انڈونیشیا میں کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں تقریباً تمام
مائیں کام کے سلسلے میں گھر سے دور دوسرے ملکوں میں کام کر رہی ہیں اور
انڈونیشیا میں ان علاقوں کو 'بغیر ماں کے گاؤں' کہا جاتا ہے۔ بی بی سی کی
نامہ نگار ربیکا ہینسیک نے اس گاوں میں بغیر ماں کے رہنے والے ان بچوں سے
ملاقات کی۔
|
|
ایلی سوسی اوتی کی ماں جب انہیں ان کی دادی کے پاس چھوڑ کر گئیں تو وہ صرف
گیارہ سال کی تھیں۔ ایلی کے والدین میں علیحدگی ہو چکی ہے اور ان کی ماں
مارثیا کو سعودی عرب میں گھریلو ملازمہ کا کام کرنے جانا پڑا۔ جب میں ایلی
سے پہلی بار ملی تو ان کا سکول کا آخری سال تھا۔ ایلی نے بتایا تھا کہ ماں
کے جانے کے بعد انکی زندگی قابلِ رحم تھی۔ انہیں اپنے والدین کی علیحدگی کا
بھی دکھ تھا۔
ایلی کا کہنا تھا کہ 'جب میں اپنے دوستوں کو ان کے والدین کے ساتھ دیکھتی
تھی تو مجھے بہت تکلیف ہوتی تھی میں چاہتی تھی میری ماں واپس آ جائے۔‘
|
|
ایلی کے گاؤں میں یہ خیال عام تھا کہ اپنے بچوں کو بہتر زندگی دینے کے لیے
جوان ماؤں کا ملک سے باہر جا کر کام کرنا ضروری ہے۔ یہاں زیادہ تر مرد یا
تو کاشتکار ہیں یا مزدور ہیں اوران کی آمدنی بہت کم ہے جبکہ عورتیں ملک سے
باہر جا کر گھریلو ملازمہ یا آیا کے طور پر کام میں ان سے کہیں زیادہ کما
لیتی ہیں۔
جب مائیں اپنے بچوں کو چھوڑ کر کام کرنے باہر جاتی ہیں تو مرد بچوں کی دیکھ
بھال کرتے ہیں اور ارد گرد کے لوگ بھی ایک دوسرے کے بچوں کا خیال رکھتے
ہیں۔
|
|
لیکن کسی بھی بچے کے لیے اپنی ماں سے علیحدہ رہنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔
کریماتل ادیبیہ کی ماں جب انھیں چھوڑ کر گئیں تو وہ محض ایک سال کی تھیں۔
کریماتل کو تو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ کبھی اپنی ماں کے ساتھ رہی بھی تھیں۔
کریماتل نے اس وقت پہلی بار اپنی ماں سے ملاقات کی جب وہ پرائمری سکول ختم
کر چکی تھیں اور ان کی ماں ان سے ملنے آئی تھیں۔
کریماتل اپنی آنٹی کو ہی ماں سمجھتی تھی جس نے ان کی دیکھ بھال کی تھی۔
'مجھے یاد ہے کہ میری ماں رو رہی تھی اور میری آنٹی سے کہہ رہی تھی کہ اسے
کیوں نہیں معلوم کہ وہ میری بیٹی ہے۔‘
کریماتل کی آنٹی کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اس کی کوئی تصویر نہیں تھی۔
کریماتل کو صرف اپنی ماں کا نام اور پتہ معلوم تھا۔
|
|
کریماتل کا کہنا تھا میں اپنی ماں کو یاد کرتی تھی لیکن ساتھ ہی مجھے غصہ
بھی آتا تھا کہ وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئی تھی لیکن کریماتل کہتی ہیں کہ اس
وقت میں چھوٹی تھی۔
کریماتل اب تیرہ سال کی ہیں اور ہر رات اپنی ماں کو ویڈیو کال کرتی ہیں اور
دونوں ایک دوسرے کو میسج بھی کرتی ہیں لیکن ابھی بھی یہ ایک مشکل رشتہ ہے۔
'اب بھی جب میری ماں چھٹیوں پر آتی ہے تو میں اپنی آنٹی کے ساتھ ہی رہنا
چاہتی ہوں۔ وہ مجھ سے کہتی ہیں کہ میرے پاس آ کر رہو لیکن میں کہتی ہوں بعد
میں آؤں گی'۔
کریماتل کی آنٹی بیگ نورجنا نے دیگر نو بچوں کی پرورش کی ہے جن میں سے صرف
ایک ان کا بچہ ہے۔ نورجنا پچاس کے پیٹے میں ہیں اور انہوں نے اپنے ان تمام
بھائی بہنوں کے بچوں کی دیکھ بھال کی ہے جو کام کے لیے ملک سے باہر ہیں۔
|