قائد اعظم نے نئی مملکت پاکستان کا گورنر جنرل بنتے ہی
حکم جاری کیا کہ قبائلی علاقوں سے فوج نکال دی جائے۔ پاکستان کے پہلے آرمی
کمانڈر انچیف جنرل سر فرینک میسوروی نے قائد اعظم سے کہا کہ ہمیں ( انگریز
فوج کو) قبائلی علاقوں میں قبضہ کرنے اور اپنی قلعہ بندیاں قائم کرنے میں
دو سو سال لگے ہیں،وہاں سے فوج نکال لی تو صورتحال خراب ہو سکتی ہے۔ اس پر
قائد اعظم نے کہا کہ قبائلی علاقوں سے فوج نکلنے سے ہی قبائلیوں کو معلوم
ہو گا کہ پاکستان بن گیا ہے اور اب وہ آزاد ملک پاکستان کے شہری
ہیں۔پاکستان کے صوبہ سرحد ( کے پی کے) بالخصوص قبائلی علاقہ جات کے قبائل
کو پاکستان کا بازوئے شمشیر زن کہا جاتا تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر
قبائلی اسلحے سے لیس ،مسلح لڑائی کی مہارت سے آراستہ اور دلیری کے نمایاں
مقام کے حامل رہے ہیں۔
قبائلیوں کی مہمان داری کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ کوئی آدمی اپنے کسی دوست
کی دعوت پر کسی قبائلی علاقے میں گیا۔ایک جگہ اس نے چند قبائلیوں کو بیٹھے
دیکھ کر ان سے اپنے دوست کے گھر کے گائوں کے بارے میں پتہ کیا۔ ایک قبائلی
نے اس مہمان سے دریافت کیا کہ اس گائوںمیں کس کے پاس جانا ہے؟ مہمان نے
اپنے دوست کا نام بتایا تو انہوں نے اسے پکڑ لیا اور کہا تجھے ہم مار دیں
گے۔قبائلی علاقے میں پہلی بار آیا وہ مہمان پریشان ہو گیا اور کہا جناب میں
آپ کو جانتا بھی نہیں، آپ کیوں مجھے ماریں گے۔اس پر ان قبائلیوں نے جواب
دیا کہ تمہارے دوست نے ہمارے ایک مہمان کو مار دیا تھا، اس کے بدلے میں ہم
بھی اس کا مہمان ماریں گے۔ اس آدمی کو موت اپنے سر پہ نظر آنے لگی۔ اس نے
رونا شروع کر دیا اور فریا د کرنے لگا،خدا کے لئے مجھے نہ مارو، میں تو
پردیسی ہوں۔ لیکن قبائلیوںکو کوئی ترس نہ آیا اور وہ اسے مارنے کی تیاری
کرنے لگے۔
روتے روتے اس مہمان کے منہ سے نکل گیا کہ میں نے تو ابھی کھانا بھی نہیں
کھایا۔ یہ سننا تھا کہ وہ قبائلی فورا رک گئے اور پوچھا واقعی تم نے ابھی
کھانا نہیں کھایا؟ مہمان نے کہا لمبا سفر کر کے آیا ہوں ،گھنٹوں سے بھوکا
ہوں۔ اس پر قبائلی اسے اپنے ڈیرے پر لے گئے اور اسے شاندار کھانا
کھلایا۔کھانا کھا کر اس شخص نے سوچا کہ شکر ہے جان بچ گئی۔کھانے کے بعد
قہوے کا دور چلا۔اس کے بعد قبائلیوں نے اس سے پوچھا کہ تم نے اچھی طرح
کھانا کھا لیا ہے؟ اس شخص نے شکر گزاری کے انداز میں کہا کہ جی ہاں پیٹ بھر
کر کھایا ہے۔ اس پر قبائلی نے اسے کہا کہ اب اٹھو، اب گولی مار کر تم کو
مارے گا۔وہ مہمان حیران و پریشان ہو گیا کہ خان صاحب کو اب کیا ہو گیا۔ اس
شخص نے کہا خان صاحب، آپ نے بھوکا ہو نے پر مجھے اچھا کھانا کھلایا اور اب
مجھے گولی ماریں گے؟ اس قبائلی نے جواب دیا کہ ہمارے دشمن نے بھی ہمارے
مہمان کو اچھا کھانا کھلانے کے بعد مارا تھا،اس لئے بھی ہم اس کے مہمان کو
بھی اچھا کھانا کھلا کر مارے گا۔
قبائلی دو ٹوک بات کرنے کے عادی ہوتے ہیں،ان میں تکلف نہیں ہوتا ۔کشمیری
بہت رکھ رکھائوں اور تکلف کے قائل ہوتے ہیں۔بھوکے بھی ہوں گے تو کبھی اقرار
نہیں کریں گے کہ وہ بھوکے ہیں۔ ان کو بار بار اصرار کر کے زبر دستی
کھاناکھلانا پڑتا ہے۔ ایک کشمیری کسی قبائلی علاقے میں اپنے ایک دوست سے
