خلاصہء سورة الاعراف

• آیت نمبر 1 تا 9 میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ کفار کے رویے سے افسردہ نہ ہوں ۔۔آگے مومنین کو نصیحت کی گئی ہے کہ قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔۔ پھر آگے ان بستیوں کے احوال کا ذکر کیے گئے ہیں جنہوں نے حق سے روگردانی کی اور ان پر دن میں عذاب نازل ہوا جب وہ سوئے پڑے تھے۔۔۔ اور ان بستیوں کے کھنڈرات عبرت کے لیے کافی ہیں۔
• آیت نمبر 11 تا 27 میں حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کا قصہ مذکور ہے۔۔ اور بنی آدم کو شیطان کے مکر و فریب سے بچتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
• آیت نمبر 31 تا 39 میں ہے کہ جب کفار انکی بے حیائی سے آگاہ کیا جاتا تو کہتے کہ اپنے آباء و اجداد کو ایسا ہی پایا۔۔آگے نماز کے وقت قبلہ رخ ہونے کا ذکر کیا گیا ہے اور آگے ان لوگوں کا حال بیان کیا ہے جنہوں نے شیطان کو دوست بنایا اور باوجود گمراہ ہونے کے خود کو ہدایت یافتہ سمجھتے تھے ۔۔۔ پھر آگے نماز کے وقت عمدہ لباس کے یا ستھرے لباس کے ساتھ حاضری دینے اور اللہ عزوجل کی نعمتوں سے استفادہ کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔۔
• آیت نمبر 40 تا 58 میں متکبرین اور حق کو جھٹلانے والوں کا انجام مذکور ہے اور ایمان والوں کے اعمال صالحہ کے نتیجے میں دی جانے والی جزاء کا بیان ہے۔ اگے بتایا گیا ہے کہ اہل جنت کے دلوں سے بغض اور کینہ جیسی بیماری دور کردی گئی ہے۔ اور وہ شکر کے طور پر اللہ عزوجل کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہیں اور رسول کی رسالت کا اقرار بھی کرتے ہیں۔ پھر آگے جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان مستقبل میں ہونے والے مکالمہ کا ذکر کیا گیا ہے۔۔۔ اس کے بعد اعراف والوں کا حال اور اعراف کے متعلق بتایا گیا ہے کہ اعراف جنت اور جہنم کے درمیان ایک پردہ ہے۔ اعراف والے جنت کی تمنا کریں گے اور جہنم سے پناہ مانگیں گے۔۔ آگے مذکور ہے کہ جنہوں نے اللہ عزوجل کو بھلا دیا تھا دنیوی زندگی کی محبت میں گم ہوکر ۔۔ تو اللہ عزوجل بھی ان کو چھوڑ دے گا۔۔ جب وہ جہنم کا ایندھن بن جائیں گے۔۔ آگے اللہ عزوجل کی قدرت کاملہ کا اور آسمان اور زمی ن کی پیدائش کا اور بارش کے سلسلے کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا کہ جس طرح بارش کے ذریعے بنجر زمین کو سیراب کر کے زندہ کر دیا جاتا ہے اسی طرح مردوں کو زندہ کیا جائے گا۔
• آیت نمبر 59 تا 85 میں حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کی سرکشی کا ذکر کیا گیا ہے۔۔ پھر حضرت ہود علیہ السلام اور انکی قوم 'قوم عاد' کی نافرمانی کا ذکر کیا گیا ہے، حضرت صالح علیہ السلام اور ان کی قوم کی سرکشی کا بیان کیا گیا ،اآگے حضرت لوط علیہ السلام کی دعوت حق اور ان کی قوم کی بےحیائی کا ذکر کیا گیا ہے ، اس کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم کا بیان ہے کہ یہ قوم ناپ طول میں کمی کرتی تھی ۔
• آیت نمبر 94 تا 96 میں مذکور ہے کہ کسی قوم کو اسکی نافرمانی پر فورا ہی پکڑ میں نہیں لیا جاتا بلکہ پہلے انکو ہر طرح سے آزمایا جاتا ہے۔
