رمضان شریف میں تحصیل انتظامیہ کلرسیداں کا کردار
(Muhammad Ashfaq, Rawalpindi)
رمضان شریف میں کلرسیداں سرکاری انتظامیہ
نے پنجاب حکومت کے سستا رمضان بازار پروگرام کے تحت عوام کو بہت اچھا ریلیف
فراہم کیا ہے اور عوام علاقہ کو روز مرہ استمعال کی اشیاء نہایت ہی مناسب
قیمت پر فراہم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے جبکہ عوام نے بھی
پنجاب حکومت کی طرف سے فراہم کردہ سہولت سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے اس بات
کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلی رمضان کو سستے بازار میں آٹے کے
کل پانچ سو تھیلے رکھے گئے جن میں سے چار سو اسی تھیلے فروخت ہوئے ہیں اور
صرف بیس باقی بچے ہیں اسی طرح چینی اڑھائی سو کلو رکھی گئی جس میں سے دو سو
کلوگرام فروخت ہو گئی اور صرف پچاس کلو گرام باقی بچی بلکل اس طرح سستے
بازار میں روزانہ آنے والے صارفین کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا
اور آٹے کے تھیلے روزانہ چھ سو کی تعداد تک بھی فروخت ہوتے رہے اور چینی
پانچ سو کلو گرام تک بھی روزانہ کے حساب سے فروخت ہوتی رہی ہے اسی طرح دال
بیسن، کھجوریں ،مشروب، اور اس طرح کی دیگر اشیاء بھی نہایت ہی ارزاں نرخوں
پر عوام کو فراہم ہوتی رہی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ کلرسیداں انتظامیہ
نے سستے رمضان بازار کے حوالے سے بہت اچھا کردار ادا کیا ہے اور عوام کو
بہت ہی اچھے طریقے سے سہولیات باہم پہنچائی ہیں جس پر کلرسیداں کی سرکاری
انتظامیہ بلخصوص ٹی ایم اے کے اہلکاران اور اسسٹنٹ کمشنر آفس کے اہلکاران
مبارک باد کے مستحق ہیں یہاں پر میں اے سی آفس کے اہلکار فیضاب علی کا زکر
کرنا بہت ہی ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے چینی اور آٹے کے حوالے سے اپنی زمہ
داری نہایت ہی اھسن طریقے سے ننبھائی ہے انہوں نے پورے مہینے میں چینی اور
آٹے کے حوالے سے بہترین انتظامات کیئے ہیں اور اپنے فرض میں کوئی کوتاہی نہ
آنے دی ہے جہاں کلرسیداں انتظامیہ نے رمضان سستے بازار میں بہت ہی اہم
کردار کیا ہے وہاں پر ان سے کچھ کوتاہیاں بھی سر زد ہوئی ہیں جن کا زکر
کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں تحصیل کلرسیداں کوئی اتنی بڑی تحصیل نہیں ہے اگر
کسی کے پاس اپنی گاڑی ہو تو وہ پوری تحصیل صرف پانچ چھ گھنٹوں میں پھر سکتا
ہے کلرسیداں میں تین پرائس مجستریٹس مقرر کیئے گئے تھے جن میں اسسٹنٹ کمشنر
کلرسیداں، تحصیلدار کلرسیداں اور ایم او آر شامل تھے رمضان شروع ہوتے ہی
دکانداروں بلخصوص پھل فروٹ فروخت کرنے والوں نے غریب عوام کو دونوں ہاتھوں
سے لوٹا لیکن انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی پورے مہینے میں صرف دو تین
بار سننے میں آیا کہ فلاں جہگہ پر کسی دکاندار کو گرانفروشی پر پانچ سو
جرمانہ کیا گیا ہے اس کے بعد ادھر دوبارہ آنے کا نام بھی نہ لیا صرف جرمانہ
وصول کیا لیکن دکاندار کو گرانفروشی سے روکنے کیلیئے کوئی بھی خبرداری
ہدایات جاری نہ کیں دکاندار وں نے بھی یہ سوچ کر جرمانہ ادا کر دیا کہ یہ
تو ان کی روٹین کی کاروائی ہے ہم نے بھی یہیں سے پورے کرنے ہیں ابھی پرائس
