رمضان المبارک میں عبادات اور روزوں کی جہ سے بلاگ،
کالم یا مضمون لکھنے کی ہمیت تو نہیں ہوتی ، مگر گزشتہ کچھ دنوں سے سوشل
میڈیا پر ایک خبر زیر گردش ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت یعنی اسلام آباد
جیسے علاقے میں ایک گیارہ سالہ بچی جس کا نام فرشتہ تھا اسے اغوا کیا گیا
اس کے بعد اس کے ساتھ مبینہ طور پرجنسی زیادتی ہوئی، جنسی زیادتی کے بعد
اسے قتل کردیا گیا ،بس اسی وجہ سے Laptop کو تکلیف دینا پڑی۔
یہ واقعہ کب ہوا اور کیسے ہوا ؟ سوشل میڈیا اخبارات اور دیگر زرائع سے حاصل
شدہ معلومات کے مطابق 15مئی کے دن دوپہر کے بعد گلی میں کھیلنے کے غرض سے
فرشتہ مہمند اپنے گھر سے نکلی ، عصر کے بعد اور مغرب سے تھوڑی دیر قبل
فرشتہ کے بڑے بھائی عبدالقیوم مہمند نے گھر میں فرشتہ بی بی کے بارے میں
اپنی اماں سے معلومات لی تو اماں نے کہا کہ اڑوس پڑوس میں گئی ہوگی آجائیگی،
افطاری کے وقت تک جب فرشتہ گھر نہیں آئی تو سب گھر والوں کو تشویش ہونے لگی
، افطاری کرنے بعد فرشتہ کے بھائیوں اور والد گل نبی نے فرشتہ بی بی
کوڈھونڈنا شروع کیا ،کافی محنت کے بعد جب فرشتہ بی بی نہیں ملی تو مقامی
تھانے میں اطلاع دی مگر تھانے سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا ، اگلے روز
پھر یہی محنت اور مساجدوں میں اعلانات کے بعد بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا ، تب
ایک مرتبہ پھر فرشتہ بی بی کے والد کچھ دیگر رشتہ داروں کے ساتھ شہزاد ٹاؤن
تھانے میں گئے تو ایس ایچ او غلام عباس نے فرشتہ بی بی کے والد کو یہ کہا
کہ وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی ، ہم ایف آئی آر نہیں کاٹ سکتے ، تیسرے دن
بھی یہی صورت حال رہی چھوتے روز جاکر کچھبا اثر افراد کے تعاون و مداخلت پر
گمشدگی کا ایف آئی آر درج ہو ہی گئی ، جس کے اگلے ہی روز یعنی 20مئی کو
جگیوٹ کے جنگلات سے فرشتہ بی بی کی مسخ شدہ لاشمل گئی ۔ لاش کو پوسٹ مارٹم
کے لیے پولی کلینک اسپتال منتقل کی گئی جہاں لواحقین بھی پہنچ گئے ، پوسٹ
مارٹم کی حتمی رپورٹ آنے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے، مگر ابتدائی رپورٹ کے
مطابق فرشتہ مہمند کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے اور اس کو بڑے بے رحمانہ
طریقے سے قتل کیا گیا ،رپورٹ میں تیزاب کے ’’Traces‘‘بھی ملے ہیں، جبکہ
ننھی فرشتہ کی لاش چار روز تک جنگل میں پڑی رہی جس کو جنگلی جانوروں نے بھی
خراب کیاتھا۔
گیارہ سالہ فرشتہ مہمند کے ساتھ ہونے والی جنسی درندگی اور دردناک قتل کا
یہ واقع پاکستان کا پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی تسلسل سے ایسے واقعات
ہوتے رہے ہیں، مگر کچھ ہی واقعات کو میڈیا میں کوریج مل پاتی ہے ۔ کچھ عرصہ
قبل پنجاب کے ضلع قصور کی زینب کا کیس سب کے سامنے ہے ، الیکٹرونک ، پرنٹ
اور سوشل میڈیا نے اس کیس کو کتنی کوریج دی سب کو معلوم ہے ۔ زینب قتل کیس
میں قصور کا ہی ایک لڑکا عمران مجرم ٹہرا اور پھانسی کی سزا ہوگئی ،مگر
فرشتہ بی بی کے کیس میں اب تک ٹھوس گرفتاری نہیں ہوئی اور نہ ہی ابتداء میں
الیکٹرونک میڈیا نے اتنی کوریج دی جتنی زینب کو دی تھی ۔