ملنے گیا۔دوست نے اس سے پوچھا ' یارا ، گوشت کھائے گا کہ کڑم( ساگ کی ایک
قسم) کھائے گا؟ کشمیری نے تکلف سے جواب دیا کہ جو سبزی وغیرہ ہو گی کھا لوں
گا۔ اس کشمیری نے سنایا کہ کھانا آنے پر اس نے دیکھا کہ واقعی صرف کڑم ہی
پکا ہوا تھا۔ اگلے دن ا س نے اپنے قبائلی دوست سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ
یار تم نے مجھے سبزی ہی کھلائی ہے ،کوئی گوشت وغیرہ نہیں کھلایا۔ اس پر وہ
قبائلی دوست حیران ہوا ،اور بولا تم نے خود کہا تھا کہ میں کڑم کھائوں گا۔
اس کے بعد جب تک وہ کشمیری وہاں رہا ، اسے گوشت کے مزے مزے کے پکوان کھانے
میں ملتے رہے۔
قیام پاکستان کے وقت قبائلی علاقوں میں ہر قسم کا اسلحہ بنانے کی دیسی
فیکٹریاں بھی تھیں۔ قیام پاکستان سے پہلے صوبہ سرحد کے مسلم لیگی رہنمائوں
( جو پہلی اسمبلی میں رکن اسمبلی بھی بنے) نے قبائلی علاقوں کی فیکٹریوں کے
مالکان سے وعدہ کیا تھا کہ ان کو بہتر اسلحہ بنانے کی سہولیات فراہم کی
جائیں گی اور حکومت ان سے اسلحے بھی خریدے گی۔لیکن قومی اسمبلی میں ان
ارکان کے مطالبے کے باوجود ایسا نہ ہو سکا۔
قیام پاکستان سے پہلے سرحدی گاندھی عبدالغفار خان المعروف باچا خان نے
انڈین کانگریس کے رہنما جواہر لعل نہرو سے قبائلی سرداروں کی ایک ملاقات کا
درہ خیبر کے قبائلی علاقے میں انتظام کیا۔ ایک قبائلی سردار ولی خان کوکی
خیل نہرو سے ہاتھ ملانے آیا تو اس نے فورا خنجر نکال کر نہرو کے گلے پر رکھ
دیا اور کہا کہ مجھے لکھ کر دو کہ میں قائد اعظم کو مسلمانوں کا لیڈر مانتا
ہوں۔سب ہکا بکا، پریشان ہو گئے ۔نہرو نے فورا کاغذ پر لکھ دیا۔ولی خان کوکی
خیل نے کہا اس پر اپنا انگوٹھا لگائو، نہرو نے کاغذ پر اپنے دستخط کر
دیئے۔ولی خان کوکی خیل نے کہا انگوٹھا لگائو انگوٹھا،نہرو نے کاغذ پر اپنے
انگوٹھے کا نشان بھی ثبت کر دیا۔
پاکستان بننے کے دو ماہ بعد پاکستان کی طرف سے قبائلیوں کو ریاست کشمیر
بھیجا گیا۔مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے قبائلی گروپوں سے کہا گیا کہ
وہاں کافر کی حکومت ہے اور وہ مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں، ان کو مارو اور
مال غنیمت تمہارا۔قبائلی لشکر ضلع ہزارہ کے بالاکوٹ علاقے سے ہوتے ہوئے
براستہ برار کوٹ مظفر آباد داخل ہوئے اور پیش قدمی کرتے ہوئے بارہمولہ تک
پہنچ گئے۔قبائلی کشمیر میں مسلمان یا ہندو ہونے کی بابت یوں پوچھتے تھے ''
کلمہ پڑھ یا گولی کھا''، یعنی مسلمان ہے تو کلمہ پڑھ ورنہ تیرے لئے گولی
ہے۔اب یہ جملہ ایک ضرب المثال بن گیا ہے کہ '' کلمہ پڑھ یا گولی کھا''۔
بارہمولہ میں دو قیمتی دن ضائع کرنے کے بعد سرینگر کی جانب پیش قدی کی تو
انڈین فوج ہوائی جہازوں کے ذریعے سرینگر پہنچ چکی تھی۔ سرینگر کے نواحی
علاقے( جو اب سرینگر کے اندر ہی واقع ہے) شالہ ٹینک کے مقام پر متعدد
جھڑپوں میں کثیر تعداد میںجانی نقصان اٹھانے کے بعد قبائلی پسپا ہو
گئے۔قبائلی لشکر کے کمانڈر اعلی جنرل اکبر خان اپنی کتا ب'' کشمیر کے حملہ
آور'' میں لکھتے ہیں کہ شالہ ٹینگ میں انڈین فوج نے مشین گن لگا کر مضبوط
مورچے قائم کر لئے تھے۔اس کے سامنے قبائلیوں کی یلغار بھی ناکام رہی۔اوپر
