منظور پشتین اپنے علاقے میں شاید کچھ رفاہی کام کر رہا
تھا اور اُس کا اصل مقصد شہرت اور لیڈری کا حصول تھا لیکن بیل کچھ منڈھے
نہیں چڑھ رہی تھی، کو ئی راہ نکلے پشتین کو پہچان نہیں رہا تھا اور اُس
بیچارے کا اصل مقصد حاصل نہیں ہو رہا تھا۔اسی طرح دو بہنوں گلالئی اسماعیل
اور صبا اسماعیل اپنی تنظیم آویئرگرلز کے ساتھ کام کر رہی تھیں لیکن ان کو
بھی کبھی پہچان اور شہرت کی خوشی نہیں ملی تھی۔ یہی حال ثناء اعجاز کا تھا
جو ٹیلی وژن سے وابستہ ہونے کے باوجود گمنام تھی، محسن داوڑ بھی اسی تگ ودو
میں لگا ہوا تھا اور علی وزیر بھی لیکن کوئی انہیں پہچان نہیں رہا تھا۔یہ
سارے لوگ شاید اپنے اپنے گاؤں سے آگے شناخت نہ رکھتے تھے کہ جنوری 2018 میں
ایک محسود نوجوان نقیب اللہ کا قتل ہو گیا اس کا ذمہ دار راؤ انور ٹھہرا جس
کے ذمے ایسے بے شمار دوسرے واقعات موجود ہیں جن میں پٹھان پنجابی سندھی
بلوچی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔نقیب اللہ ایک خوش پوش و خوش ذوق نوجوان تھا
اور سوشل میڈیا پر اپنی خوش لباسی کی وجہ سے مقبول بھی تھا لہٰذا اس بے
گناہ کے قتل پر پورے ملک میں احتجاج ہوا، راؤ انور کے خلاف غم و غصہ پایا
اور نکالا گیا اور اس احتجاج میں بھی صرف پختون نہیں بلکہ ہر زبان اور ہر
صوبے سے لوگ شامل تھے۔ہر ایک نے اس بے گناہ قتل کی خوب مذمت کی،میڈیا نے
بھی اس کو مکمل اور بھر پور کوریج دی لیکن موقع پرست اور شہرت کے متلاشی
منظور پشتین اور اس کے گروہ نے اس قتل کو لسانیت اور علاقائیت کا رنگ دے کر
اپنی مکروہ سیاست کا آغاز کیا اس قتل میں پاک فوج کا کہیں ذکر نہیں تھا
لیکن اس کی آڑ لے کر پشتونوں کے حقوق کے نام پر پشتونوں کے حقوق سے زیادہ
پاک فوج مخالف تحریک شروع کی گئی اورظاہر ہے کہ کسی فوج کے خلاف نعرہ لگے
اور اس میں دشمن ملوث نہ ہو اور وہ بھی پاک فوج کے خلاف لہٰذا پی ٹی ایم کو
خوب خوب پذیرائی اور امداد دی گئی۔ بین الاقوامی میڈیا تو باقاعدہ میدان
میں اتر آیا اور پشتین کی ٹوپی تک کی تشہیر کی گئی ان کے دھرنوں کو ضرورت
سے زیادہ کوریج دی گئی، اسی طرح وہ افغانستان میں بھی ہاتھوں ہاتھ لیے گئے
اور دیے بھی گئے اور یوں انہیں انسانی حقوق کے علمبردار اور ہیرو بنا کر
پیش کیا گیا۔اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے لڑنا کوئی بُری اور غلط بات نہیں
لیکن دوست دشمن کی پہچان ضروری ہے مگرپی ٹی ایم نے ایسا نہیں کیا کیونکہ
انہیں اس ایجنڈے اور کام کے پیسے نہیں مل رہے تھے لہٰذا انہوں نے اُسی فوج
کے خلاف کام شروع کیاجس نے ان کے علاقوں کو دشمن سے صاف کرنے میں اپنے بے
شمار جوان قربان کیے اور اُس دشمن کی طرف جا کھڑا ہوا جس نے اُن کے علاقے
میں دہشت گردوں کی فیکٹریاں لگا کر ان کی پروڈکشن کی اور پورے ملک کو آگ
میں جھونکے رکھا۔دہشت گردی کی اس آگ نے کسی کی پرواہ نہیں کی وہ لاہورکی
مون مارکیٹ تھی جہاں تقریباََ سو لوگ دہشت گرد کاروائی میں شہید کئے گئے یا
سندھ کے سیہون شریف کے صوفی بزرگ لال شہباز قلندر کی درگاہ کہ یہاں بھی
تقریباََ سو سے زائد افراد ایسے ہی خود کش حملے میں شہید ہوئے اور بلوچستان
تو اکثر اوقات نشانے پر رہتا ہے اور کئی طرح کی دہشت گردیوں کا نشانہ بنتا
رہتا ہے۔یہاں بلوچ قوم پرستوں نے تو ہر ایک خون بہانا جائز سمجھا ہو ا ہے۔
ہزارہ کمیونٹی پر حملے ایک اور دہشت گردی ہے جس نے پورے پاکستان کو کئی بار
ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن پی ٹی ایم والے جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار
سمجھتے ہیں ان واقعات کو بھول جاتے ہیں۔اس بات سے بحیثیت پختون مجھے بھی
