کہیں کانٹے ہم میں ہی تو نہیں لگے؟

انسان کی شخصیت مثبت و منفی اور خیر و شر کے امتزاج سے بنی ہے۔ خیر کی تو خیر ہے لیکن انسان کے شر سے نہ صرف دوسروں کو محفوظ رہنے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ انسان کا شر اُس کے خود کے وجود کو بھی کانٹا بنا دیتا ہے اور پھر انسان اپنا یہ کانٹے جیسا وجود لے کر لوگوں کو چبھتا رہتا ہے۔

برا ہونا بری بات نہیں ہوتی لیکن اپنے اندر کی برائی سے لاعلم ہونا اچھا نہیں ہوتا۔ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی برائی موجود ضرور ہوتی ہے اگر انسان یہ کہے کہ اس میں کوئی برائی ہے ہی نہیں تو پھر وہ انسان، انسان ہی نہ ہوا، کوئی فرشتہ ہو گیا۔

بری عادتوں کی اور بری سوچ کی اصلاح کرکے انھیں اچھی عادتوں اور مثبت سوچ میں ڈھالا جا سکتا ہے مگر یہ تب ہی ممکن ہو سکے گا جب انسان کو اپنے منفی ہونے کا علم ہو اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ اسے تسلیم بھی کرتا ہو کہ ہاں خامی واقعی مجھ میں ہے، تب ہی تو اس کی اصلاح ہو سکے گی۔

کچھ لوگ اپنے ہی آپ سے جنگ کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔ ان کے اندر منفیت، غصہ، احساس برتری، بےچینی اور چڑچڑے پن کی کھچڑی پک رہی ہوتی ہے اور وہ اپنی اس کیفیت میں دوسروں کے امن کو بھی مشتعل کرتے ہیں۔ انھیں ہر انسان سے مسئلہ ہوتا ہے۔ ہر انسان میں انھیں برائی نظر آتی ہے۔ ایسے لوگ اپنے چال چلن اور رویے کی وجہ سے جب کسی سے تعلق بگاڑ لیتے ہیں تو بجائے اس کے کہ خود کے رویے پر غور کریں، یہ سارا بار سامنے والے پر ڈال کر خود کو بے قصور سمجھ لیتے ہیں۔

انسان پیدائشی طور پر منفی نہیں ہوتا۔ گھر کا ماحول، لوگوں کی صحبت، لوگوں کا رویہ، لوگوں سے ملنے والا جھوٹ، دھوکہ اور بےاعتباری، یہ سارے عناصر اس کے منفی ہونے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ انسان اگر قصوروار ہوتا ہے تو اس چیز کا ہوتا ہے کہ وہ خود کو ان سب سے بچاتا نہیں ہے۔ ایک بار اسے جہاں سے چوٹ لگتی ہے وہ دوسری بار پھر وہیں جاتا ہے اور یہ مسلسل چوٹیں اسے ہر ایک سے بدگمان کر دیتی ہیں۔ پھر وہ ان لوگوں کو بھی کھو دیتا ہے جو اس کے لئے مخلص ہوتے ہیں اور آخر میں ہر ایک کو برا بھلا کہتا ہے۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اسکا دماغ اب صرف منفی سوچنے کا عادی ہو چکا ہوتا ہے۔ اسے کسی چیز میں کسی بات میں پازیٹیویٹی نظر ہی نہیں آتی کیونکہ جو آنکھ منفی (-) دیکھنے کی عادی ہو جائے اسے مثبت (+) میں بھی دو منفی نظر آ جاتے ہیں۔

ان لوگوں میں بےباکی، بدتمیزی، ٹیڑھاپن اور غصہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ یہ اگر ایک عام اور سادہ سی بات بھی کرنے لگیں تو رویہ اتنا جارہانہ ہوتا ہے کہ وہ سادہ سی بات بھی کسی کو بری لگ سکتی ہے۔ نیگیٹو لوگوں کو ہر ایک کا وجود کھلتا ہے جبکہ حقیقت میں ان کا خود کا وجود خاردار ہوتا ہے، کانٹے ان کے اپنے ہی وجود میں لگے ہوتے ہیں۔
 

Kanwal Ghulam Hussain
About the Author: Kanwal Ghulam Hussain Read More Articles by Kanwal Ghulam Hussain: 5 Articles with 11591 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.