مارکیٹس کمیٹیوں کا کام روزانہ کی بنیاد پر ہر قسم کی
اشیائے خورد و نوش کے ریٹس مقرر کرنا ہوتا ہے اور ہر روز تیار شدہ ریٹ لسٹ
مارکیٹس تک پہنچانا بھی ان ہی کی زمہ داریوں میں شامل ہے ہونا تو اس طرح
چاہیئے کہ مارکیٹس کمیٹیوں کو تمام چیزوں کے ریٹس مقرر کرنے سے پہلے منڈی
کے ریٹس کو مد نظر رکھ کر روزانہ قیمتوں کا تعین کریں لیکن ایسا نہیں ہو
رہا ہے سبزی و پھل فروٹ کی ہی مثال لے لیجیئے منڈی میں ان کی قیمت اور ہوتی
ہے اور مارکیٹس کمیٹیاں جو ریٹ لسٹ جاری کرتی ہیں ان پر قیمتیں کچھ اور
ہوتی ہیں منڈی اور مارکیٹس کمیٹی کے ریٹ آپس میں مطابقت نہیں رکھتے ہیں صرف
لیموں کو ہی سامنے رکھ کر بات کی جائے تو منڈی میں اس کی قیمت 380 روپے ہے
ایک دکاندار اس کو منڈی سے خرید کر گاڑی کا کرایہ بھی بھرتا ہے اور اسے وہ
لیموں اپنی دکان تک 400 روپے فی کلو میں پڑ جاتا ہے اب وہ آدھی رات کو اٹھ
کر منڈی میں دھکے کھاتا ہے اور ساتھ ہی اس نے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے
کیلیئے تھوڑا بہت منافع بھی لگانا بہت ضروری ہوتا ہے اور اسے مجبورا وہ
لیموں 420 روپے میں فروخت کرنا ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو نقصان
میں چلا جائے گا ساتھ ہی ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ پرائس مجستریٹس یا جو
بھی قیمتیں چیک کرنے کیلیئے آتے ہیں وہ آتے ہی سب سے پہلے مارکیٹس کمیٹی کی
طرف سے جاری کردہ ریٹ لسٹ طلب کرتے ہیں اور وہ ریٹ لسٹ جس میں پہلے ہی واضح
فرق موجود ہے دیکھتے ہی دکاندار کو فوری طور پر ہاتھ میں جرمانے کی چٹ تھما
دیتے ہیں ان ایک غریب دکاندار کی کیا جرآت ہے کہ وہ پرائس مجستریٹ کے سامنے
کوئی فالتو بات کر سکے وہ بے بسی کی تصویر بنے وہ جرمانہ ادا کر دیتا ہے جس
وجہ سے وہ کئی دن کیلیئے بہت پیچھے چلا جاتا ہے یہ عمل بلکل ایک نا انصافی
پر مبنی ہے اور سرا سر زیادتی کے زمرے میں آتا ہے اور ایک غریب دکاندار سے
اس کے بچوں کا رزق چھیننے کے مترادف ہے ایسا طریقہ کار بلکل صحٰح نہیں ہے
اور ساتھ ہی یہ بھی ہو گا کہ اب اس دکاندار کو ادا شدہ جرمانے کی رقم پوری
کرنے کیلیئے کئی طرح کی ہیرا پھیریاں کرنا پڑ جاتی ہیں اب ہو گا کیا اس نے
اپنا نقصان پورا کرنے کیلیئے بعدمیں آنے والے گاہکوں کو مزید مہنگے سودے
فرخت کرنے کی کوشش کرے گا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ادارے اپنی ناقص
پالیسیوں کی وجہ سے دوسروں کو بے ایمانی کرنے کا درس دے رہے ہیں حکومت کو
چاہیئے کہ اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دے اور متعلقہ اداروں کو اس بات کا
پابند بنایا جائے کہ قیمتوں کا تعین کرتے وقت منڈی کے ریٹس کا ہر صورت خیال
رکھا جائے اور منڈی کی قیمتوں کو سامنے رکھ کر روزانہ کی بنیاد پر قیمتیں