انکار نہیں کہ ہم پختونوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب زیادہ نقصان
اٹھا یا ہے، پشاور سے لے کر صوبے کے چھوٹے شہروں تک اس دہشت گردی کی زد میں
رہے ہیں لیکن پی ٹی ایم نے جس طرح ملک دشمنوں کے ساتھ مل کراپنی ہی فوج کے
خلاف کام شروع کیا ہوا ہے وہ ان دہشت گردوں کے خلاف کرتی تو شاید بہت سارے
گمراہ اور دہشت گردوں کے آلہء کار لوگ واپس امن کی طرف آجاتے لیکن ان کا
وطیرہ ایک ہی ہے کہ فوج کو ہر معاملے میں گھسیٹو چاہے اس کی کوئی منطق ہو
نہ ہو اور یوں اصل مجرموں کو بچانے میں معاونت کرو۔ایسا ہی اس بار بھی
ہواجب اسلام آباد میں ایک افسوسناک ترین واقعہ پیش آیااور دس سال کی ایک
بچی فرشتہ کو بدسلوکی کے بعد قتل کر دیا گیا۔پولیس نے حسبِ معمول ایف آئی
آر بَروقت درج نہیں کی بلکہ بچی کے باپ کے مطابق کہا کہ وہ کسی کے ساتھ
بھاگ گئی ہوگی اور جب پانچ دن بعد بچی کی مجروح لاش جھاڑیوں سے ملی اور
معاملہ منظر عام پرآگیا تو میڈیا اور سول سوسائٹی متحرک ہو گئے چونکہ بچی
پختون خاندان سے تعلق رکھتی تھی لہٰذا ایسے میں ایک بار پھر پی ٹی ایم کو
اپنے ایجنڈے پر کام کرنے کا موقع مل گیا۔اس کی بزعم خود رہنما گلالئی
اسماعیل بچی کے والدین کے پاس پہنچی لیکن بجائے ان کے غم میں شریک ہونے کے
اپنے مخصوص ایجنڈے پر ہی کام شروع کر دیااور ادھر ہی نفرت انگیزی پھیلانی
شروع کر دی۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ معصوم فرشتہ کا
بد سلوکی کے بعد قتل ہمارے ملک میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے یہ اندوہناک
اورگھناؤنے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور فرشتہ کیس کے بعد بھی ان
چندہی دنوں میں مزید بھی ہوئے ہیں جن میں گجرانوالہ کی تین سالہ ضمیر فاطمہ
اور سات سالہ آمنہ کی گمشدگی شامل ہیں۔مسئلہ اس وقت قوم کی بیٹیوں کی حفاظت
کا ہے جن کو بڑی بے دردی سے درندگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن آویئر
گرلزکی بانی اس مسئلے کو چھوڑ کر اپنے آقاؤں کے ایجنڈے پر کام کرنے لگ گئی
اور اس موقع پر پاک فوج کو واقعے کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا۔یہ خالصتاََ
پولیس کیس ہے لیکن اس میں فوج کو گھسیٹ لیا گیا اور گلالئی اس خاندان کا
دکھ بھول کر اپنے آقاؤں کو خوش کرنے لگ گئی۔فرشتہ اور اس جیسی دوسری بچیوں
کی حفاظت اور تقدس ایک الگ موضوع ہے جس پر پی ٹی ایم سیاست کر رہی ہے اس
لیے اس تنظیم کے کارکنان کو اس بات کی دہری سزا ملنی چاہیے۔پی ٹی ایم کہنے
کو خود کو پُر امن تنظیم کہتی ہے لیکن نفرت اور تشدد پھیلانے کے لیے جتنی
سرگرم ہے اس کے حساب سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ طالبان کا سیاسی بغل بچہ
ہے اور ابھی جب میں یہ سطریں لکھ رہی ہوں خبر آئی ہے کہ اس کے ایم این اے
محسن داوڑ اور علی وزیر کی سرپرستی میں اس کے مسلح کارکنوں نے پاک فوج کی
کئی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا ہے تو یہی وہ اصل چہرہ ہے جو اس گروہ کا ہے جس
کا سرغنہ منظور پشتین ہے اور جو اپنے آقاؤں کے اشاروں پر ناچ رہا ہے جس کو
بے حساب فنڈ دیا جارہا ہے اور ملک کے اندر ڈھیل بھی لیکن کیا جمہوریت اسی
کا نام ہے کہ جس کا دل جو چاہے کر لے ملک کو جس طرح چاہے نقصان پہنچائے
جتنا فساد چاہے پھیلائے اور اس فساد کے نتیجے میں جتنا نقصان ہو ہوتا رہے
اگر ایسا نہیں ہے تو سوال یہ ہے اورہر ذمہ دار سے ہے چاہے حکومت ہو عدلیہ
ہو یا فوج ہو کہ ان شر پسندوں کو اتنی چھوٹ کیوں دی جارہی ہے کیوں ان پر
درج ایف آئی آروں پر کاروائی نہیں ہوتی اور کیوں ضمانت قبل از گرفتاری دے
دی جاتی ہے کیا اس چھوٹ کی کوئی حد ہے اگر ہے تو کب تک۔کیا اب بہت نہیں ہو
گیا۔
|