عید کے قریب درندہ صفت بدبخت افراد کی وحشت

ہر سال رمضان کا بابرکت مہینہ آتا ہے اور ہر طرف مومنوں کی بہار ہو جاتی ہے۔ مسجدوں میں جگہ نہیں ملتی۔ہر کوئی روزے کی حالت میں ملتا ہے۔گزشتہ چند سال سے مارکیٹوں،راستوں پہ دستر خوان بچھا کربڑی تعداد میں غریب غرباء کو روزہ افطار کرایا جاتا ہے۔ ہر کوئی اس مہینے میں اس دوڑ میں رہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ثواب کماتے ہوئے اللہ کی زیادہ سے زیادہ رحمت اور کرم نوازی حاصل کی جائے۔اللہ کے نیک بندے اللہ اور اس کے پیارے نبی کا نام آتے ہی رونے لگتے ہیں،جھومنے لگتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ رحمتیں اور برکات سمیٹنے کے لئے دین کے اس راستے پہ چلتے ہیں جو مولوی صاحب اور علماء حضرات عموما بیان کرتے رہتے ہیں۔جوں جوں رمضان کے آخری دن قریب آتے جاتے ہیں، نیک مسلمانوں کے جذبہ ایمان میں اور بھی تیزی آنے لگتی ہے

ہمارے ملک میں رمضان المبارک کے آخری دنوں بعض افراد ایک غیر اسلامی،غیر شرعی رواج پر عملدرآمد شروع کر دیتے ہیں۔یہ رواج اللہ کے گناہ گار، نافرمان بندوں کا شروع کر دہ ہے جو اللہ کی نعمتوں کے منکر ہوتے ہیں اور اللہ کی رحمت کے باغی ہوتے ہیں۔یہ ایسے افراد ہوتے ہیں جو عین عید الفطر سے پہلے یا تو اپنے بیوی بچوں کو مار کر خود کشی کر لیتے ہیں یا بیوی بچوں کو چھوڑ کر خود ہی موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔

ان کی اس اجتماعی یا انفرادی ہلاکت پر میڈیا میں چھوٹی سے خبر شائع ہوتی ہے کہ معاشی پریشانیوں سے تنگ آ کر فلاں جگہ ایک سنگدل آدمی نے بیوی ،بچوں کو قتل کر کے خود کشی کر لی۔بعض اوقات میڈیا سے مزید معلومات بھی مل جاتی ہے ۔جس کے مطابق عید کے لئے نئے کپڑوں کی معمولی فرمائش کے اصرار یا بیوی کے مالیاتی تقاضوں پر درندہ صفت آدمی طیش میں آکر معصوم بچوں کو قتل کر دیتا ہے اور خو د بھی اپنے انجام بد کو پہنچ جاتا ہے۔

عید ا لفطر آنے والی ہے۔یہ عید قربانی کی نہیں ہوتی لیکن بدبخت افراد اس عید سے پہلے ہی اپنے بیوی بچوں کی قربانی کر کے خود بھی جہنم واصل ہو جاتے ہیں۔اگر یہ بد نصیب افراد مسجد میںمولوی صاحب کی بات سنتے،علماء کی باتوں پر دھیان دیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن یہ ایسے سنگدل بدبخت ہوتے ہیں کہ اپنے بچوں کے چہروں پر نئے کپڑوں کی آس اور امید کی چمک بھی نہیں دیکھ سکتے اور اتنی سے معمولی بات پر وحشی درندے بنتے ہوئے ا پنے ہی بچوں کو قتل کر دیتے ہیں۔

ہر روز انسان مرتے ہیں۔ کس کو فرصت ہے کہ وہ ان کے مرنے کی وجہ جاننے میں اپنا وقت ضائع کرے۔ مرنے والے نے مرنا ہوتا ہے، اس کی موت آئی ہوتی ہے ،اس لئے وہ مر جاتا ہے۔عید الفطر سے عین دو تین دن پہلے اپنے بچوں ،بیوی کو قتل کر کے خود کشی کرنے والوں کی خبروں پر دھیان نہ دیجئے گا، اپنی عید کی خوشیاں خراب نہ کیجئے گا۔ بد بخت لوگ زندہ بھی بد بختی میں رہتے ہیں اور مرتے ہوئے بھی دوسروں کی خوشیوں کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 612091 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More