نام پر پاکستان میں بزنس کرینگے۔چینی باشندوں نے یہاں پاکستان کی کچھ رشتہ کروانے والی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر ناجانی کتنی لڑکیوں کی زندگی اس گندے فعل میں ڈھکیل دی۔اس وقت چین میں مردوں کی تعداد خواتین سے کئی زیادہ ہے،کچھ لڑکیوں نے درج شکایات میں لکھا کہ ان سے کہا گیا کہ لڑکا ’سی پیک میں ملازم ہے‘ لیکن چین جانے کے بعد پتا چلا کہ ایسا نہیں ہے۔ زیادہ تر کیسز میں ایک بار جب لڑکی پاکستان سے چین روانہ ہو جائے تو پھر اس سے تعلق رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔جسم فروشی کے لیے انسانی سمگلنگ میں ملوث ان چینی گروہوں کا شکار بننے والی لڑکیوں کی صحیح تعداد کتنی ہو سکتی ہے، اس حوالے سے ایف آئی اے کے پاس مکمل اعداد و شمار تاحال میسر نہیں. شادی سے قبل ان کا وکیل سہولت کار انڈیپینڈنٹ کنسِنٹ سرٹیفیکیٹ یعنی آزادانہ اور اپنی مرضی سے شادی کرنے کا سرٹیفیکیٹ تیار کر کے لڑکیوں سے اس پر دستخط کرواتا تھا سرٹیفیکیٹ پر دستخط کروانے کے بعد پادری کی مدد سے لڑکی کی چینی لڑکے سے شادی کروائی جاتی تھی جس کے حوالے سے تقریب بھی منعقد کی جاتی تھی۔اس دوران اس کے شناختی کارڈ پر نام کی تبدیلی اور سفری دستاویز کی تیاری کی جاتی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ لڑکی کو چینی زبان بولنا سکھایا جاتا تھا۔ ایک ماہ بعد لڑکی کو لڑکے کے ساتھ چین بھیج دیا جاتا تھا۔ایف آئی اے کے مطابق بعض میرج بیوروز کے ایجنٹ بھی چینی باشندوں سے کمیشن لے کر پاکستانی لڑکیوں سے شادیاں کراتے تھے۔ایف آئی اے ذرائع کا کہنا تھا کہ چائنہ میں پاکستان ایمبیسی کو بھی ساری صورتحال سے آگاہ کردیا گیا ہے.۔ ۔چینی حکومت نے پاکستانی لڑکیوں کی چینی باشندوں سے شادیوں اور جسم فروشی کے لیے چین اسمگل کیے جانے کی خبروں کا بھی نوٹس لیا،چین کی وزارت پبلک سیکیورٹی نے پاکستانی اداروں کے ساتھ تعاون کے لیے ایک ٹاسک فورس بھی پاکستان بھیجی ہے۔ چینی سفارتخانے نے اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستانی اور چینی عوام ایسی افواہوں پر یقین نہیں کریں گے اور چین کچھ جرائم پیشہ عناصر کو پاک چین دوستی اور دونوں ممالک کے لوگوں کے تعلقات کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دے گا۔چینی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ قومی حدود سے باہر شادیوں کے حوالے سے چین کا مؤقف جائز شادیوں کو تحفظ فراہم کرنا اور جرائم کو روکنا ہے تاہم، اگر کوئی تنظیم یا فرد کراس بارڈ شادی کی ڈھال میں پاکستان میں جرم کرتا ہے تو چین پاکستان کے ان پر کریک ڈاؤن کی حمایت کرتا ہے۔بین الاقوامی و غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس واچ کی حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں پاکستان سے لڑکیوں کو چین ٹریفک کرنے کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پیش آنے والے واقعات ایشیا کے پانچ اور ممالک سے مماثلت رکھتے ہیں۔اس وقت چین میں مرد اور عورتوں کے درمیان ایک عدم توازن پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں چینی باشندوں کی شادیوں کی خبریں چین کے ذرائع ابلاغ میں بھی رپورٹ کی جا رہی ہیں۔گلوبل ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک چینی گروہ پاکستان لڑکیوں کو شادی کے نام پر دھوکہ دے رہا ہے۔اگر پاکستان انسانی اسمگلنگ روکنے میں کامیاب نہیں ہوا توہوسکتا ہے کہ پاکستان کومزید پابندیوں کاسامناکرنا پڑے اور ان سب سے پاک چین دوستانہ تعلقات بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔پاکستان کو کاروبار کے نام پر آنے والے ان چینی باشندوں پر کڑی نظر رکھنا اس وقت بہت ضروری ہے جو یہاں آ کر شادیاں کرتے ہیں اور پتہ لگانا چاہیے کہ وہ کن کاروباری اداروں اور چیمبرز آف کامرس کی دعوت پر یہاں آئے ہیں۔بشکریہ پریس لائن انٹرنیشنل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Talha Khan
About the Author: Talha Khan Read More Articles by Talha Khan: 60 Articles with 41169 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.