شوال المکرم کی پہلی تاریخ یعنی یوم عید کے ساتھ گرچہ
کوئی تاریخی واقعہ جڑا ہوا نہیں ہے،اس کے باوجود اس دن کی جو اہمیت ہے اس
سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔عام طور پر ہر مذہب و ملت میں تہواروں کو کسی
واقعے کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور اسی واقعے کی نسبت سے اس دن کو بطور یادگار
منایا جاتا ہے،لیکن عید کا دن ان سب سے الگ خالص مذہبی اور روحانی تہوار ہے،
جو اس لئے منائی جاتی ہے کہ بندے نے ایک مبارک مہینہ، ماہ رمضان کو بحسن و
خوبی گزار لیا ہے اور شکرانے کے طور پر عید منا رہا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے
تو یہ تہوار صرف اظہار تشکر،روحانیت و نورانیت پر مبنی ہے۔محض ایک دن قبل
تک رمضان المبارک کا با برکت مہینہ تھا۔ اس ماہ میں دن کے اوقات میں ایک
صحت مند آدمی کے لئے کھانا پینا حرام تھا، لیکن آج( اول شوال) کے بعد وہی
نعمت جس کو ممنوع کہاگیا تھا، جائز ہوچکی ہے۔ اﷲ کو راضی کرنے والے اعمال ،عبادت
ریاضت کے شکرانے میں عید کی خوشیاں منائی جارہی ہیں۔یکم شوال کو عید منانے
کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک کا با برکت مہینہ ابھی ابھی رخصت
ہوا ہے۔ ظاہر ہے جب کوئی عظیم اور محبوب شخصیت جدا ہوتی ہے تو اسے سبکدوشی
پر تحفے تحائف کے ساتھ ہی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔رمضان سے زیادہ
محبوب اور عزیز کون ہوسکتا ہے؟ اس ماہ کی مبارک ساعتوں میں بندے نے بے شمار
فیوض و برکات سمیٹے ہیں۔لہٰذادلی خوشی اور رمضان تینوں عشرہ عبا دت میں
گزارنے کے طور پر عید کی تقریب منعقد کی جاتی ہے اور لوگ ایک ساتھ مل کر
خوشیاں مناتے ہیں۔ اس کا مقصد ہوتا ہے رمضان کی اہمیت کو اجاگر کرنا۔اگر
غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کی تمام قوموں میں جو بھی تہوار منایا
جاتا ہے وہ کسی نہ کسی اہم واقعہ، ،موسم میں تبدیلی یا مخصوص تاریخی کردار
کے ساتھ جڑاہوتا ہے۔ خود مذہب اسلام میں دوسرا تہوار بقر عید کو دیکھ لیں ،
اس کا تعلق ایک عظیم تاریخ َ قرباں سے مربوط ہے ،لیکن عید ہی ایک ایسی
تقریب ہے جس کا ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق
خالص مذہبی اور روحانی ہے۔خالص روحانی اس طرح کہ رمضان المبارک کے پورے
مہینے میں بندے کو بھوکے پیاسے رہنے کا جو حکم دیا گیا تھا اور عبادت و
ریاضت میں کثرت کی جو ترغیب دی گئی تھی، بندے نے اس کو نبھا دیا ، جس کی
وجہ سے رب کی طرف سے کئے گئے انعاموں کی بارش کا مستحق ہوا۔ اسی خوشی میں
وہ آج کے دن کو خوشیوں کے طور پر منا رہا ہے۔اپنی خوشیوں سے یہ اظہار کر
رہا ہے کہ اس نے رمضان المبارک میں نفسانی ایثار ، مساکین کے لئے مالی
امداد و عطایا فقراء کے ساتھ روا داری کا جو کردار اپنا یاہے اور اس ماہ
مبارک کی پانچ راتوں میں سے کسی ایک رات میں اس نے جو لیلۃ القدر کے فیوض و
برکات حاصل کیا ہے ، ان برکتوں سے اس کی زندگی میں جو ایک نئی جلا پیدا
ہوئی ہے اب وہ ، آنے والی زندگی میں ان سے مستفید ہوتا رہے گا، گویا آنے
والی زندگی کی شروعات ایک نئے انداز سے کرنے کی خوشی میں وہ آج خوشیاں منا
رہا ہے۔عید کا دن صرف نئے کپڑے پہننے اور سویاں کھا لینے کا نام نہیں ہے
اور نہ ہی سیر و تفریح کرنے کا۔ بلکہ یہ دن یہ عہد کرنے کا دن ہے کہ جس طرح
رمضان کا ایک ایک دن خدا پرستی اور انسانیت دوستی میں گزرا ہے، آئندہ بھی
اسی طرح گزرتا رہے گا۔ عید کا دن کئی پہلووں سے خوشی منانے کا دن ہے لیکن
صرف خوشیاں منا لینا ہماری ذمہ داریوں کو پوری نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ
ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جس طرح ہم نے ماہ رمضان کو عبادت و ریاضت، ہمدردی
و رواداری، انسانیت و شرافت اور غریب پروری میں گزارا ہے اسی طرح ہمیں آنے
والے وقتوں کو بھی اسی طرح گزارنے کا عزم صمیم کرنا ہوگا۔عید کے دن روزے کو
حرام کیا گیا ہے کیوں کہ اس دن رب کی میزبانی ہوتی ہے۔ البتہ دو شوال سے
مزید چھ روزے رکھ لئے جائیں تو مسلم شریف اور ابو داؤد شریف کی روایت کے
مطابق ایسے آدمی کو پورا سال روزہ رکھنے کا اجر دیا جائے گا۔ خلاصہ کلام یہ
کہ عید یقینا خوشی و شادمانی کا دن ہے ، روحانیت اور نورانیت بٹورنے کا دن
ہے بشرطیکہ اس دن کو صحیح اور اسلامی مزاج کے مطابق گزارا جائے۔
|