ستائیس رمضان المبارک کی ساعتوں میں قیام پاکستان

نزول قرآن اور لیلتہ القدر کی بابرکت ساعتوں میں 27رمضان المبارک 1366ھ بمطابق 14اگست1947کو پاکستان کا عالم وجود میں آنا اﷲ تبارک تعالیٰ کا مسلمانان بر عظیم کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے ،یوں یہ مملکت خدادا کہلائی ۔ریاست مدینہ کے بعد یہ دوسری اسلامی نظریاتی مملکت معرض وجود میں آئی ۔قائداعظم محمد علی جناح نے 25جنوری1948کراچی بار ایسوسی ایشن کی سیرت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہـــــ،میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ شر انگیزی کیوں کی جا رہی ہے اور یہ پروپیگڈہ کیوں ہو رہا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت پر مبنی نہیں ہو گا۔پاکستان میں اسلامی اصول اس طرح نافذ العمل ہیں جیسے 1300سال قبل نافذ ہوئے تھے بانی پاکستان کا اشارہ واضع طور پر ریاست مدینہ کی طرف تھا۔قیام پاکستان کا پس منظر ہندو کانگرس اور بر طانوی سامراج کی مسلم دشمنی کا برعظیم میں ایک گٹھ جوڑ اور بھیانک و سیاہ باب پر مبنی ہے۔1946میں لندن کانفرنس کے دوران ہی ایک بڑی سازش کے تحت لال جواہر نہرو کے دیرینہ دوست لارڈ مونٹ بٹین کا گورنر جنرل مقرر ہونا ،اس سازش میں شریک کرشنا مینن ایک شدت کیمونسٹ لیڈر جس نے بستر مرگ سے اس سازش کا انکشاف کیا۔اس نے( فریڈیم ایٹ مڈ نائٹ )کے مصنف کے سامنے یہ راز بھی افشا کیا،کہ ماؤنٹ بیٹن کو جنرل مقرر کرانے کی جو کامیاب کاؤش ہوئی،اس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ یہ راز مسلمانان بر صغیر کو معلوم نہ ہونا پائے۔ورنہ ماوئنٹ بیٹن کی افادیت ختم ہو جائے گئی واقعی راز فاش نہ ہوا ،قائداعظم اور لیاقت علی خان کانفرنس کے سلسلے میں وہاں موجود تھے ،انہیں بھی اس ناپاک سازش کی بھنک نہ پڑی ۔ماونٹ بیٹن نے برطانوی وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق پہلے سر توڑ کوشش کی کہ بر عظیم تقسیم نہ ہونے پائے ،مسلم لیگ کا سربراہ اور مسلمانان بر عظیم کا قائد اعظم محمد علی جناح متحدہ بر عظیم فلسفے کے خلاف ہمت،شجاعت،حوصلے،اور عزم کی چٹان بن گئے اور دونوں مسلم سامراجیوں کو جھکنا پڑا۔تقسیم کا فیصلہ ہوا ،لیکن اس کے پردے میں وہ سب کچھ کیا جو بقول قائداعظم محمد علی جناح دُشمن چاہتے ہیں کہ پاکستان بنتے ہی غائب ہو جائے قائداعظم محمد علی جناح کے اس وجدان کا ثبوت راقم نے لندن میں دارلعلوم کی ڈیٹ رجسٹر میں دیکھا جس میں وزیر اعظم برطانیہ نے (انڈیا انڈپینٹنٹ بل)پر تقریر میں یوں کہا کہ بر عظیم کو دو ممالک میں تقسیم کرنا ایک عارضی عمل ہیں بہت جلد دونوں ایک بڑی (ڈومینن)میں متحد ہو کر کامن ویلتھ میں شریک ہو جائے گئی۔اس وقت کے حزب اختلاف کے رہنماء (میکڈونلڈ)نے بھی غیر معمولی طور پر وزیر اعظم سے متفق ہو کر کہا کہ انڈیا انڈیپین 30جون1947کی مدت طے پائی تھی ،ماؤنٹ بیٹن نے اس مدت کو مختصر کر کے جلد از جلد آزادی دینے کا فیصلہ کیا ۔بر عظیم کی تقسیم کی خفت کی وجہ سے جلد بازی اس لیے کی کہ پاکستان سنبھل نہ پائے ۔قائداعظم نے اس جلد بازی کی سخت مخالفت کی اور دارلعلوم کے فیصلے کی مدت پر قائم رہنے کے لیے زور دیا ۔کسے کیا معلوم کہ اﷲ تعالیٰ بر عظیم کے مسلمانوں کے لیے کیا عظیم تحفہ دینا چاہتا ہے ۔ماؤنٹ بیٹن نے اپنی زاتی خوشی کے لیے برطانوی اور بر عظیم کے لیڈروں سے بغیر صلاح و مشورے کے 15اگست1947کی تاریخ کا اعلان کر دیا ۔