میرے آقاﷺ کی اطاعت ابدی سے روگردانی کا نتیجہ ہے کہ
فیصلوں کے بھنور فاصلوں کا گرداب بنتے جاتے ہیں، یقین پرت در پرت ٹوٹتا ہے
تو امید تنکا تنکا ہو کر ہواؤں کی نذر ہوتی جاتی ہے، تعلق کی ڈوری رگیں
کاٹتی ہے تو رشتوں کی آستین خنجر بنتی جاتی ہے اور اس بے اعتباری و بے
یقینی کے اژدھام میں صرف اور صرف مکہ و مدینہ کی یاد ڈھال بن جاتی ہے۔
ورنہ اسلام کے نام لیوا ,اسلامی اقدار کے ضامن, اسلام کے نام پر حاصل کیا
گیا وطن اور وقت حاصل ؤ ہجرت کتنے مسلمانوں کی عزت ؤ آبرو خاک ملی تب جاکر
یہ وطن پاکستان پاک ملا, اسلام کے داعی بننے والے ہی اسکے دشمن بنتے جا رہے
ہیں.
لیکن افسوس کے آزادہ اسلامی ریاست میں بھی آدم کی بیٹی محفوظ نہیں ھے.
کب تک اس ملک میں معصوم کلیاں یونہی کسی نہ کسی درندے کی وحشت جا نشانہ بن
کر کچلی جائیں گی؟ کیا ملک پاکستان میں اب عوام یہ دعا مانگنا شروع کر دے
کہ اے اللہ ہمیں بیٹیوں جیسی نعمت نہ دینا کیونکہ معاشرے میں پھرتے ناسور
ان بیٹیوں کی عزت کو ایسے تار تار کرتے رہیں گے؟
خان صاحب ابھی تو ساہیوال واقعہ کے قاتلوں کو سزا نہیں ملی اور ایک کیس سر
پر آکھڑا ہوا ہے۔۔
خدارا ان ظالموں کو ایسی عبرتناک سزائیں دیں کہ کوئی پھر ایسا کام کرنے سے
پہلے ہزار دفعہ سوچے۔۔
جو قومیں خود سوتی رہتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ کوئی خلائی مخلوق آکر ہمارے
حالات دررست کر دے تو یہ ان کی اپنی بےوقوفی ہوتی ہے۔
ہم کو بحیثیت ایک قوم خود جاگنا ہوگا اگر اس جیسے واقعات پر کنٹرول کرنا
چاہتے ہیں تو بس اگلے واقعے کا انتظار کرتے ہیں اور ہر بار جسٹس کی بھیک
مانگنے آجاتے ہیں میدان میں.بلکہ کچھ لوگ آواز اٹھائیں بھی تو لیڈروں کے
لاڈلے آواز اٹھانے والوں کو برا بھلا کہتے ہیں کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی
میرے لیڈر کو برا کہنے کی چاہے نواز ہو یا عمران.
ایسے منافقت اور ایک دوسرے سے نفرت پر مبنی تقسیم شدہ معاشروں میں جسٹس
نہیں ملتا ہوتا. یا تو منافقت کے خول سے نکلیں یا اگلے واقعے کا انتظار
کریں.
مغرب کو جنسی بےراہ روی کےطعنےدینےسے جب فارغ ہوجائیں تو انکےقوانین پرایک
نظر ضرورڈال لیں کہ جہاں اگرفردبچےکو غلط نیت سے سہلا بھی لے تو زندگی
بھرکےلئے اس کا نام ایک رجسٹر میں درج کر کے اس پر پابندیاں عائد کر دی
جاتی ہیں وہ بچوں کے سکولوں اور پارکوں وغیرہ کے نزدیک نہیں جا سکتا !
ہم بطورمعاشرہ،بطورملک یہ تسلیم کرنےسے ہی انکاری ہیں کہ ہمارےہاں بچوں پر
جنسی جبرہوتاہے، ہم جب تک مرض کو چھپائینگے، لاعلاج اورتعفن ذدہ ہی رہینگے!
#فرشتہ واقعہ نقطہ آخیر ہونا چاہئیے مضبوط قوانین ہی ہماری معاشرتی درندگی
اور عالمی شرمندگی پر پردہ ڈال سکتے ہیں!
ابھی نہیں تو کبھی نہیں!
خان صاحب انصاف کروائیں چاہے اس کے لیے جو مرضی کرنا پڑے۔۔۔
کیونکہ جو چلی گئی وہ تو واپس نہیں آسکتی لیکن کم از کم باقیوں کو اتنا تو
یقین دلوا دیں کہ اس ملک میں درندے زیادہ دیر آزاد نہیں گھوم سکتے۔۔
زیادتیوں پر سر عام پھانسیوں سے کچھ نہیں ہونا, کر کے دیکھ لیں. معاشرے کی
تربیت کرنی پڑے گی. قانون سے زیادہ الله کا ڈر ذہنوں میں بھرنا ضروری ہے.
باقی سب تو چھوڑیں یہاں بات بات پر پشتون پنجابی تنازع چھڑ جاتا ہے.
ایسے معاشرے میں انصاف نہیں آسکتا جہاں اصلاحات کی بجائے ایک واقعےکےبعد
اگلے واقعے کا انتظار کیا جاتا ہے.
منافقت کی انتہا ہےکہ اصلاحات نہ کرنے پر کوئی اپنے اپنے پیارے لیڈروں کی
کلاس نہیں کرتا,نہ ہی ن لیگی نوازشریف کی کلاس کرتےتھےاور نہ ہی کرتے ہیں.
اسلامی سزاؤں کے نفاذ کی کوشش کی جائے اس حوالہ سے ٹرینڈ چلایں اگر وطن
عزیز کو اس دلدل سے نکلانا چاہتے ہیں ورنہ حکومت جسکی بھی آدم ؤ ہوا کی
بیٹی پامال ہوتی رہے گئ.
ایسے درندوں کو پکڑ کے سرعام سنگسار کیا جائے۔
سخت سے سخت سزائیں ہونی چائیں تاکہ بدکار ایسا گھناؤنا کام کرے سے پہلے 100
دفعہ سوچے۔ |