طے کی جائیں اس کے بغیرتو غریب دکاندار بجائے فائدے کے نقصان ہی برداشت
کرتے رہیں گئے اور دکانداروں میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ منڈی سے چیزیں
مہنگے داموں خریدیں اور آگے سستی فروخت کریں اس کے علاوہ بھی ایک اور بہت
بڑا مسئلہ ہے کہ بعض جہگوں پر مارکیٹس کمیٹی کی ریٹ لسٹ پہنچ ہی نہیں پاتی
ہے جس وجہ سے دکانداروں کو بھاری جرمانے اور جیل تک بھی جانا پڑ جاتا ہے
حالانکہ جرمانہ یا اس طرح کی دیگر کوئی سزا ان زمہ داران کو ملنی چاہیئے
جنکی یہ زمہ داری ہے کہ ریٹ لسٹیں ہر جہگہ پہنچائی جائیں دوسری طرف اگر
پرائس مجستریٹس کی بات کی جائے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر تحصیل میں
اسسٹنٹ کمشنر ،تحصیلدار،نائب تحصیلدار اور ان کے براربر کے عہدوں کے دیگر
آفیسرز کو قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلیئے سپیشل پرائس مجستریٹ کے خصوصی
اختیارات سونپے جاتے ہیں جن کیلیئے باقاعدہ طور پر ہوم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے
آرڈرز کیئے جاتے ہیں کہ فلاں فلاں آفیسرز کو بطور پرائس مجستریٹ نامزد کیا
جاتا ہے اگر کسی بھی ایک تحصیل میں تین یا چار پرائس مجستریٹس موجود ہوں تو
کس دکاندار کی اتنی ہمت ہو کہ وہ مقرر کردہ نرخوں سے زائد قیمت وصول کر سکے
پہلی بات تو یہ ہے کہ پرائس مجستریٹس کا قیمتیں چیک کرنے کا طریقہ ہی ٹھیک
نہیں ہے وہ ایک شاہانہ طریقے سے بازار میں کبھی کبھار تشریف لاتے ہیں اور
گاڑی سے نیچے اترنے کے بغیر ہی دکاندار کو بغیر چیک کیئے جرمانے کی چٹ تھما
دیتے ہیں ان کے ساتھ اپنے دفتر کا ایک نائب قاصد ہوتا ہے اور وہی سب کچھ کر
کے چلا جاتا ہے افسران تو بازاروں میں چیکنگ کرنے کو تکلیف دہ عمل سمجھتے
ہیں ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے کہ متعلقہ دکان دار اب مہنگی
چیزیں کیوں فروخت کر رہا ہے اور آئندہ بھی مہنگی فروخت نہ کرے وہ صرف اس
لیئے تشریف لاتے ہیں کہ انہوں نے اپنا آج کا ملنے والا جرمانوں کے حوالے سے
ٹارگٹ پورا کرنا ہوتا ہے اس کے علاوہ ان کو عوام کے ساتھ مہنگائی کی صورت
میں ہونے والے ظلم سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی وہ دکانداروں کو
اس طرح کی کوئی تنبہیہ کرتے ہیں نقصان ہر لحاظ سے صرف اور صرف غریب عوام کو
ہی برداشت کرنا پڑتا ہے اگر ہمارے زمہ دار ادارے اپنے فرائض ٹھیک طریقے سے
ادا کرنے شروع کر دیں تو کوئی کسی کی مجال ہی نہیں کہ وہ گورنمنٹ کی طرف سے
قائم کردہ حدود سے تجاوز کر جائے یا ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی سکے
لیکن جب کوئی بھی پوچھنے والا ہی نہ ہو اور قیمتیں کنٹرول کرنا کسی کا
مسئلہ ہی نہ ہو تو دکاندارتو اپنی من مرضی ضرور کریں گے- |