مجستریٹ شہر میں ہی موجود ہوتے تھے تو دکاندار اسی وقت اپنے پیسے پورے کرنے
کیلیئے تک و دو شروع کر دیتے تھے ان کو زرہ برابر بھی اس بات کا خوف نہیں
تھا کہ میں دوبارہ ایسا کروں گا تو پھنس جاؤں گا صرف اس لیئے کہ اس میں
قیمتیں کنٹرول کرنے والی اتھارٹی کی کوتاہیاں ہیں اگر وہ دکاندار کو اس بات
کا خوف دلاتے کہ اگر آپ نے دوبارہ گرانفروشی کی تو آپ کو جرمانے نہیں بلکہ
آپ کے خلاف کوئی اور تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے گی اور اس قدر سخت
کاروائی کی جائے گی جس میں جان چھڑانا مشکل ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوتا
رہا ہے صرف معمولی کاروائیاں کی جاتی رہی ہیں جن کا کسی دکاندار کو کوئی
بڑا نقصان نہیں ہوتا ہے قصابوں نے عید کے قریب خوب منافع کمایا ہے لیکن
وہاں پر بھی صورتحال کچھ ایسی ہی تھی کئی دفعہ قصابوں سے بات ہوئی وہ یہی
کہتے سنے گئے کہ انتظامیہ کیا کر لے گی بہت بڑا تیر مارا تو ایک ہزار روپے
کرمانہ ہی کریں گئے وہ ہم ادھر سے ہی پورا کر لیں گئے باقی کون سا انہوں نے
ہمیں جیل میں ڈال دینا ہے بلکل اس طرح کی صورتحال پوری تحصیل میں نظر آئی
ہے ہر جہگہ پر دکانداروں اور قصابوں نے عوام کو خوب لوٹا ہے لیکن انتظامیہ
اپنے دفتروں میں ہی بیٹھ کر صرف سکیمیں بناتی رہی ہے گرانفروشی کا کوئی
مستقل حل نکالنے میں مکمل ناکام رہی ہے اگر یہ کہا جائے کہ نا جائز منافع
خوروں کو انتطامیہ نے کھلی چھٹی دیئے رکھی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہو
گا جس طرح انتطامیہ نے رمضان سستے بازار کے حوالے سے بہت اچھا کردار ادا
کیا ہے اگر وہ تحصیل میں موجود دوسرے شہروں میں بھی قیمتوں کو کنٹرول کرنے
میں اپنا کردار ادا کرتی تو ہر جہگہ ہی سستا بازار میں تبدیل ہو سکتی ہے
کوی بھی سپیشل سستا بازار لگانے کی نوبت ہی پیش نہ آئے حکومت اگر عوام کی
خیر خواہ ہے تو اس کو چاہیئے کہ وہ صرف انتظامی افسران کو پرائس مجستریٹ
مقرر نہ کرے ہر تحصیل میں اور بھی بہت سارے سرکاری محکمے موجود ہیں جن میں
بڑے بڑے قابل افسران بیٹھے ہوئے ہیں اگر ان میں سے قابل افسران کو اسپیشل
اختیارات دے دیئے جائیں تو بہت سی بہتری آ سکتی ہے ہر تحصیل میں کم و بیش
آٹھ سے دس سرکاری محکمے موجود ہوتے ہیں اگر ان سرکاری محکموں کے سربراہان
کو اسپیشل اختیارات سونپ دیئے جائیں اور ہر افسر کو صرف ایک عدد شہر دے دیا
جائے کہ اس شہر کو صرٖ اسی نے کنٹرول کرنا ہے اگر کہیں بھی کوئی کوتاہی نظر
آئی تو متعلقہ افسر سے باز پر س کی جائے گی اور وہ اپنی کوتاہی کا جواب دہ
ہو گا تو اس کام سے ہر تحصیل میں بہت سی بہتری عمل میں لائی جا سکتی ہے اور
گرانفروشی کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات میں بھی بہت سی
اچھائیاں لای جا سکتی ہیں تحصیل میں کتنا بڑا ایریا ہوتا ہے اگر پوری تحصیل
کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور ہر حصے پر ایک الگ سے افسر
مقرر کر دیا جائے تو کچھ شک نہیں کہ حالات درست نہ ہو سکیں اگر یہ سب کچھ
بھی نا ممکن ہو تو انتظامی افسران کو ہی سخت ہدایات دی جائیں کہ وہ اپنا
کام دیانتداری سے انجام دین تو اس سے بھی حالات تھوڑے ٹھیک ہو سکتے ہیں
|
|