مملکتِ پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے کوئی 72 سال کا
عرصہ گزر چکا ہے، قائد نے اس پاک سر زمین کی بنیاد ایمان، اتحاد اور تنظیم
کے اصولوں پر رکھی تھی۔ لیکن آج یہ تینوں موصوف کتابوں کی حد تو کسی نہ کسی
طرح زندہ ہیں، لیکن ہمارا معاشرہ کب کا ان سب کو ایک ہی قبر میں دفنا کر
فاتحہ پڑھ چکا ہے۔ ہو سکتا ہے آنے والے چند سالوں میں اس ڈر سے کہ کہیں
ہماری آنے والی نسلوں کا خون جوش مار کر ان کی سوئی ہوئی غیرت کو بیدار نہ
کر دے ان تمام اصولوں کا تذکرہ تک نصاب کی کتابوں سے بھی نکال دیا جائے۔
کہنے کو تو تبدیلی کا سفر بیس بائیس سال پہلے شروع ہوا، لیکن پچھلے چھ سات
سال میں تبدیلی ایک میزائل کی رفتار سے ترقی کرتی ہوئی مسند اقتدار پر
براجمان ہوئی۔ عوام الناس کو تبدیلی سرکار سے بڑی امید تھی کہ سب چوروں ،
لٹیروں کو آزمانے کے بعد شاید اللہّٰ تبارک وتعالیٰ نے آسمان سے کچھ فرشتے
نازل کر دیئے ہیں جو اس استحصال یافتہ قوم کے دکھوں کا مداوا کریں گے اور
ان کے زخموں پر مرہم رکھیں گے لیکن بے چارے عوام یہ نہیں جانتے تھے کہ
ایاك نعبد واياك نستعين سے شروع ہو نے والا یہ سفر پہلے ایک سال کے قلیل
عرصے میں ہی، انا الله مع الصابرين کی منازل طے کرتا ہوا انا لله وانا اليه
راجعون کی طرف گامزن ہو جائے گا۔
اس تبدیلی کی کرلاہٹ صرف نچلے طبقے تک محدود نہیں ہے، یہ سونامی ہمارے
معاشرے سے مڈل کلاس نام کے طبقے کو اپنی رو میں بہالے جانےکے درپے ہے۔ ہر
مڈل کلاس آدمی کی طرح ہم نے یہ سوچا تھا کہ خان صاحب نے بائیس سال جدوجہد
کی ہے،یقیناً عوامی مسائل کے حل کے لئے کوئی منصوبہ بندی بھی کی ہوگی مگر
افسوس خان صاحب کے سارے منصوبے تو موصوف اسد عمر کے ساتھ ہی قصہِ پارینہ بن
گئے اب سوائے اپوزیشن کی چوری کا منجن بیچنے کے اور کوئی منصوبہ نظر ہی
نہیں آرہا۔ مگر افسوس پچھلے چھ سال سے عوام نے یہ منجن اتنا کھایا ہے کہ اب
ان کا ہاضمہ اس کو مزید برداشت کرنے سے قاصر ہے، ہر طرف سے کرلاہٹیں بلند
ہو رہی ہیں۔
یہاں ایک معصومانہ سوال کرنے کی جسارت چاہوں گا، اس تباھی و بربادی کا ذمہ
دار کون ھے آپ کہیں گے گزشتہ ادوار بالکل بجا فرمایا۔
کاش یہی جواب 1947 میں قائد اعظم نے بھی دیا ہوتا اور آج تک ہم یہی رونا
روتے رہتے کہ انگریز پورا ملک تباہ کر كے گیا ھے۔ قائد نے اس کے برعکس اس
قوم کو ایک نظریہ دیا ، ایک منصوبہ دیا ، بنیادی اصول دیئے اور تبدیلی
سرکار نے بد تہزیبی، بے حیائی، بے راہ روی اور اخلاق سے عاری معاشرہ قائد
کی تبدیلی ایمان سے شروع ہوئی اور تنظیم پر ختم جبکہ تبدیلی سرکار کی لوٹوں
سے شروع ھوئی، ھالینڈ کی سائیکل سے ھوتی ھوئی انڈوں، مرغی، کَٹُّوں اور IMF
کی خودکشی تک پہنچ چکی ھے۔ ابھی اس تبدیلی کی سرکس کا سفر مزید جاری ھے.
نیازی صاحب تو شاید سائیکل پر کبھی دفتر نہ جائیں ، اور نہ ہی میاں صاحبان
، زرداری اور جہانگیر ترین لیکن آنے والے چند سالوں میں اگر اس تبدیلی کا
سفر ایسے ہی جاری وساری رہا تو آپ مجھ جیسے سفید پوش سڑکوں پر سائیکل چلاتے
ضرور نظر آئیں گے۔
تمام دوستوں کو تبدیلی مبارک، پلیز ابھی سے سائیکل خرید لیں کہیں ایسا نہ
ہو ڈالر کی طرح سائیکل بھی پہنچ سے باہر ہو جائے۔ اور جگہ جگہ۔بورڈ آویزاں
ہو جائیں عام آدمی کا سائیکل چلانا مضر جیب ہے، اسے عوام الناس سے دور
رکھیں زیادہ چُل ہونے کی صورت میں تبدیلی سرکار سے رابطہ کریں۔
وزارتِ معاشیات تبدیلی سرکار |