کھیلوں کی منکوحہ: دو شوہر اور ایک بیچاری دلہن
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
اسلامی تعلیمات کے مطابق عورت ایک وقت میں ایک ہی شخص کی منکوحہ ہوتی ہے۔ مگر کھیلوں کے نصیب میں یہ اصول شاید لاگو نہیں ہوتا۔ کھیل بیچاری دلہن کی طرح ہے، جس کا نکاح بیک وقت دو شوہروں سے پڑھایا جا چکا ہے۔ ایک طرف صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ اور پاکستان اسپورٹس بورڈ، اور دوسری طرف کھیلوں کی فیڈریشن اور ایسوسی ایشن۔ دونوں ہی اپنے اپنے دعوے کے ساتھ میدان میں ہیں کہ "یہ ہماری منکوحہ ہے!"
ڈائریکٹریٹ والے بڑے فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ وہی اصلی شوہر ہیں۔ وجہ بھی ٹھیک ہے، ان کے پاس گھر (انفراسٹرکچر) ہے، جہیز (فنڈز) ہے، اور تنخواہیں دینے کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے۔ گراونڈ، جم، کوچ، سب انہی کے دم سے ہیں۔ مگر جب بات آتی ہے انٹرنیشنل مقابلوں کی، تو ان کی حیثیت بالکل ویسے ہی رہ جاتی ہے جیسے نکاح نامے پر دستخط کرنے والا پہلا شوہر، جسے بعد میں کوئی پوچھتا ہی نہیں۔
ادھر ایسوسی ایشن والے کہتے ہیں: "یہ ہماری بیوی ہے، کیونکہ باہر دنیا میں ہماری ہی حیثیت مانی جاتی ہے۔" ایشیائی یا عالمی کھیلوں میں کھیل کا نکاح انہی کے ساتھ مانا جاتا ہے۔ مگر ان بیچاروں کے پاس نہ جہیز ہے، نہ گھر۔ صرف ٹیلنٹ ہے، وہ بھی غربت کے ساتھ۔ یہ بھی دلچسپ ہے کہ ان کو کھلاڑی پیدا کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے، لیکن انہی کو بار بار آڈٹ کے کٹہرے میں بھی کھڑا کیا جاتا ہے۔ تین لاکھ کے حساب مانگے جاتے ہیں، جیسے وہ اربوں کے مالک ہوں۔
اب المیہ یہ ہے کہ ڈائریکٹریٹ کے پاس وسائل ہیں مگر کھلاڑیوں کو پہچاننے اور پالنے کا نظام نہیں۔ ادھر ایسوسی ایشن کے پاس کھلاڑی ہیں مگر وسائل نہیں۔ نتیجہ یہ کہ کھیل ایک بیچاری دلہن بن کر دو شوہروں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ کبھی ڈائریکٹریٹ کے ساتھ میکے جاتی ہے، کبھی ایسوسی ایشن کے ساتھ سسرال۔ اور عوام بس یہی تماشا دیکھتے ہیں کہ اصل شوہر کون ہے۔
اب تو چاروں صوبوں کے سپورٹس بورڈ اور پی ایس بی نے کھیل کے جہیز پر ٹیکس لگا دیا ہے۔ غریب بچوں سے فیسیں وصول کی جارہی ہیں۔ اگر پیسے نہیں تو پھر گراونڈ کے دروازے بند۔ مطلب یہ کہ کھیلنا بھی اب غریب کا حق نہیں رہا۔ جس طرح شادی بیاہ میں غریب کو جہیز کے بوجھ تلے دبایا جاتا ہے، ویسے ہی کھیلوں میں بچوں پر ٹیکس کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔
پشتو میں کہاوت ہے "اوبہ پہ کمزور زائے ورزی" یعنی پانی ہمیشہ کمزور جگہ پرجاتا ہے۔ یہاں بھی یہی ہو رہا ہے۔ اربوں کے فنڈز ڈائریکٹریٹ کے پاس ہیں، مگر سوال صرف یتیم ایسوسی ایشنز سے پوچھا جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ حکومت کب تک کھیلوں کو دو شوہروں کے بیچ خوار کرتی رہے گی؟ ایک ہی راستہ ہے: یا تو ایسوسی ایشنز کو ختم کرکے سب کچھ ڈائریکٹریٹ کے حوالے کر دے۔ یا پھر پرانا 70 کی دہائی والا نظام بحال کرے جب پاکستان کھیلوں میں ٹاپ پر تھا۔ اس وقت ایسوسی ایشن کھلاڑی تیار کرتی تھیں اور ڈائریکٹریٹ سہولیات فراہم کرتا تھا۔ جیسے ایک ماں باپ کی الگ الگ ذمہ داریاں۔
ابھی یوتھ گیمز کے ٹرائلز شروع ہونے ہیں مگر فنڈز کی سمری کہیں فنانس سیکرٹری کی دراز میں دبکی بیٹھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا فنانس سیکرٹری نے کبھی "گلی ڈنڈا" کھیلا ہے؟ یا "پٹھو گرم" کھیلا ہے؟ اگر نہیں تو وہ کیسے فیصلہ کرے گا کہ کھیل کے لیے فنڈ جاری ہو یا نہ ہو؟
کھیل آج بھی ایک ایسی دلہن ہے جسے دو شوہروں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ نہ پہلا شوہر اسے پوری طرح اپنا پاتا ہے، نہ دوسرا۔ نتیجہ یہ کہ بیچاری کھیل نہ گھر کی رہی نہ گھاٹ کی۔ عوام اور کھلاڑی تماشا دیکھ رہے ہیں، اور حکمران یہ سمجھ رہے ہیں کہ کھیلوں کی ترقی بس فائلوں اور سمریوں میں چھپی ہوئی ہے۔ #kikxnow #digitalcreator #sportsnews #association #musarratullahjan #digitalcreator #sportnews #content #creation #directorate
|