پاکستان کرکٹ ٹیم کا مایوس کن آغاز پوری قوم کے لیے دکھ
کا باعث بنا ھے۔کرکٹ سے لوگوں کی محبت زیادہ ھے اور ٹیم سے توقعات بھی ھوتی
ھیں۔یہی وجہ ھے کہ دکھ زیادہ ھوتا ھے۔مگر نہ کرکٹ دعاؤں سے جیتی جاتی ہے
اور نہ ھی جذبات سے بلکہ محنت،پیشہ وارانہ صلاحیت،فٹنس اور مضبوط نفسیاتی
ارادوں اور عمل سے جیتی جاتی ہے۔بدقسمتی سے ھماری اجتماعی قومی نفسیات کسی
معجزے کی منتظر رہتی ھے۔اور انہی معجزوں اور جذباتی سوچ نے قوم کو بلکہ ھر
شعبے کو بری طرح جکڑا ہوا ہے۔نہ صلاحیت،فٹنس اور اعصابی مضبوطی کو دیکھ کر
ٹیم سلیکیٹ کی جاتی ہے اور نہ ہی اس پر کام کیا جاتا ھے۔اب آگر موجودہ ٹیم
کپتان کو دیکھا جائے تو خود ان کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی مگر حضرت کپتان
ھیں ایک پلیر آ وٹ ھوتا ھے تو دوسرا زمہ داری لینے کی بجائے اسی کے راستے
کو منزل سمجھ کر ڈریسنگ روم کی مٹھائی کھانے پہنچ جاتا ہے اور دیکھتے ہی
دیکھتے سب دودھ کے مجنوں لیلیٰ کی گود میں اتر آ تے ھیں۔اج کرکٹ کی تکنیک
بھی بدل چکی ہے۔دنیا بھر کے کھلاڑی مخالف باؤلرز ،بیٹسمین۔فیلڈرز اور دیگر
کھلاڑیوں کی ویڈیوز دیکھتے ہیں اس پر گرفت کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرتے
ھیں۔ھمارے پلیئر کھانے،جگتوں اور بدنظمی کی مثال بن کر مزے کرتے رہتے
ھیں۔نہ کو چ کی اھمیت اور نہ نظم و ضبط کا مظاہرہ اور جب اس پر ایکشن لیا
جائے تو سیاست ایک کھلاڑی کیا ملک میں اسی نظام نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی
ھیں جس کو تیزاب سے دھونے کی ضرورت ہے۔اب میچ ہار گئے تو بجائے منصوبہ بندی
کے ایک لا متناہی پریشر طاری کر کے باقی میچ بھی گنوا دیں گے اور افغانستان
اور ائیر لینڈ جیسی ٹیموں سے ھار کر انڈے ٹماٹر کھانے آ جائیں گے۔ویسے وہ
بھی بہت مہنگے ہیں۔انہیں سزا کے طور پر ملک کا کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے پر لگا
دینا چاہیے تاکہ کوئی سبق تو سیکھے۔نہ جانے کب ھمارے ملک میں right man for
right job کا اصول رائج ھو گا۔ ؟ ایک جذباتی،ھیرو ازم اور محض دعاؤں پر
چلنے والی قوم یا کھیل کبھی بھی کامیابی نہیں لا سکتا۔عمران خان نے انہیں
جیت کا حوصلہ لے کر کھیلنے کا کہا تھا وہ منہ لٹکائے ہوئے میدان میں اترتے
ہیں۔نہ ملک کا خیال نہ کھیل کا جزبہ نہ تکنیک تو پھر کس کو کوسا جائے۔اب
کچھ ھو سکتا ھے تو وہ نئی منصوبہ بندی سے میدان میں اتریں شاید کامیابی
حاصل ھو ورنہ نوجوانوں سے درخواست ہے کہ وقت ضائع نہ کریں۔اور اپنا کام
کریں۔خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔
|