بیڈمنٹن کا بحران اور پختونخوا کی سوسائٹی
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
صوبہ خیبر پختونخوا میں کھیلوں کی کہانیاں ویسے تو کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ کبھی سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے "گھوسٹ کوچ" پکڑے جاتے ہیں، کبھی بجٹ کی رسیدوں میں ایسے ایسے کھیل نکل آتے ہیں جو آج تک ایجاد ہی نہیں ہوئے۔ لیکن حالیہ دنوں میں ایک نیا مسئلہ سامنے آیا ہے: بیڈمنٹن کا بحران۔ جی ہاں! وہی کھیل جسے ہم نے ہمیشہ گلی کوچے میں کچے کورٹس پر کھیلا، جالی ٹوٹی ہوئی، نیٹ رسی کی بنی ہوئی، اور شٹل کاک آدھی ٹوٹی، لیکن پھر بھی کھیل چلتا رہا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ شٹل کاک کی قلت ہو رہی ہے۔ نوجوان شکوہ کرتے ہیں کہ ”بھائی! اگر ایک شٹل ٹوٹ جائے تو پوری شام بیکار ہوجاتی ہے۔“ اور یہ مسئلہ خاص طور پر خیبر پختونخوا میں اس لیے زیادہ بڑا بن گیا ہے کیونکہ یہاں کے نوجوانوں کے پاس دو ہی مشغلے ہیں: یا تو کرکٹ کھیلنا یا پھر بیڈمنٹن۔ کرکٹ کے بیٹ اور بال کی قیمتیں سن کر تو آدمی کا دل چاہتا ہے کہ وہ بالکل کھیلنا چھوڑ دے۔ اس لیے زیادہ تر نوجوان شام کو اپنے محلے کے کچے کورٹ میں شٹل مارنے نکل آتے ہیں۔
لیکن اب شٹل کاک کا ملنا بھی جوئے شیر بن گیا ہے۔ پشاور صدر کے کھیلوں کی دکانوں پر جائیں تو دکاندار پہلے مسکرا کے کہتے ہیں: ”شٹل چاہیے؟“ پھر ساتھ ہی فخر سے بتاتے ہیں: ”بھائی جان، اب یہ مال سونے کے بھاو¿ ملتا ہے۔“ جیسے یہ کوئی سنہری انڈہ دینے والی مرغی ہو۔
ہمارے ہاں چونکہ ہر مسئلہ آخرکار حجرے میں ڈسکس ہوتا ہے، اس لیے بیڈمنٹن کا بحران بھی وہاں پہنچ گیا ہے۔ ایک صاحب نے کہا: ”شٹل کاک اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ اب اسے کھیلنے کے بجائے فریزر میں رکھ کر مہمانوں کو دکھائیں گے، جیسے لوگ پرانے نوٹ یا ڈاک ٹکٹ فریم کر کے رکھتے ہیں۔“دوسرے نے کہا: ”یار، اگر حکومت نے حالات ٹھیک نہ کیے تو عنقریب لوگ مصنوعی شٹل بنائیں گے۔ پرانے کپڑوں کے ٹکڑے، مرغی کے پر، اور اوپر سے فیتہ باندھ کے، بس کام چلاو شٹل!“
ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں سرکاری اہلکار کھیلوں میں ہمیشہ بڑے جذباتی ہوتے ہیں۔ اگر کھیل کا میدان سیاست میں استعمال ہو سکتا ہے تو بیڈمنٹن کا بحران بھی مزاحیہ رنگ لے لیتا ہے۔ ایک بابو نے بڑی سنجیدگی سے کہا: ”دیکھیں، اگر شٹل کاک نہ ملی تو ہم کھیل کے بجائے اجلاس کریں گے۔ نوجوان کھیلنے کے بجائے تقریریں کریں گے۔“ایسا لگتا ہے جیسے ہر مسئلے کا حل یہی ہے: کھیل کم، اجلاس زیادہ۔
پختون نوجوان بہرحال ذہین بھی ہیں اور تخلیقی بھی۔ ایک گروپ نے کہا: ”اگر شٹل نہیں مل رہی تو پھر کیا ہوا؟ ہم گلی کے بچوں کو بولو گے ٹوٹی چپل ہوا میں اچھالو، ہم ریکٹ سے ماریں گے۔“دوسرا کہنے لگا: ”یار! گلاس کا ڈھکن لے آتے ہیں، وہ بھی ہلکا پھلکا ہے، کم از کم شام گزر جائے گی۔“اور کچھ نوجوان تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ”چلو بیڈمنٹن چھوڑو، کبڈی کھیلتے ہیں۔ کم از کم اس میں کسی شٹل کاک کا خرچہ نہیں۔“
ہمارے ہاں ایک اور دلچسپ رواج یہ ہے کہ شادی بیاہ پر جب نوجوانوں کے ہاتھ میں شٹل کاک اور ریکٹ آجائے تو وہ دولہے کے ساتھ سیلفیاں بناتے ہیں۔ لیکن اب چونکہ شٹل نہیں مل رہی، تو بعض علاقوں میں یہ ٹرینڈ چل نکلا ہے کہ لوگ مصنوعی پھولوں کو ریکٹ پر چپکا کر تصویریں بناتے ہیں۔ دولہا پوچھتا ہے: ”بھائی یہ کیا ہے؟“ تو جواب ملتا ہے: ”بس سمجھ لو شٹل کاک کا نعم البدل ہے۔“
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بیڈمنٹن کا بحران بھی ہمارے معاشرتی مسائل کی طرح ایک دلچسپ حقیقت بن چکا ہے۔ جہاں ہر چیز میں سیاست، بجٹ اور کمی کا ذکر ہوتا ہے، وہاں کھیل بھی محفوظ نہیں۔ لیکن چونکہ پختونخوا کے لوگ مزاح کو کبھی مرنے نہیں دیتے، اس لیے شٹل کاک نہ ملنے پر بھی ہنسی مذاق کا سلسلہ جاری ہے۔کل تک ہم کہہ رہے تھے کہ کھیلوں کے میدان آباد کریں، آج یہ سوچ رہے ہیں کہ پہلے شٹل کاک آباد کریں۔ ورنہ کھیلوں کے بجائے صرف تقریروں اور بحث مباحثے کے ریکٹ چلتے رہیں گے۔
|