پیسہ ،دولت اور شہرت جب کسی ایسے انسان کے
ہاتھ میں آجائیں جنکی فطر ت بدلنا ہو تووہ اپنے اندر ایسی تبدیلی لے آتے
ہیں کہ انسان انکو انسان نظر نہیں آتے۔وہ خود کو ایسے محسوس کرتا ہے جیسے
اس نے دنیا خرید لی ہے اور اب وہ جو چاہے کر سکتا ہے لیکن جب انسا ن یہ سوچ
لیتا ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے تو اسی سوچ سے انسانیت کا زوال شروع
ہوجاتا ہے یعنی پیسہ دولت اور شہرت انسان کے اندر موجود اس ذات کا خون کر
دیتی ہیں جسے اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں میں دیکھنا پسند کرتا ہے اگر آپ کی ذات
میں وہ سب کچھ موجود ہے جسے اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کے اندردیکھنا پسند کرتا
ہے تو یقین مانیں آپ سے بڑا خوش نصیب انسان کوئی نہیں ۔
اگر آپ کے پاس بہت دولت ہے پیسہ کی فراوانی ہے اور ساتھ ساتھ اﷲ پاک نے آپ
کو شہرت بھی دے دی ہے تویہ سب آپ کے لئے امتحان ہے اور بہت کم لوگ ایسے ہیں
جو اس امتحان میں پاس ہوتے ہیں ورنہ اکثر فیل ہی ہوتے ہیں دنیاوی امتحانات
میں ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارے امتحانات میں کونسے سوال آنے والے ہیں
لیکن آخرت کے بارے میں ، جنت حاصل کرنے ،دوزخ سے دور رہنے کے بارے میں ہمیں
سب بتایا گیا ہے کہ دنیا میں ہمیں کیسے رہنا ہے کس طرح کا کردار اپنانا ہے
اﷲ کی مخلوق کے ساتھ کس طرح سے پیش آنا ہے کن راستوں پر چلنے سے ہمیں جنت
ملے گی اور کن راستوں پر چلنے سے ہمیں دوزخ کی ہوا کھانی پڑ سکتی ہے ۔
ماں ایسی ہستی ہے جس کی شان بہت اعلیٰ ہے اﷲ تعالیٰ نے جنت کو ماں کے قدموں
تلے رکھا ہے یعنی وہ جنت جسے انسان حاصل کرنے کیلئے ساری زندگی عبادت میں
گزار دیتا ہے وہ کہیں دور سے نہیں ملے گی ،پیسوں سے نہیں ملے گی ،دولت سے
نہیں خریدی جائے گی ،شہرت کی وجہ سے خود بخود چل کر آپ کی دہلیز پر نہیں
آئے گی بلکہ ماں کی خدمت کرنے اور ماں کا دل جیتنے سے ملے گی ۔
ایسی ہی ایک ماں جو کہ سرکاری ہسپتال میں شاید دوائی لینے آئی تھی میں بھی
اُسی وقت ایک دوست کے ساتھ اُسی ہسپتال میں آیا ہوا تھا میرا دوست بیمار
تھا ڈاکٹرکو چیک اپ کرانے کے بعد علیحدہ سے دوائی والے کاؤنٹر سے دوائی
لینی ہوتی ہے میں نے دوست کو سائیڈ پر بٹھا دیا اور دوائی لینے کے لئے لائن
میں لگ گیا کیونکہ رش بہت زیادہ تھا مردو خواتین کی لائنیں لگی ہوئی تھیں
خواتین کی لائن میں ایک بوڑھی اماں جو کافی عمر کی تھی اور شاید ٹھیک طرح
سے کھڑی بھی نہیں ہوسکتی تھی لائن میں کھڑی ہوئی تھی اور کانپ رہی تھی ۔
میں اپنی لائن کو چھوڑ کر اس بوڑھی ا ماں کی طرف بڑھا اور کہا اماں جی آپ
نے دوائی لینی ہے کیا ؟ جو آپ لائن میں اسطرح سے کھڑی ہیں ؟کہنے لگی جی
بیٹا دوائی لینی ہے پہلے میں دو مرتبہ پرچی لیکر آگے گئی ہوں لیکن مجھے یہ
کہا جاتا ہے کہ اماں ہم پاگل ہیں جو صبح سے لائن میں کھڑے ہیں پیچھے جاؤ
اپنی باری میں آگے آنا۔بس بیٹا میں پیچھے آکر کھڑی ہوگئی ہوں اور کیا کروں۔۔۔
