سماجی تبدیلیاں، معاشی مسائل یا کوئی اور وجہ؟ پاکستان
میں طلاق کی شرح میں لگاتار اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ صرف وفاقی
دارالحکومت، اسلام آباد میں گزشتہ 16 ماہ کے دوران 1048 جوڑوں میں طلاقیں
ہوئیں جن میں سے 414 خواتین نے خود خلع حاصل کیا۔
|
|
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عام لوگوں میں برداشت کی کمی اور اپنی خواہشات
کو سب سے مقدم سمجھنے کی وجہ سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں سماجی رویوں میں ناہمواری اور کئی وجوہات کی بنا پر طلاق کی
شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے ریکارڈ کے
مطابق، سال 2018 کے دوران صرف اسلام آباد کے شہری علاقوں میں 779 طلاقیں
رجسٹر ہوئیں، جن میں سے 316 خلع کے کیسز تھے، جن میں خواتین نے عدالتوں سے
ڈگری حاصل کی اور پھر ثالثی کونسل میں کیس آئے۔ لیکن، یہاں بھی میاں بیوی
کا آپس میں اتفاق نہ ہو سکا۔ اور بالآخر طلاق ہوگئی۔
اُسی سال 427 مردوں نے اپنی بیویوں کو طلاقیں دیں۔ 2019 کے پہلے 4 ماہ کے
دوران وفاقی دارالحکومت میں طلاق کے 269 کیسز رجسٹر ہوئے جن میں سے 98
خواتین نے خلع لے لیا۔
چیئرمین ثالثی کونسل اسلام آباد، سید شفاقت حسین نے وائس آف امریکہ سے بات
کرتے ہوئے کہا کہ طلاق کی شرح ’ارینجڈ میرج‘ کے مقابلہ میں ’لو میرجز‘ میں
زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔
بقول ان کے، ’’اس کی بڑی وجہ جذباتی فیصلے کے بعد زندگی کی مشکل حقیقتوں کو
تسلیم کرنا ہوتا ہے، جو مشکل امر ہے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’شادی سے پہلے ’لومیرج‘ کے لیے لڑکا اور لڑکی کی ملاقاتیں
بہت مختصر ہوتی ہیں، جن میں وہ صرف ایک دوسرے کے حوالے سے مثبت باتیں جانتے
ہیں۔ لیکن، شادی کے بعد مستقل ساتھ رہنے پر ایک دوسرے کے منفی پہلو عیاں
ہوتے ہیں‘‘۔
ثالثی کونسل کے چیئرمین نے بتایا کہ ’’زیادہ تر جوڑے اس صورتحال میں صبر
اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کی کمی کو مل کر پورا کرنے کی
کوشش کرتے ہیں۔ لیکن، بعض ان سب سے گھبرا کر طلاق کے راستہ پر چل پڑتے ہیں۔‘‘
شفاقت حسین نے کہا کہ ’’طلاق کی ایک دوسری بڑی وجہ میاں بیوی کا شادی سے
پہلے ایک دوسرے سے بڑی امیدیں وابستہ کرنا ہے۔ اکثر جوڑے ایک دوسرے پر
امیدیں باندھ لیتے ہیں اور پھر جب عملی زندگی میں یہ توقعات پوری نہیں
ہوپاتیں تو طلاقیں ہوجاتی ہیں۔‘‘
بعض اوقات، بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی طلاق دیکھنے میں آئی ہے۔
|
|
انھوں نے بتایا کہ ’’بعض اقات صرف بعض بیویاں اس بات پر خلع لینے کے لیے
آجاتی ہیں کہ ان کا شوہر انہیں گھمانے پھرانے کے لیے نہیں لیکر جاتا۔ یا
پھر ان کے ذاتی اخراجات کے لیے پیسے نہیں دیتے‘‘۔
اسلام آباد ملازمت پیشہ لوگوں کا شہر ہے اور یہاں رہنے والوں کی آمدن
محدود ہوتی ہے۔ اور، ایسے میں جب شوہر سے پوچھا جاتا ہے تو اس کا کہنا ہوتا
ہے کہ وہ بیوی کے مطالبات پورے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے
دونوں کے درمیان ناچاقی بعض اوقات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ پھر طلاق میں ہی ان
کو اپنی بقا نظر آتی ہے۔
چیئرمین ثالثی کونسل نے کہا کہ ’’اس سارے عمل میں سب سے زیادہ متاثر ہونے
والا فریق بچے ہیں۔ بعض اوقات تین سے چار بچوں والے لوگ بھی طلاق لینے یا
دینے پہنچ جاتے ہیں۔ اور ایسی صورت میں بچے ماں کے پاس رہیں یا باپ کے،
دوسرے کی کمی پوری نہیں ہو سکتی‘‘۔
طلاق کی بڑھتی شرح کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کی خاتون وکیل اور
طلاق کے کیسز لڑنے والی خاتون وکیل، طیبہ ممتاز نے وائس آف امریکہ سے بات
کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان جوڑے آتے ہیں اور بعض اوقات ایسے جوڑے بھی آتے
ہیں جو درمیانی عمر کے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’طلاق کی بڑی وجہ برداشت کی کمی اور ایک دوسرے پر اعتماد
نہ ہونا ہے۔ مرد یا خواتین کے شادی کے بعد بھی کسی دوسری عورت یا مرد سے
تعلقات ازدواجی زندگی کے لیے زہر قاتل ہیں۔ ایسے معاملات میں دونوں اکثر
دوسرے فریق کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ہوتے‘‘۔
طیبہ ممتاز کا کہنا تھا کہ ماضی میں سوشل سٹیٹس کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔
لیکن، معاشرتی فرق بہت بڑی وجہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ ذمہ داری شئیر نہ کرنے کی وجہ سے بھی دونوں ساتھ نہیں چل
پاتے۔ ’’خواتین اکثر اپنی بہنوں یا سہیلیوں کی خوشحالی دیکھ کر اپنی
تنگدستی پر معترض ہوتی ہیں یا پھر مرد امیر سسرال کو دیکھ کر امیدیں باندھ
لیتے ہیں۔ لیکن ایسے کیسز میں نقصان دونوں میاں بیوی کا ہی ہوتا ہے۔‘‘
پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں کیا جاتا تھا جہاں طلاق کی شرح ماضی میں
بہت کم تھی۔ لیکن، اب اس میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اسلام آباد میں ثالثی کونسل میں ایسے مقدمات بھی درج کرائے گئے جہاں بعض
مرد حضرات نے پہلی بیوی سے اجازت لئے بغیر دوسری شادی رچائی، اور اس دوسری
شادی کی وجہ سے، ان کی پہلی شادی بھی خطرے میں پڑ گئی۔
|
Partner Content: VOA
|