سے انڈین آرمی کے ہوائی حملے بھی جاری تھے۔اس صورتحال میںوہ ہنگامی طور
پرراولپنڈی آئے اور متعلقہ فوجی افسر سے دو بکتر بند گاڑیاں طلب کیں۔ اس نے
کہا کہ لے جائو۔ لیکن جنرل اکبر خان نے کہا کہ ضابطے کی کاروائی مکمل کر نا
ضروری ہے۔ ضابطے کی کاروائی میں بکتر بند گاڑیاں کشمیر لے جانے کی اجازت نہ
مل سکی۔
میں نے کشمیر ،جنگ کشمیر ، کرنل حسن خان ،میجر بابر اور ان کے ساتھیوں کے
ذریعے گلگت بلتستان میں آزادی کی لڑائیوں کے بارے میں ان گنت کتابوں میں جو
بھی پڑھا ہے، اور مختلف شخصیات ،بزرگوں سے سے اس بارے میں جو معلومات ملی
ہیں، اس سے سمل (smell) ہوتا ہے کہ جنگ کشمیر و گلگت بلتستان کا مصنف،ہدایت
کار ،منصوبہ ساز بر طانیہ تھا، جس نے پس پردہ رہتے ہوئے نوزائدہ
ملکوں(پاکستان،ہندوستان) کے دو فریقوں کے درمیان یہ جنگ لڑوائی۔اس کا مقصد
گلگت بلتستان اور کشمیر کے پہاڑی علاقے پاکستان اور لداخ،وادی کشمیر،جموں
ہندوستان کو دینا تھا۔میجر امیر افضل نے بھی اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے
کہ جب برٹش حکومت کی منصوبے کے مطابق ،ان کی مطلوب جگہوں پر ہندوستان اور
پاکستان کی فوجیں مضبوطی سے جم گئیں تو اس نے جنگ بندی کراتے ہوئے ریاست
جموں و کشمیر و گلگت بلتستان کو کو پاکستان اور ہندوستان کے قبضے میں تقسیم
کرا دیا۔جنگ کشمیر اور تقسیم کشمیر میں برطانوی حکومت کا پس پردہ کردار
،علمی تحقیق کرنے والوں کے لئے ایک اہم موضوع ہو سکتا ہے۔
افغانستان میں روسی فوج کی آمد ہوئی تو اس سے تقریبا دوسال پہلے ہی جنرل
ضیاء الحق کی سربراہی میں فوج نے ملک میں مارشل لاء لگا کر ملک کے اقتدا ر
پر قبضہ کر لیا تھا۔جنرل ضیاء حکومت نے روسی فوج کے خلاف مزاحمت کرنے والے
افغان گروپوں کی ہر طرح سے بھر پور مد د کی۔افغانستان سے ملنے والے پاکستان
کے قبائلی علاقے افغان مجاہدین کے بیس کیمپ بن گئے۔امریکہ کی سربراہی میں
یورپ،عرب ممالک نے روسی فوج کے خلاف برسرپیکار افغان مجاہدین کی ہر طرح سے
بھر پور مدد کی۔افغان جہاد کے بارے میں پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ
بریگیڈئر یوسف اپنی کتاب ''دی بیئر ٹریپ '' میں لکھتے ہیں کہ وہ امریکہ کے
ایک اعلی سرکاری افسر کو لے کر راولپنڈی سے صوبہ سرحد کی طرف جا رہے تھے۔
راستے میں پاکستانی فوجی افسر اس امریکی افسر کو گزرتے ہوئے ان سویلین
ٹرکوں کی نشاندہی کرتا جاتا تھا،جوافغان مجاہدین کے لئے امریکہ کی طرف سے
فراہم کردہ اسلحہ لے کر جا رہے تھے ۔امریکی افسر حیران ہوا کہ ایک جیسے ٹرک
ہیں،وہ کیسے ان کو پہچان لیتے ہیں۔اس پر پاکستانی فوجی افسر نے مسکرا کر
کہا کہ ہم یوڑ میں سے ایک بھیڑ کی طرح اپنے ٹرکوں کو پہچان لیتے ہیں۔
قبائلی علاقوں سے افغان مجاہدین کے لئے ہر قسم کی رسد کا کام وسیع پیمانے
پر جاری رہا۔قبائلی علاقوں اور ملحقہ افغانستان کے علاقوں میں مجاہدین کے
ٹریننگ کیمپ قائم گئے گئے جہاں امریکی ترغیب اور سہولت کاری سے مسلم ملکوں
سے لوگ افغانستان میںجہاد کرنے آنے لگے۔قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج اور
انٹیلی جنس ایجنسیاں امریکی آشیر باد میں بھر پور طور پر جہاد افغانستان کے
بیس کیمپ میں مصروف عمل رہیں۔تقریبا نو سال کے بعد روسی فوج افغانستان سے