میں نے اماں کے ہاتھ سے پرچی لی اور اماں کو آرام سے ایک سائیڈ پر بیٹھنے
کو کہا اور پھر سے لائن میں لگ گیا اپنے دوست اور اماں کی دوائی لیکر دوست
کو دوائی دی اور اماں کے پاس جا بیٹھااماں کی دوائی اماں کو دی اور دوائی
کے کھانے کے بارے میں بھی تفصیل سے بتایا۔ اماں مجھے بہت حسرت سے دیکھ رہی
تھی جیسے کہ وہ میرے اندر کسی کو تلاش کر رہی ہو۔۔۔اماں کے ہاتھ پاؤں میں
کپکپاہٹ تھی میں نے دوائی دینے کے بعد پوچھا اماں جی آپ کو کیا مسئلہ ہے
کہنے لگی بیٹا کانپتا ہے جسم ۔۔دکھتے ہیں گوڈے۔۔۔تمہیں میں غور سے اس لئے
دیکھ رہی ہوں اور سوچ رہی ہوں کہ کاش آج میرا بیٹا میرے ساتھ ہوتا تو مجھے
یوں اس طرح دھکے نہ کھانے پڑتے بات کرتے کرتے اماں کی آنکھ سے آنسو بھی
جارہی ہوگئے ۔
میں نے اماں سے کہا کہ آپ مجھے اپنا بیٹا ہی سمجھیں اور مجھے بتائیں آپ کی
آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں ؟کہنے لگی بیٹا میرا بیٹا بہت امیر ہے شہر ت کا
مالک ہے شہر کارئیس مانا جاتا ہے وہ پیسہ دولت اور شہرت کے نشے میں اتنا گم
ہوگیا ہے کہ اُسے یہ بھی یاد نہیں کہ اُسکی ایک ماں بھی ہے ۔
کبھی گھر میں ٹائم گزارے تو ایک دو منٹ میرے پاس آتو جاتا ہے لیکن میرے پاس
بیٹھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتا کیوں کہ میں بیمار جو رہتی ہوں اپنے
منہ کو ڈھانپ کر سلام کرتا ہے کہ کہیں میری کوئی بیماری اُسے نہ لگ جائے ۔
رات سے طبیعت زیادہ خرا ب تھی تو میں نے سوچا ہسپتال سے دوائی لے آتی ہوں
بس رکشے میں بیٹھ کر آگئی ہوں میں نے اماں سے کہا اماں جی اب آپ نے واپسی
اکیلے نہیں جانا میں آپ کو آپ کے گھر تک چھوڑ آؤنگا۔دوست اور اماں کو لیکر
ہسپتال سے روانہ ہوئے تو اماں کہنے لگی بیٹا میرا گھر یہاں سے 20منٹ کے
فاصلے پر ہے جیسے ہی ہم ایک عالیشان بنگلے کے قریب پہنچے تو اماں کہنے لگی
بیٹا بس یہ ہی میرے بیٹے کا گھرہے۔
بنگلے کو دیکھ کر اور اماں کی بات سُن کر میں اور میرا دوست سکتے میں چلے
گئے اور یہ سوچنے لگے کہ اگر یہ بنگلہ اماں کے بیٹے کا ہے تو اماں اس طرح
در در کی ٹھوکریں کیوں کھارہی ہے ہم ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اماں گاڑی
سے اتری اور ہمیں ڈھیر ساری دعائیں دیتے ہوئے بنگلے میں داخل ہوگئی میں اور
میرا دوست واپس اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے تو میرا دوست کہنے لگا یار کیا
اس کے بیٹے کا حق نہیں بنتا کہ وہ اپنی ماں کو ہسپتال ہی لے جائے ۔۔میں نے
کہاجن کے دلوں میں ماں باپ کا احساس ہو وہ اپنے ماں باپ کو کبھی بیمار ہی
نہیں ہونے دیتے تم ہسپتال لیکر جانے کی بات کررہے ہو۔جب اولاد ماں باپ کی
آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائے تو کوئی بیماری انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔اﷲ پاک
ہمیں ہمارے ماں باپ کی خدمت کرنے اور انکی آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کی توفیق
عطافرمائے ۔۔۔آمین
|