"ڈی جی اسپورٹس کااقدام : ہاسٹل کے مفت خور افسران کی نیندیں حرام"

پشاور کے اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے ہاسٹل کو برسوں سے کچھ افسران نے اپنی خاندانی جاگیر سمجھ رکھا تھا۔ کمرے ان کے، بجلی ان کی، گیس ان کی، اور بل… اوہ معاف کیجیے، بل تو ان کے خواب میں بھی نہیں تھا۔ یہاں کا اصول بڑا سیدھا تھا: “رہائش مفت، موجیں لامتناہی”۔

کہانی کچھ یوں ہے کہ کئی سالوں سے بڑے بڑے بابو اور چھوٹے چھوٹے ملازم ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر ہاسٹل میں وی آئی پی زندگی گزار رہے تھے۔ کچھ تو ایسے “ایجادکار” نکلے کہ کمرہ بند کرکے تالہ لگا دیا، اور پھر برسوں تک مفت بجلی اور گیس کے مزے لوٹتے رہے۔ ایف آئی اے کا ایک کانسٹیبل تو کئی سال سے کمرہ ایسے قابو میں لیے بیٹھا تھا جیسے یہ اس کا ذاتی شادی ہال ہو۔

اب آتے ہیں موجودہ ڈی جی اسپورٹس کی طرف۔ جناب نے سوچا کہ یہ ہاسٹل ہے یا “سرکاری فری میرج ہال”؟ تو انھوں نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کردیا:“جو یہاں رہے گا، وہ پچاس ہزار روپے ماہانہ ادا کرے گا۔ چاہے وہ افسر ہو یا باہر کا، مفت خوروں کا زمانہ گیا!”

لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ اب ہاسٹل میں رہنے والے افسران نے اپنی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ شروع کردیا۔ کوئی سیاسی سفارش تلاش کر رہا ہے، کوئی فون پر “جناب بڑے صاحب” سے بات کرا رہا ہے، اور کچھ تو ایسے ہیں جو پچاس ہزار سن کر چیخ پڑے:“پچاس ہزار؟ ہم تو دس ہزار میں گزارا کر لیں گے… کمرہ وی آئی پی ہے، لیکن ہمارا دل غریب ہے۔”

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اسپورٹس بورڈ (PSB) کے عام کمرے صرف ساٹھ ہزار روپے میں ملتے ہیں۔ لیکن وہاں جانے کی ہمت کسی میں نہیں۔ وجہ؟ وہاں سختی ہے، ناظم کمرہ دیکھ بھی لیتا ہے کہ بجلی کا پنکھا چل رہا ہے یا نہیں۔ یہاں، پشاور کے ہاسٹل میں تو ایسا مزہ تھا کہ بندہ اگر چاہے تو ائرکنڈیشنر اور ہیٹر ایک ساتھ چلا دے اور پھر بھی کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ پچاس ہزار روپے کا اعلان صرف اخباروں کی زینت بنے گا یا حقیقت میں کوئی بل بھی وصول ہوگا؟ کیونکہ یہاں کا اصول کچھ یوں رہا ہے: ‘بل وہی دے گا جس کے پاس سفارش نہیں۔ اور جس کے پاس سفارش ہے، وہ پنکھا بھی مفت گھمائے گا اور گیزر بھی مفت گرم کرے گا۔”

ایک صاحب سے جب پوچھا گیا کہ آپ کیوں نہیں ادائیگی کرتے تو موصوف نے بڑی معصومیت سے کہا “بھائی، حکومت کو تو عوام کی خدمت کرنی چاہیے، ہم بھی تو عوام ہیں۔”اب آپ خود بتائیں، ایسی عوام سے حکومت کیسے جیت سکتی ہے؟

مزے کی بات یہ ہے کہ ہاسٹل کے کچھ افسران اب خود کو شہزادے سمجھنے لگے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ میرا کمرہ تو وی آئی پی ہے، پچاس ہزار کیا، اس پر تو سو میں بھی ڈیل ہونی چاہیے۔ ایک اور بابو نے کہا کہ بجلی کا بل ہم کیوں دیں، یہ تو ریاست کی ذمہ داری ہے۔ گویا یہ ہاسٹل نہیں بلکہ سرکاری “ریاست مدینہ کا پانچ ستارہ ریسٹ ہاوس” بن چکا تھا۔

ڈی جی اسپورٹس کے اعلان کے بعد اب ہاسٹل میں ایک الگ ہی ماحول ہے۔ کوئی خفیہ طور پر سامان پیک کر رہا ہے، کوئی دروازے کے پیچھے چھپ کر بل کلکولیٹر پر حساب لگا رہا ہے، اور کچھ نے تو دیواروں پر لکھ دیا ہے:“یہ کمرہ خالی نہیں، روحانی قبضہ ہے۔”

لوگوں کی یہ بھی شکایت ہے کہ برسوں سے ہاسٹل کو اپنی جاگیر بنانے والے افسران دن کو کھیلوں کی ترقی کے نعرے لگاتے ہیں اور رات کو اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں اسپورٹس کے خواب دیکھتے ہیں۔ بجلی کے بل کی فکر نہ گیس کے میٹر کی۔ ہاسٹل کے باورچی خانے میں بھی ایسے جلوس نکلتے ہیں جیسے یہ شادی کی تقریب ہو۔اب چونکہ ڈی جی صاحب نے اعلان کیا ہے تو سب منتظر ہیں کہ اصل “ریاستی مقابلہ” کب ہوگا۔ کیا واقعی یہ مفت خور اپنی جیب سے ادائیگی کریں گے یا پھر سیاسی فون اور سفارش کے زور پر دوبارہ ہاسٹل کو “مفت کا آشیانہ” بنادیں گے؟

کیا پچاس ہزار کا بل حقیقت میں وصول ہوگا یا پھر یہ صرف ہاسٹل کی دیوار پر ایک پوسٹر بن کر رہ جائے گا جس پر لکھا ہوگا:“رہائش صرف پچاس ہزار میں… لیکن صرف ان کے لیے جن کے پاس سفارش نہ ہو!”

#FreeLodgingComedy #DGvsFreeloaders #SportsDirectorateDrama #PayTheRent #HostelVIPLife #KPKSports #Kikxnow
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 759 Articles with 620311 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More