عیدالفطر کا اصل پیغام اور غرض وغایت

مسلمان رمضان کے تیس روزے رکھنے کے بعد عیدالفطر کا تہوار مناتے ہیں۔اس دن تما م مسلمان فطرہ ادا کرتے ہیں اور نماز عید کے بڑے بڑے اجتماعات بھی ہوتے ہیں۔ ان اجتماعات کے اختتام پر سب لوگ ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیتے ہیں اور خوب کھاتے پیتے اور ہلہ گلہ کرتے ہیں۔عیدالفطر ہر سال آتی ہے اورگزر جاتی ہے لیکن یہ اپنے اند ر ایک پیغام سموئے ہوئے آتی ہے۔نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور کو دیکھا جائے تو عید کو محض ہلہ گلہ کرنے کے لیئے نہیں منا یا جاتا تھا بلکہ اس خوشی میں ان غریب اور نادار افراد کے بھی اپنی خوشیوں میں شامل کیا جاتا تھا جو کہ عید منانے کے قابل نہیں ہیں۔ نہ تو ان کے پاس اچھے کپڑے موجود ہوتے اور نہ ہی اچھے کھانے۔اپنے دیئے ہوئے رزق میں دوسروں کو شریک کرنا ہی اصل عید ہوتی ہے۔ عید کا دوسر ا اہم مقصد اس خوشی کے موقع پر اپنے اﷲ رب العزت کو بھی یاد رکھنا ہے۔ اکثر لوگ عید والے دن کوئی نماز نہیں پڑھتے اور شیطان کے آذاد ہونے کی خوشی میں سارا دن یا تو فلمیں اور گانے دیکھتے یا سنتے ہیں یا پھر دوستوں کے ساتھ مٹر گشت کرتے ہیں۔کچھ لوگ عید کی نماز پڑھ کر سو جاتے ہیں اور مغرب کے وقت جا کر ان کو جاگ آتی ہے۔ عید سے چند روز قبل بازاروں میں چلے جایئں تو دوکاندار حضرات ہر چیز کے دوگنے چوگنے دام مانگ رہے ہوتے ہیں جیسے کہ یہ ان سب کی آخری عید ہے اور اس کے بعد دنیا ختم ہوجانی ہے۔ وہی اشیاء عید گزرنے کے بعد اونے پونے داموں پر بیچنے کی کوشش کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ہر خریدار کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح میری عید کی تیاری مکمل ہو جائے۔ اس نفسا نفسی کے دور میں بازاروں میں جن لوگوں کی بازاروں میں سب سے ذیادہ بے عزتی کی جاتی ہے وہ گداگر ہیں۔عید کے دنوں میں ان کی اتنی ذیادہ بھرما ر ہوتی ہے کہ نہ جانے کہا ں سے نکل کر آجاتے ہیں۔لاکھوں روپے کی شاپنگ کرنے والے لوگ بھی فقیر کو دس روپے دیتے ہوئے بھی یہ سوچتے ہیں کہ کہیں یہ فراڈ تو نہیں کر رہا۔ اصل حقدارکو ہی اس کا حق ملنا چاہیے۔ جب ایک کے بعد دوسرا فقیر اپنا دست سوال دراز کرتا ہے تو اس کو فورا یہی جواب دیا جاتا ہے کہ ہم نے تو خیرات دے دی ہے۔ ہم نے کونسا سب کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ یہی بات ہم ایک سے دوسر ا سوٹ خریدتے ہوئے نہیں سوچتے کہ ہمیں اس کی ضرورت بھی ہے کہ نہیں ۔ جو نعمتیں اﷲ نے ہمیں بخشی ہیں ہم ان میں کسی کو شریک نہیں بنا نا چاہتے ۔ اپنی محنت کی کما ئی کا ایک ایک پیسہ ہمارے اوپر تو حلا ل ہے لیکن دوسروں کے اوپر حرام ۔ عید کے دنوں میں اکثر لوگ گداگروں کو یہ کا م چھوڑ کر اپنا کوئی کام دھندا کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ہم کبھی بھی اپنے دامن پہ نظر نہیں ڈالتے ۔ اﷲ کے فضل سے جو کچھ ہمیں مل رہا ہوتا ہے ا س میں ہمار ا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ وہ سب اﷲ کی دین ہوتی ہے۔ ایک سادہ سی مثال لیں کہ دو افراد کی آمنے سامنے دوکا ن ہے ۔ دونوں مقررہ وقت پر اس دوکان کو کھولتے اور بند کرتے ہیں اور دونو ں دل لگا کر محنت بھی کرتے ہیں لیکن ان کی آمدنی کبھی بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ کوئی لاکھوں کما تا ہے تو کوئی ہزاروں ۔اگر ایک جیسی محنت اور کوشش کے باوجود ہمیں ایک جیسا نہیں ملتا تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ اﷲ جو کچھ بھی ہمیں ہماری ضرورت سے ذیادہ دے رہا ہے وہ دوسر ں میں تقسیم کر دینا چاہیے۔ضرورت سے ذیادہ رزق دینا اﷲ کی بہت بڑی دین ہے۔ ہمیں دوسروں کو اس میں شریک کر کے اﷲ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اکثر لوگ اس خوف سے اپنے پاس موجود روپیہ پیسہ خرچ نہیں کرتے کہ بعد میں وہ پیسہ کہا ں سے آئے گا۔ یقینا وہی اﷲ آپ کو دوبارہ رزق دے گا جس نے پہلی بار دیا تھا۔ صرف آپ کو اپنا دل بڑا کرنے کی ٖضرورت ہے۔ اس عید الفطر کا بھی یہی پیغا م ہے کہ اپنے اردگرد موجود لوگوں کی مدد ضرور کریں۔جب اﷲ ہمیں بن مانگے دیتا ہے اور بے شمار دیتا ہے تو ہمیں بھی چاہیے اس کے دئیے ہو ئے رزق میں دوسروں کو شریک لازمی کریں اس سے آپ کے رزق میں زرہ برابر بھی کم نہ آئے گی بلکہ اضافہ ہوگا۔ہر آدمی یہی سوچتا ہے کہ بھلا کسی کو دینے سے بھی رزق میں اضافہ ہوتا ہے اس سے تو الٹا کمی ہوتی ہے۔تو جنا ب آپ بھی یہ تجربہ کر کے دیکھ لیجئے اوراﷲ کے دئیے ہو ئے رزق میں دوسروں کو لازمی شریک کریں اس سے یقینا آپ کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا اور مشکلات میں کمی ہوگی۔

Tanvir Ahmed
About the Author: Tanvir Ahmed Read More Articles by Tanvir Ahmed: 71 Articles with 89045 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.