ایک طرف سیلاب، دوسری طرف سیاست: صوابی اسپورٹس کمپلیکس کھیلوں کا مرکز یا سیاسی اڈہ؟


پاکستان عجب ملک ہے۔ یہاں جہاں بارش ہو، وہاں سیلاب ضرور آتا ہے اور جہاں اسپورٹس کمپلیکس بنے، وہاں سیاسی میٹنگ ضرور ہوتی ہے۔ ایک طرف لوگ پانی میں ڈوب رہے ہیں، کھلاڑی میدان کے لیے ترس رہے ہیں، اور دوسری طرف صوابی اسپورٹس کمپلیکس کا کانفرنس ہال سیاست کے سمندر میں غوطہ زن ہے۔

یہی وہ ہال ہے جسے عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے بنایا گیا تاکہ کھلاڑی بیٹھ کر اپنی حکمتِ عملی طے کریں۔ لیکن بھائی جان! یہاں تو حکمتِ عملی کھیلوں کی نہیں بلکہ اگلے الیکشن کی طے ہو رہی ہے۔ لگتا ہے کرکٹ کے بجائے یہاں “سیاسی بیٹنگ” اور “بیلٹ باکس بولنگ” کھیلی جا رہی ہے۔

ویڈیو سامنے آئی تو عوام نے پوچھا:
“کیا کمپلیکس کو اس میٹنگ کے بدلے کوئی فیس ملی؟ یا پھر یہ سب کچھ دوستوں کے لیے فری پاس پر تھا؟”لیکن جواب میں صرف خاموشی ملی، وہی خاموشی جو اکثر پبلک فنڈز کے سوالات پر چھا جاتی ہے۔

قانون کہتا ہے یہ سب غلط ہے۔ جی ہاں، Civil Servants (Conduct) Rules 1964 صاف بتاتے ہیں کہ سرکاری ملازم سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا۔ اور Election Act 2017 بھی چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ سرکاری عمارتیں سیاسی کاموں کے لیے استعمال نہیں ہو سکتیں۔ لیکن لگتا ہے ہمارے کچھ معزز حضرات نے یہ قوانین پڑھنے کے بجائے چائے کے ساتھ پکوڑے کھا لیے۔

اب کہانی میں ذرا رنگ بھی ڈالیں۔ صوابی کے عوام کہتے ہیں کہ اسپورٹس کمپلیکس کا ایڈمنسٹریٹر صاحب ایک بڑے ایم پی اے کے “ہم زلف” ہیں۔ یعنی اگر سیاستدان کہے “چھلانگ مارو”، تو یہ پوچھنے کے بجائے کہ “کہاں ماروں؟” فوراً پوچھتے ہیں “کتنی اونچی؟”۔ تو پھر سیاسی میٹنگ کے لیے ہال کھولنا کیا مشکل کام ہے؟

ادھر کھلاڑی بیچارے سوچ رہے ہیں:“ہم نے تو یہاں میچ کھیلنا تھا، اب لگتا ہے کہ ہمیں جلسے جلوس کے بیچ میں ہی فٹبال کھیلنا پڑے گا۔” کوئی کہہ رہا تھا: “یار، گراونڈ میں وکٹری اسٹینڈ بھی نہیں ہے، لیکن شاید اگلے الیکشن کی وکٹری کے لیے کافی نعرے لگیں گے۔”

عوامی حلقے پوچھ رہے ہیں “کھیلوں کی سہولتیں اگر سیاست کی نذر ہو گئیں تو پھر کھیل کہاں ہوں گے؟ کھلاڑی کہاں جائیں گے؟ اور ہمارے ٹیکس کا حساب کون دے گا؟”لیکن جناب، حساب کتاب صرف غریب کے بجلی کے بل میں نکلتا ہے۔ بڑے آدمی کے سیاست کے بل پر کوئی جرمانہ نہیں ہوتا۔

یہ واقعہ دراصل ہمارے نظام کی مزاحیہ تصویر ہے۔ ایک طرف ملک کے شمال میں سیلاب آیا ہوا ہے، لوگ خیموں میں بیٹھے ہیں، بچے سکولوں سے محروم ہیں۔ دوسری طرف سرکاری عمارتیں سیاسی تقریروں کے لیے کارپٹ بچھا کر مہمانوں کو “وی آئی پی کرسیاں” فراہم کر رہی ہیں۔ یعنی کھیل کے نام پر سیاست، اور سیاست کے نام پر کھیل۔ یہاں گیند بھی پبلک کی، بلے بھی پبلک کے، اور آوٹ ہونے والا بھی پبلک ہی ہے۔ سیاستدان صرف چھکے مار کر خوش ہوتے ہیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق یہ سیدھا سیدھا “Misuse of Authority” ہے۔ لیکن جو لوگ خود کو “Authority” سمجھتے ہیں، ان کے لیے یہ misuse تھوڑی ہے؟ یہ تو ان کا “Personal Right” لگتا ہے۔ ایسے میں اگر کسی نے سوال اٹھا بھی لیا تو جواب ملتا ہے:“بھائی، یہ تو ہماری سیاسی روایت ہے۔” اب سوال یہ ہے کہ محکمہ کھیل اور صوبائی حکومت واقعی اس پر کارروائی کرے گی یا پھر حسبِ روایت یہ معاملہ فائلوں کے پہاڑ میں دبا دیا جائے گا؟ کیونکہ ہمارے ملک میں فائل کا انجام اکثر یہی ہوتا ہے: اوپر کافی کے داغ، درمیان میں اسٹپل کی زنجیر، اور آخر میں گرد کی تہہ۔

لیکن عوام کے سوال باقی رہتے ہیں:اسپورٹس کمپلیکس میں کھیل ہوں گے یا سیاست؟ ٹیکس کے پیسے کھیلوں پر لگیں گے یا کرسیوں پر؟ اور آخرکار کھلاڑی میدان میں آئیں گے یا پھر صرف جلسوں میں نعروں کا حصہ بنیں گے؟

#SwabiSportsComplex #PoliticalShow #PublicFunds #ComedyReality #CivilServantsRules #ElectionAct2017 #TaxMoneyGone #SportsOrPolitics #Accountability

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 757 Articles with 619556 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More