بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے افسوسناک واقعات ……!

 انتہائی شرمندگی کا مقام ہے کہ ماہ رمضان میں بھی قوم کے بچے بچیاں محفوظ نہیں، گزشتہ دنوں اسلام آباد کے علاقے شہزاد ٹاؤن میں ایک اور بچی کو درندگی کا نشانہ بناتے ہوئے زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ دس سالہ معصوم بچی فرشتہ کا تعلق خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع مہمند سے بتایا جاتا ہے جو اپنے والدین کے ساتھ اسلام آباد کے علاقے شہزاد ٹاؤن میں مقیم تھی۔ لواحقین کے مطابق بچی پندرہ مئی کو لاپتہ ہوئی لیکن پولیس نے بچی کو مرضی سے فرار ہونے کا الزام لگا کر روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رپورٹ درج نہ کی، اور گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرنے میں4 دن لگادیے ۔ بعد ازاں دس سالہ بچی فرشتہ کی لاش اسلام آباد کے جنگل سے ملی جسے مبینہ زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا ، لاش کی حالت انتہائی خراب تھی جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ بچی کس کرب کی صورت حال سے گزری ہوگی۔ اس پر مقتول بچی کے لواحقین نے لاش ترامڑی چوک پر رکھ کر احتجاج کیا اور الزام عائد کیا کہ بچی سے زیادتی اور قتل کی ذمہ دار پولیس ہے ۔ اسلام آباد کے علاقے شہزاد ٹاؤن میں دس سالہ ننھی فرشتہ سے زیادتی کے بعد قتل کے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے ڈی ایس پی شہزاد ٹاؤن سرکل محمد عابد کو معطل اور ایس پی رورل زون عمر خان کو او ایس ڈی بنا دیا ہے۔ لیکن مزید کیا ہوگا کسی سے پوشیدہ نہیں، انکوائری کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی، شفاف تفتیش اپنی نگرانی میں مکمل کروا کر رپورٹ بھیجوانے کا حکم جاری کیا جائے گا اور کچھ دنو ں بعد سب بھول بھولیوں میں کھو جائے گا۔ گزشتہ سال جنوری میں اسی طرح کے ایک واقعہ میں جب قصور کی چھ سالہ زینب کو اغوا کیا گیا اور اسی طرح جنسی زیادتی کے بعد اسکی لاش ملی تو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اس واقعہ کو بہت کوریج دی گئی جس سے ایک طرف تو زینب کے قاتل کو گرفتار کر کے پھانسی دی گئی تو دوسری طرف لوگوں میں بچوں سے جنسی زیادتی جیسے واقعات کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے میں مدد ملی۔ اس سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کی اب اس طرح کے واقعات میں کمی واقع ہو گی مگر حقائق اس کے بر عکس ہیں۔ کوئی ایسا نظام یا پولیس کی اصلاح نہیں کی گئی جس سے آئندہ کیلئے بہتری کی امید کی جاسکے اور ایسے واقعات سے بچا جاسکے۔
 
پاکستان بھر میں بچوں کیساتھ جنسی زیادتی، قتل اور استحصال کے بڑھتے واقعات ایک حقیقی خطرہ بن چکے ہیں۔ چند ماہ قبل وفاقی محتسب سید طاہر شہباز نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سال 2008 ء کے مقابلے میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں 2018ء میں سولہ عشاریہ دو فیصد اضافہ ہواہے۔ 2017ء کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی کے 4139 واقعات رپورٹ ہوئے۔ زیادہ تر واقعات پنجاب میں ایک ہزار 89 رپورٹ ہوئے۔ گزشتہ دس برس کے دوران قصور میں بچوں سے زیادتی کے 272 واقعات پیش آئے،ان واقعات میں با اثر لوگ ملوث ہیں اور یہ واقعات بڑھ رہے ہیں۔ وفاقی محتسب نے بتایا کہ گزشتہ سال بچوں سے جنسی زیادتی کے اڑھائی سو سے زائد واقعات وفاقی محتسب کو رجسٹرڈ ہوئے ، ان واقعات کو روکنے کیلئے آگاہی مہم کیساتھ دیگر اضلاع میں سنٹرز قائم کئے جائینگے‘‘۔ بلاشبہ معاشرتی خرابیوں کے خلاف قانون بنانے کا مقصد معاشرے کو جرائم سے پاک کرنا ہوتا ہے اگر پھر بھی حالات جوں کے توں رہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون میں کوئی پہلو ایسا رہ گیا ہے کہ جس سے جرائم کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے، مغربی ممالک میں تو انٹرنیٹ پر چائلڈ پورنوگرافی کو جنسی زیادتی کا بڑا سبب قرار دیا جاتا ہے،جبکہ پاکستان کے ماہرین نفسیات و سماجیات کو بھی اس کے اسباب پر تحقیق اور سدباب کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنی چاہیے۔ جبکہ لوگوں کے رویوں کو تشکیل دینے اور ان پر اثر انداز ہونے میں میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا آگاہی بھی پیدا کرتا ہے اور ارباب اختیار کو ان واقعات کی روک تھام کے لیے عملی قدم اٹھانے پر بھی مجبور کرتا ہے، ان مسائل کو پبلک ایجنڈا میں شامل کرانے میں میڈیا ہی کی طاقت پوشیدہ ہے۔ملکی میڈیا میں بھی اس مسئلے پر آگاہی کے لیے بھرپور مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ بچوں کو جنسی استحصال کا آسان نشانہ بننے سے بچانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ، ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن کو نصاب میں شامل کرنا، بچوں کو خطرات سے نبٹنے کے لئے تکنیکی سہولتیں فراہم کرنا بھی انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔ بچے ہمارے معاشرے کا مستقبل اور روشن کل ہیں ہر قیمت پر ان کی حفاظت کرنا تمام مکاتب فکر کی اولین زمہ داری ہے،کیونکہ کوئی بھی معاشرہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے گھناؤنے واقعات کو برداشت نہیں کر سکتا۔آج معصوم بچی فرشتہ کی روح ہم سے پوچھ رہی ہے کہ اس ریاست کا مستقبل کیا ہے جو اپنے معصوم بچوں کو بھی تحفظ نہیں دے سکتی؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ننی فرشتہ کے قاتلوں کو، اغوا کرنے والوں کو ، اور اس کی عصمت کو تار تار کرنے والوں کو سرعام ایسی عبرتناک سزا دی جائے کہ کل کوئی اور درندہ اور وحشی اس طرح کا قدم اٹھانے کی جرات نہ کرسکے ۔

Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 995 Articles with 719160 views Journalist and Columnist.. View More