زینب کیس جیسے ہی میڈیا پر آیا تو خبر جنگل میں آگ کی طرح
پھیل گیا , پھر تو جیسے ایک لہر ہی شروع ہوگئی آئے روز ننھی پریاں اور
معصوم لعل ظالموں کی ہوس کا نشانہ بنتے رہتے ہیں , گزشتہ دنوں جب معصوم
فرشتہ مہمند کے اندوہناک قتل کے واقعے کا سنا تو مجھے افسوس ہوا اپنے قلم
پہ کہ اس قلم سے کیا فائدہ؟ جو قلم کسی بچی کے ساتھ زیادتی کے موقع پہ نہ
اٹھے۔ اس زبان سے کیا فائدہ جو اس ظلم کے خلاف آواز نہ بلند کر سکے۔ ان
فقیہوں کے مذہب سے کیا فائدہ جو عورت کے حقوق کی بات نہ کر سکیں۔ ان
دانشوروں کی دانشوری سے کیا فائدہ جو غیرت کے نام یہ جہالت کی بنی سوچیں نہ
بدل سکیں۔ ان قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کیا فائدہ جو ریاست کی مظلوم
اور نہتی لڑکی کی حفاظت نہ کرسکیں۔ ان وکلاء سے کیا فائدہ جن کے دلائل
ظالموں کے لیے وقف ہوں۔ ان ججوں سے انصاف کی کیا امید جو چند ٹکوں کے عوض
بک جائیں۔ ان حکمرانوں کو حق حکمرانی کیوں دیا جائے جو کسی کے چہرہ کو
داغدار کرنے والوں پہ ہاتھ نہ ڈال سکیں؟
کیوں نہ قلم کار قلم سے آزار بند ڈالنا شروع کر دیں۔ کیوں نہ فقیہ شہر کی
دستار کے پیچ کھولے جائیں، کیوں نہ عدالت کو مع عملہ سڑکوں پہ گھسیٹا جائے.
کیوں نہ وردیاں اتار لی جائیں۔ کیوں نہ دانشوروں کو الٹا لٹکا دیا جائے۔
بنت حوا جب سربازار لٹے اور بولنے والا کوئی نہ ہو تو اس معاشرے کو بے حس
کیوں نہ کہا جائے۔
|