آپ کے بچوں کی ناکامی کا ذمہ دار کون؟؟؟؟

ہم میں سے اکثر والدین اپنی اولاد کی ناکامی کا سبب تلاش کرتے پھرتے ہیں اور معاشرے کی ناانصافیوں کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اگران سے اپنی اولاد کی ناکامیوں کا سبب پوچھا جائے تووہ اس کے موردِالزام دوسروں کو ٹھہراتے نظر آتے ہیں۔ ہمارا بچہ اس لیئے خراب ہوگیا کہ پورا معاشرہ ہی خراب ہے۔ اس کو ٹیچرز اچھے نہیں ملے۔ اس کے دوستوں نے اسے خراب کیا ہے۔ٹی وی دیکھ کر ہمارے بچے خراب ہوگئے۔ موبائل نے ہمارے بچوں کا بیڑا غرق کردیا۔ تعلیم بہت مہنگی ہو گئی ہے ہم اگر ان کا داخلہ کسی اچھے کالج یا یونیورسٹی میں کروا دیتے تو ہمارے بچے آج کامیاب ہوتے ۔اس طرح کے بہت سے ایسے سوالات اور مشکلات ہیں جن کا ہمیں روزانہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اصل میں اس ناکامی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ۔ ہم کبھی بھی اس کا سراغ نہیں لگا پاتے۔ ہمارے ہاں ہر شخص الزامات کا ٹوکرادوسرے کے سر پر رکھ کر خو د اپنی زمہ داریوں اور کاموں سے آذاد ہونا چاہتا ہے۔ اپنے جرائم کی پوٹلی کوئی بھی اٹھانا نہیں چاہتا کہ اس کا وزن بہت ہوتا ہے۔ ہمارا دل کرتا ہے کہ ہم اسے کسی ویران جگہ پہ رکھ کر خو د وہاں سے فرار ہوجائیں اور چین کی بانسر ی بجائیں۔

لیکن معاشرہ اور ہمارے بچے ہمیں نہیں چھوڑتے ۔ اپنے بچوں کی اصل ذمہ داری والدین کی ہے۔اگر آ پ یہ کہیں کہ سکول والوں کا کام ہے کہ وہ محنت کریں اور جو کسر باقی رہ جائے وہ ٹیوشن والے کریں اور آپ کو ایک پڑھا لکھا،باصلاحیت ، سلجھا ہوا،باوقاراور قابل ترین ڈاکٹر یا انجینئیر دے دیں تو یہ آپ کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اس میں سب سے اہم کردار والدین کے رویہ اور ان کے رہن سہن کا ہے۔ یادرکھیں! کہ بچہ سکھانے سے نہیں سیکھتا بلکہ جو کچھ اس کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے وہاں سے سیکھتا ہے۔ بہت سے لوگ آپ کو بہت ہی باوقار نظر آتے ہے لیکن ان کے بچے انتہائی بد تمیز ہو تے ہیں۔ یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ان کے ماں باپ لوگوں کے سامنے تو بہت باوقار نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا ۔وہ اپنی گھریلو زندگی میں انتہائی بد تمیز ہوتے ہیں جس کے اثران ان کی اولاد پر ہوتے ہیں۔

ایک دفعہ سکول میں کچھ بچوں نے مجھ سے آکر شکایت کی کہ فلاں بچہ بہت گندی گالیاں دیتا ہے۔ اس کا باپ ہردلعزیز اور پارسا تھااور لوگ اس کی دیانت،فصاحت اور بلاغت کے بہت قائل تھے ۔مجھے بعد میں پتہ چلا کہ اس بچے کے والد گھر میں اس کی ماں کو گندی گالیاں نکالتے تھے جبکہ دوسروں کے سامنے ان سے پارسا اور کوئی نہیں تھا۔ پانچ وقت نماز پڑھتے اور لوگوں کو حق و صداقت کی تلقین کرتے تھے۔لیکن ان کی گھریلو زندگی کا پردہ اس کے بچوں نے چاک کیا کہ وہ انتہائی بد تمیز شخص ہے۔
بہت سے لوگ سمجھتے کہ بچہ سکول کی پڑھائی سے سب کچھ سیکھ لیتا ہے۔لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔بچہ سکول یا اکیڈمی سے پڑھ کر پی ایچ ڈی تو کرسکتا ہے لیکن وہ ایک اچھا انسان نہیں بن سکتا ۔ ہمارے سکولوں میں کسی بھی لیول پر یہ تعلیم نہیں دی جاتی کہ آپ نے اپنی ذاتی زندگی کو کیسے گزارنا ہے؟۔خوش کیسے رہنا ہے؟۔دوسروں کی مدد سے کیا حاصل ہو گا؟۔مشکلات کا سامنا کیسے کرنا ہے؟۔بچے کو باادب کیسے بنا نا ہے؟۔اس کو شعورا ور ادراک کیسے دینا ہے؟۔ بڑوں کی عزت کیسے کرنی ہے؟۔چھوٹوں سے پیار کیسے کرنا ہے؟۔ رشتوں کی پہچان کیا ہے؟

پرانے دور میں یہ سارے کام والدین ہی کرتے تھے لیکن اب ہم نے مصروفیت کا بہانا بنا کر اپنی ان تمام ذمہ داروں سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ہم تما م ذمہ داری دوسرے کے اوپر ڈال کر خود آذاد رہنا چاہتے ہیں۔

اگر آپ اپنے بچے میں وہ تما م خوبیاں دیکھنا چاہتے جن کے آپ نے خواب دیکھے ہیں تو اپنی ذمہ داریوں کو خود نبھائیں۔اپنے بچے کو خودٹائم دیں ۔ اس کی خامیوں اور خوبیوں کا ادراک ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کا معاشرے میں چال چلن آپ ہی درست کروا سکتے ہیں۔آجکل کے سکول اور کالجز اور اکیڈمیز کا کام صرف اور صرف بچوں کو مصروف رکھنا رہ گیا۔

جتنے بہتر طریقے سے آپ اپنے بچے کو سمجھ سکتے ہیں کوئی اور نہیں سمجھ سکتا ۔تو بجائے اس کے کہ آپ خو د کما کر ان پر خرچ کریں ۔بلکہ سب سے بہتر چیز جو آپ کے بچے کو چاہیے وہ آپ کا ٹائم ہے۔ اگر آپ اپنے بچے کو خود ٹائم دیں گے تو آپ کا بچہ دنیا کا کامیاب ترین شخص بن سکتا ہے۔
 

Tanveer Ahmed
About the Author: Tanveer Ahmed Read More Articles by Tanveer Ahmed: 71 Articles with 88928 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.