یہ تاریخ وائسرے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی زندگی میں بڑی خوشی کا دن تھا جب وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن جنگ عظیم دوم کے دوران برما محاز کا کمانڈر تھا،دراصل اسی تاریخ کو جاپان نے ہتھیار ڈالے تھے،بر عظیم کی آزادی اس سرنڈر کی دوسری سالگرہ کے موقع کو ایک اور تاریخی کامیابی دے کر تاریخ میں خوش قسمتوں میں اپنا نام لکھوانا مقصود تھا۔قائداعظم محمد علی جناح کی مخالفت کی تو اس نے پرواہ نہ کی لیکن اسے کیا معلوم کہ ہندو راشٹر کے اصل حکمران ،جوتشی،اور ستارہ شناسوں کی مخالفت کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑیں گئے ۔جوتشیوں نے 15اگست کو منحوس قرار دیدیا،ہندو رہنماء تو خاموش رہے لیکن اس طاقتور طبقہ نے طوفان برپا کر دیا اور بزدل مکار وائسرائے ہند لارڈماؤنٹ بیٹن اس مخالف مہم سے بوکھلا گیا۔اس کی بوکھلاہٹ تب کم ہوئی جب جوتشیوں نے 14اگست کو مبارک قرار دیا۔بزدل اور مکار وائسرائے ہند نے اس سیلاب کو روکنے کے لیے اپنی خواہش کو برقرار رکھتے ہوئے اور جوتشیوں کو بھی تسلی بخش طریقہ بتا کر بڑی چالاکی سے نئی تاریخ یوں پیش کی کہ آزادی کی تاریخ منحوس کو مبارک دن کے قریب ترین آدھی رات چودہ اور پندرہ کی درمیانی شب بارہ بجے متعین کر دیا ۔ہندو جو تشیوں نے ٹھیک بارہ بجے پوجا پاٹ کے دوران والا سنکہ بجا کر آزادی کے حصول کا مضحکہ طریقہ اپنایاحالانکہ قانون ساز اسمبلی کو اقتدار 15اگست کو ہی منتقل کر دیا گیا تھا ۔یہی انسانی مشقیں ہوئیں اور مسلم دشمن ،بزدل،مکار ۔وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن خود ہی اس ساعت کی طرف کھنچ کر آگیا جو اﷲ تعالیٰ کو منظور تھا یوں چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی رات 27رمضان المبارک کا آغاز 14اگست کو مغرب غروب آفتاب سے شروع ہوا۔اسی رات نزول قرآن اور لیلتہ القدر کی مبارک ساعتیں آن پہنچیں اور وہی ہوا جو منظور خُدا تھا ۔انہی بابرکت ساعتوں میں پاکستان عالم ع وجود میں آگیا اور مملکت خُداداد کہلایا۔14اگست 1947قیام پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ اسی کے مطابق ہے ۔جو ہجری سال1366میں27رمضان المبارک کو ظہور پذیر ہوا۔اس کی دینی فضلیت تو عالم اسلام میں نمایاں ہے اور اس کی ملی اہمیت بھی بہت اہم ہے 27رمضان المبارک کے حوالے سے قیام پاکستان کی اہمیت کو نئی نسل تک روشناس کرانے اور اس پر عمل کرنے کے لیے قومی سطح پر جنگی بنیادوں پر لائحہ عمل تیار کرنے کی جو اشد ضرورت تھی ،قائداعظم محمد علی جناح کے جلد انتقال کے بعد ہمارے بے عمل اور لالچی حکمرانوں نے اس پر بھرپور توجہ نہیں دی۔لیکن میرا وجدان اب بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اب بھی اگر قدرت کی طرف سے عنائیت کردہ اس معجزہ نما ریاست کے لیے ایسی منصوبہ بندی کی جائے جس کا ہم نے اپنے پروردگار سے وعدہ کیا تھا تو ہم یقینا اپنی منزل و مقصود تک پہنچ سکتے ہیں ،بقول قائداعظم محمد علی جناح ۔۔پاکستان منزل نہیں بلکہ منزل مقصود کا وسیلہ ہے (پاکستان اسلام کا قلعہ ہے)اور یہ قلعہ اس وقت دشمن قوتوں کی شدید زد میں ہے اور ہمیں سب کو اس بابرکت ماہ کے صدقے بچنا ہیں ۔جس دن ہم نے سچے دل سے اپنے رب کے حضور سجدہ کر لیا تو اسی وقت ہمارا رب ہمیں تمام دنیاوی سجدوں سے بے نیاز کر دے گا۔اﷲ تعالیٰ ہمارا اور ہمارے وطن عزیز پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔۔۔آمین

Haji Waseem Aslam
About the Author: Haji Waseem Aslam Read More Articles by Haji Waseem Aslam: 4 Articles with 4249 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.