سوال یہ ہے کہ ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں اور الحمد اﷲ مسلمان بھی ہے
، مگر اس کے باجود ایسے واقعات( جس سے پاکستان اور پاکستانیوں کا سر شرم سے
جھکتا تو ہے ہی مگر مسلمانوں کے بھی سر شرم سے جھک جاتے ہیں)کیوں ہوتے ہیں؟
شاید اس کا جواب آج ہمارے پاس نہیں ہے۔ ایک اور سوال بھی ہے کہ کیا فرشتہ
بی بی کے ساتھ پیش آنے والے اس ہولناک واقع کے بعد کسی اور ننھی کلی کے
ساتھ ایسا واقع پیش نہیں آئیگا؟ کیوں کہ اس سے قبل کراچی کٹی پہاڑی کی
رابعہ اور قصور کی زینب کے بعد حکمرانوں اور سیکورٹی اداروں نے کچھ دعوے
کئے تھے کہ آئندہ اس قسم کے واقعات کی روک تام کے لیے مو ثر اقدامات کیے
جائیں گے، مگر ہوا کچھ بھی نہیں ،اگر زینب کے قاتل کو زینب کے والد کی
درخواست پر سرعام پھانسی دی جاتی تو شاید آج فرشتہ مہمند کے ساتھ ایسا نہ
ہوتا ۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا قانون، ریاست اور سماج ہمارے بیٹوں یا بیٹیوں
کو تحفظ فراہم کرتا ہے؟ پیڈوفیلیا کے مرض کا شکار افراد سے ملک قوم کے بچوں
کو بچانے کی کوئی حکومتی سطح پر ٹھوس کاوش اور سنجیدگی کہیں دکھائی دیتی
ہے؟سوالات پر سوالات بنتے چلے جارہے ہیں، اگر یوں ہی سوالات کا سلسلہ چلتا
رہا تو یہ مضمون ضخیم کتاب کی صورت اختیار کر جائیگا ۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جس کے قیام کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانی
اس لیے دی گئی کہ صرف مذہبی آزادی ضروری ہو؟ہم اسلامی اقتدار کے ماننے والے
ہے اور اسلامی اقتدار بھی وہ جس میں بچوں بوڑھوں عورتوں بیماروں جانوروں
غرض تمام جانداروں کے حقوق کی پاسداری کا حکم موجود ہے۔آج اس گھٹن زدہ
ماحول میں ہمیں دنیا کی تمام تر آسائشوں کے باوجود معاشرے میں اخلاقی اقدار
کی پستی ہر زاویہ سے نظر آ رہی ہے۔اسلامی قوانین سے دوری معاشرے میں بگاڑ
کا سبب ہے۔ اس کی زمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ؟اس کا تعین کرنا مشکل ہوتا
جا رہا ہے۔وجہ جب قوم انتشار کا شکار ہو جائے تو اس کی سوچنے سمجھنے کی
صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے ، جبکہ حکمران طبقہ اسی قوم سے جنم لیتا ہے اور
پاکستانی حکمران طبقے میں بھی سوچنے سمجھنے کی اس صلاحیت کا فقدان آج پوری
دنیا کے سامنے موجود ہے۔
موجودہ واقع پر پوری پاکستانی قوم انصاف چاہتی ہے، انصاف بھی ایسا کی جس کے
بعد پھر کوئی کسی ننھی کلی کو یوں مسلنے کا خواب نہ دیکھ سکے۔انصاف جہاں
مجرم جرم کرنے سے پہلے اپنے انجام سے باخبر ہو۔انصاف جہاں مجرم جرم کرنے کی
سوچ سے چھٹکارا حاصل کر کے جرم کی سوچ سے ہی توبہ کر لے،حکومت پاکستان کو
اس کے لیے اسے ٹھوس اقدامات کرنے ہونگے۔حالیہ سانحہ اسلام آباد پر کسی کے
آنسو آنکھوں سے اگر رواں نہیں تو دل تو سبھی کے رو رہے ہیں۔سب اس انتظار
میں ہے کہ کیا’’ فرشتہ بی بی کو انصاف ملے گا‘‘ یا یہ سانحہ دیگر سانحات کی
طرح وقت کی بے رحمی کا شکار ہو کر فائلوں کی زینت بن جائیگا۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یااﷲ تو ہی ہماری بچیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھ
(آمین)
|