ایک خاصی افسوسناک صورتحال جو مشاہدے میں آتی رہی ہے کہ
بہت سی خواتین جنہوں نے اپنی پوری جوانی جوائنٹ فیملی سسٹم میں یعنی سسرال
والوں کے ساتھ رہ کر ان کی خدمت کرتے ہوئے گذاری ، نکمے دیوروں اور نک چڑھی
نندوں کی نازبرداریاں اور اکثر ہی شوہر کی کمائی میں سے اپنی اور اپنے بچوں
کی صریح حق تلفی کی اذیت سہی ۔ لیکن جب وہ خود ساسیں بنیں یعنی ان کے ہاں
بہوئیں آئیں تو ایک نمبر کی کام چور اور حرام ہڈ ۔ جنہوں نے انہیں چار دن
سکھ کا سانس لینے نہیں دیا کوئی ان کی ذمہ داریوں میں کمی نہیں آنے دی بلکہ
درد سری میں اضافہ ہی کیا ۔ اور پھر نہ ہی سسرال میں ٹک کر رہیں ۔
پیڑ لگا کر جب اس کی چھاؤں میں سستانے کا وقت آیا تو پیڑ ہی اکھاڑ کر کہیں
اور لے جا کر لگا دیا گیا اور ان کے نصیب میں وہی تپتی دھوپ ۔ بہت سی
خواتین کے ساس سسر یا دونوں میں سے کوئی ایک بقید حیات ہوتے ہیں اور یہ
بیچاری اپنی پوری جوانی انہیں دینے کے بعد خود اپنے بڑھاپے میں بھی ان کی
خدمت کر رہی ہوتی ہیں ان کا کوئی ہاتھ بٹانے والا یا بٹھا کر کھلانے والا
نہیں ہوتا ان کے بھی دن کبھی شروع نہیں ہوتے ۔ اور ان خواتین کے ساتھ اس
طرح کی زیادتی میں بجا طور پر پہلے ان کے خاوندوں اور پھر خود اپنے بیٹوں
کا ہاتھ ہوتا ہے جو ماں کے وقت تو اندھے بنے رہتے ہیں مگر بیوی کی باری میں
انہیں شریعت یاد آ جاتی ہے ۔ ایسی ناخلف اولاد کو تو چلتا کر دینا ہی بہتر
ہے ۔ ایک خاتون نے نکمی بہو اور بیٹے کی چشم پوشی سے تنگ آ کر انہیں اپنا
بوریا بستر سمیٹنے کا حکم دے دیا ۔ مگر فرزند ارجمند کی تنخواہ اتنی نہیں
تھی کہ الگ گھر افورڈ کر سکیں لہٰذا ماں کا صرف حکم سن کر ہی موصوف کے ہوش
ٹھکانے آ گئے اور ان کی بیگم بھی سیدھی ہو گئی ۔
ہمارے ایک دور پرے کے عزیز ہیں جو کئی بھائی ہیں اور صرف ان کو چھوڑ کر
باقی سب عرصہء دراز سے اپنی اپنی الگ دنیا بسائے ہوئے ہیں ۔ خود ان کی شادی
کو پینتیس سال ہو چکے ہیں ایک نوے سالہ بوڑھی ماں جو ذہنی اور جسمانی لحاظ
سے تقریباً معذور ہی ہو چکی ہیں اور ایک ستر سالہ بیوہ بہن انہی کے ساتھ
مقیم ہیں بجائے اپنے کسی بیٹے کے ساتھ رہنے کے ۔ یہ دونوں ماں بیٹی نہ تو
اپنے باقی کے بیٹوں کے پاس رہنے کے لئے جاتی ہیں نہ ہی انہیں کوئی چار دن
کے لئے اپنے پاس لے جا کر رکھتا ہے بلکہ عید تہوار پر سارا لاؤ لشکر سینے
پر مونگ دلنے کے لئے آن موجود ہوتا ہے کیونکہ گھر اماں ابا کا ہے جس پر حق
سب کا ہے فرض کسی کا کوئی نہیں ۔ پھر تین سال قبل ان عزیز نے اپنے بیٹے کی
شادی کی تو ان کی بیوی بیچاری پر ساس اور نند کے ساتھ ساتھ بہو کی بھی ذمہ
داری آن پڑی ۔ وہ تو ان کا ساتھ کیا دیتی الٹا انہی کو اس کی سیوا کرنی پڑ
گئی کیونکہ وہ پلنگ سے اترنے سے پہلے ہی واپس پلنگ پر چڑھ کر بیٹھ گئی ۔
خیر سال بھر بعد اس کا چولہا چوکا الگ کیا کیونکہ اس کے لچھن تھے ہی نہیں
ساتھ مل کر رہنے والے ۔ اور جس میں کچھ گُن ہوتے ہیں وہی گھاٹے میں رہتا ہے
اس کے نہ یہ دن نہ وہ دن (رعنا تبسم پاشا)
|