• آیت نمبر 103 تا 129 میں حضرت موسی علیہ السلام کی بعثت اور فرعون اور اسکی قوم کا حال بیان کیا گیا ہے آگے حضرت موسی علیہ السلام اور جادگروں کے مابین ہونے والا واقعہ مذکور ہے جادوگروں کے ایمان لانے کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔۔۔
• آیت نمبر 130 تا 151 میں ہے کہ فرعونی جب کوئی اچھی بات پاتے تو اسکو اپنی طرف منسوب کرتے اور جب کوئی بری بات آن پہنچتی تو اسکا سبب حضرت موسی علیہ السلام کو ٹہراتے تھے۔۔آگے فرعونیوں پر نازل ہونے والے عذاب کا ذکر کیا گیا ہے ۔۔ آگے بنی اسرائیل کو فرعونیوں سے نجات ملنے کا تذکرہ اور بنی اسرائیل کا حضرت موسی علیہ السلام سے بت بنانے کا مطالبہ کرنا۔۔۔ آگے حضرت موسی علیہ السلام کا کوہ طور پر جانے والا واقعہ مذکور ہے۔ اور بنی اسرائیل کا بچھڑے کو معبود بنانے ،حضرت موسی کا اس پر اظہار افسوس کرنا اور حضرت ہارون علیہ السلام سے اسکے متعلق پوچھنا مذکور ہے۔۔ اس کے بعد حضرت موسی علیہ السلام کے کلمات استغفار اور اپنی قوم کے لیے دعا،کرنا مذکور ہے۔
• آیت نمبر 156 تا 158 میں حضرت موسی علیہ السلام کی دعا مذکور ہے جس میں آپ نے اپنی قوم کے لیے دین ودنیا کی بھلائی مانگ۔۔ آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رسالت عامہ کا ذکر کیا گیا ہے۔
• آیت نمبر 160 تا 175 حضرت موسی علیہ السلام کے معجزات کا ذکر ہے آگے۔۔۔ اصحاب سبت کا واقعہ مذکور ہے کہ کس طرح وہ ایلا نامی مقام پر سمندر کے کنارے سے ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑ کر نافرمانی کی۔۔ آگے عالم ارواح میں بنی آدم سے لیا گیا وعدہ مذکور ہے۔۔ پھر آگے ایک شخص کے حسد کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح وہ اپنے حسد میں رسول کو جھٹلایا کرتا تھا ۔۔۔بعض مفسرین کے نزدیک اس شخص سے مراد بلعم بن باعور ہے بعض کے نزدیک آیت نمبر 175 میں جس شخص کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ امیہ بن الصلت یا ابو ابو عامر بن صیفی ہے۔۔
• آیت نمبر 180 میں ہے کہ اللہ عزوجل کو اسماء الحسنی کے ساتھ پکارا کرو۔۔
• آیت نمبر 199 تا 206 میں مکارم اخلاق ، احکام کی پیروی کرنے اور فرشتوں کی صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔۔
رکوع ، آیات، الفاظ اور حروف کی تعداد:
24 رکوع، 206 آیات ، 3344 الفاظ ، اور 14071 حروف ہیں۔
سورة الاعراف کی وجہ تسمیہ:
عربی میں بلند جگہ کو اعراف کہا جاتا ہے۔۔ اعراف جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جگہ ہے، جہاں اعراف والے ہوںگے ، اس سورت کی آیت نمبر 46 میں اعراف کا ذکر آیا ہے اسی وجہ سے اس سورت کو اعراف کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
سورةالاعراف کی فضیلت:
مستدرک میں کتاب الفضائل القرآن حدیث نمبر 2114 میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے قرآن پاک کی پہلی 7 بڑی سورتوں کو حفظ کیا اور انکی تلاوت کرتا رہا تو یہ اسکے لیے کثیر ثواب کا باعث ہے ۔۔ صراط الجنان فی تفسیر القرآن میں درج ہے کہ ان سات سورتوں میں سے ایک سورة الاعراف بھی ہے۔۔
Aalima Rabia Fatima
About the Author: Aalima Rabia Fatima Read More Articles by Aalima Rabia Fatima: 48 Articles with 86672 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.