نکلی تو قبائلی علاقوںمیں یہ سرگرمیاںکم ہونے لگیں۔تاہم افغان جہاد کی
بدولت افغان مجاہدین ہی نہیں ،عربوں ،پاکستانیوں اور کئی دوسرے ملکوں کے
مسلمانوں کے بھی عسکری گروپ بھی سامنے آگئے۔انہی میں القاعدہ بھی
تھی،طالبان ،حقانی نیٹ ورک بھی تھا اور بعد ازاں تحریک طالبان پاکستان بھی
وجود میں آگئی۔
نائن الیون کے بعد القاعدہ، حقانی نیٹ ورک کے خلاف امریکی کاروائیاں شروع
ہو گئیں اور دریں اثناء تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان کے خلاف مسلح حملے
شروع کر دیئے۔سالہا سال پہلے ایک عزیز فوجی افسر سے قبائلی علاقوں میں
موجود باغی مسلح گروپوں کے بارے میں بات ہوئی تو وہ عزیز کہنے لگا کہ '' آپ
یوں سمجھیں کہ وہ پہلے ہمارے ملازم تھے، ہم نے انہیں نکال دیا تو وہ دشمن
کے ملازم بن گئے''۔جب ان باغی گروپوں کی سرگرمیاں تیز ہوئیں تو پہلے سوات
اور پھر قبائلی علاقوں میں ان گروپوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہوئے۔اب تک
غالب ترین علاقوں سے ایسے گروپوں کا صفایہ کیا جا چکا ہے تاہم افغانستان
میں موجود ایسے گروپ وہاں سے پاکستانی فورسز کے خلاف اور پاکستانی شہروں
میں بم دھماکوں وغیرہ کی کاروائیاں اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
فوجی آپرشنز کے سلسلے میںلاکھوں کی تعدا د میں قبائلی عوام کو اپنے علاقوں
سے چند سالوں کے لئے اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی۔آپریشن کی تکمیل
پر قبائلی واپس تو آگئے لیکن ان انہیں مختلف نوعیت کے کئی سنگین مسائل کا
سامنا ہے۔قبائلی علاقوں کو قانون سازی کے ذریعے صوبہ کے پی کے میں شامل تو
کر لیا گیا لیکن وہاں فوجی کاروائیوں اور بحالی کی کاروائیوںکے علاوہ دیگر
امور بھی فوج کے پاس ہی ہیں۔اس سے ایک بڑا سیاسی خلاء پیدا ہوا۔ اس صورتحال
میں مقامی مسائل و امور کے حوالے سے مقامی قبائل میں سیاسی بیداری پیدا
ہوئی اور انہوں نے اپنے مطالبات کے حق میں پرامن احتجاج کا راستہ اختیار
کیا۔
26مئی کو وزیرستان میںفوج اور قبائلی مظاہرین کے درمیان فائرنگ کا افسوسناک
واقعہ پیش آیا۔مختصرا یہ کہ قبائلی ہمارے جسم کا حصہ ہیں،وہ قیام پاکستان
سے اب تک اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر پاکستان کے لئے بھر پور کردار ادا کرتے
آئے ہیں۔ان کے مسائل فوری اور ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا از حد ضروری ہے۔
قبائلی عوام پاکستان کے بازوئے شمشیر زن ہیں۔سب کا مفاد اسی میں ہے کہ
قبائلی علاقوں میں با اختیار سول انتظامیہ کے دائرہ اختیار کو قائم اور
مضبوط بنایا جائے۔ان کو عسکری قوت کے بجائے سیاسی طور پر ڈیل کیا
جائے۔حکومت، سول انتظامیہ جنگی صورتحال سے متاثرہ ان علاقوں کے بہادر
پاکستانی قبائلی عوام کی تشویش دور کرنے کو یقینی بنائے اور قبائلی عوام کی
تعاون سے دہشت گردوں کے خلاف حکمت عملی اختیار کی جائے۔پاکستان کے ہر صوبے
،ہر علاقے کے عوام قبائلی عوام کی مشکلات و مسائل اور موجودہ سنگین صورتحال
پر پریشان ہیں اور اپنی تشویش بھی ظاہر کر رہے ہیں۔قبائلی نہ تو پاکستان کے
دشمن ہیں اور نہ ہی ایسا سمجھنا چاہئے۔کیا کوئی اپنے جسم کے صحت مند حصے کو
خود سے کاٹ سکتا ہے؟ |