سرور دنیا کا طاری ہے اب بھی ہم پہ خمار

فی زمانہ ہم اپنے اطراف بڑے پیمانے پر دینی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں، جو بجائے خود مستحسن سرگرمیاں ہیں اور اجر و ثوا ب کا مستحق بھی بناتی ہیں،لیکن یہ احساس دل کے نہاں خانے میں اکثر موجزن رہتا ہے کہ جن کاموں میں ہمیں دل چسپی ہے بس اُ ن ہی کو(ہو سکتا ہے بجا طور پر)ہم قابلِ اجر و ثواب سمجھتے ہوئے اُن ہی کی انجام دہی میں مصروف رہتے ہیں۔ اصل میں ہونا یہ چاہیے کہ اُن اعمال و سرگرمیوں کی تدریج اور اہمیت معلوم کرنے اور اِن کی ترجیحی حیثیت متعین کرنے کے لیے سب سے پہلے کتاب ہدایت القرآن الحکیم سے رجوع کیا جائے۔ یہ نہایت ضروری ہے۔ اِس لیے کہ اللہ کی متعین کردہ ترجیحات سے بے خبر رہ کر اور اپنی پسندیدہ ترجیحات کو اپنی سرگرمیوں اور اعمال کا محور ومرکز بنا کر ہم جوکھم اٹھانے سے بچ سکتے ہیں ۔چنانچہ بہتر اور عند اللہ زیادہ مقبول یہی امر ہے کہ ہم اللہ کی کتاب سے اِبتداء ہی میں رجوع کریں اور اپنے کارہائے اجر و ثواب کی ترجیحات اِسی کی رہنمائی میں مرتب کرتے ہوئے اپنی دینی سرگرمیوں کو جاری و ساری کریں، پھر نصرتِ الٰہی کے اُمیدوار بنیں۔ اِس مضمون میں ہم نے اِسی پہلو سے قرآنی آیات کی ربانی روشنی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

قرآنِ الحکیم کی سورہ النازعات کی آخری آیتوں میں کہا گیا ہے:” انسانوں! کیا تخلیق میں تم زیادہ مضبوط ہو یا آسمان؟ اسے تو ہم نے بنایا، اسے اونچائی اور بلندی دی ، درست اور ہموار کیا۔ ہم نے اس کی رات اس پر طاری کی اور اس کا دن بھی نکالا ۔پھر زمین کو بھی ڈیزائن دے کر اس میں سے تمہارے لئے پانی نکالا اور سبزہ بھی اور اِس پر پہاڑ نصب کردئے ۔متاعِ زندگی اور سارے کے سارے Provisions، تمہارے لئے بھی اور تمہارے مویشیوں کے لئے بھی فراہم کیے۔ “

کسی قسم کے ستونوں کے بغیر آسمان کی یہ بے پناہ وسعت نہ جانے کب سے ہمارے سروں پر تنی کھڑی ہے۔ ہمارے نظامِ شمسی ،پھر دن میں باشندگانِ زمین کو میسر سورج کی بے پناہ روشنی اور اندھیری شب میں جگمگاتے ستاروں سے آراستہ ہمارے سر پر تنا آسمان ، الغرض ہماری نظروں میں سمانے والی ہر شئے پر کسی بھی پہلو سے غور کیا جائے تو یہ حقیقت واشگاف ہو گی کہ ہر شئے انتہائی کامل طور پر راست یا بلاواسطہ اولادِ آدمؑ کو فیض پہنچا نے میں مصروف ہے۔ظاہر ہے کہ ربِّ کائنات نے ان سب کی تخلیق فرمائی اور حکم دیا کہ وہ اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے جائیں۔ظاہر ہے کائنات کی ہر شئے اولادِ آدم کی خدمت میں مصروف ہے تو کچھ ہم سے بھی چاہا جا رہا ہوگا یا کچھ احکامات ہمیں بھی تفویض کر دیے گئے ہونگے۔ چنانچہ ہمیں اِن ہی احکامات کا تذکرہ اِن آیاتِ قرآنی میں ملتا ہے:” سو انسانوں! دیکھو جب وہ سب سے بڑی آفت برپا ہوگی۔جس دن انسان کو یا د آجائے گا کہ اس نے اپنی زندگی میں کون سی کوششیں اور کون سی حرکتیں کی تھیں۔یاد رکھو، اس دن دیکھنے کے لئے جہنمExpose کردی جائے گی ! “جس طرح ہماری زندگی کے اختتام کا وقت مقرر ہے، اسی طرح اس دنیا کے اختتام کا وقت بھی مقرر ہے اور جس دن یہ دنیا ختم ہو جائے گی وہ دن قیامت کی آفت کا دن ہوگا،وہ یومِ محشر یا حساب کا دن ہوگا جب رب تعالےٰ کے سامنے ہر انسان کی اپنی زندگی کے لیکھے جوکھے Assets and Liabilities کے ساتھ پیشی ہوگی۔

اس دنیا میں ہر انسان اپنے رب کی تخلیق کردہ دیگر مخلوقات کا اور نعمتوں کا بے دریغ استعمال کئے جاتا ہے ، جیسے ہوا، پانی ، خوراک اور نہ جانے کس قدر اور بھی چیزیں ہیں جو اُس کے استعما ل میں ہیں۔ ظاہر ہے، ان چیزوں کا حساب تو ہمیں بہر حال دینا ہوگا جس میں کسی ہیرا پھیری کی کوئی گنجائش ممکن نہیں ہو سکے گی۔اب یہ معلوم کرنا نہایت ضروری ہے کہ کس طرح ہم محشر کے روز اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کی سزا سے خود کو بچا سکیں گے؟وہ کیا اُمور ہیں جن کا ہمیں دھیان رکھنا ہوگا؟خدا کا شکر ہے کہ یہ تذکرہ ہمیں اللہ کی کتاب سے دستیاب ہے: ”سو جس نے سرکشی والی زندگی گزاری ہوگی اور دنیا کی اسی زندگی پر مگن اور مطمئن رہ کر اسے(آخرت پر) ترجیح دی ہوگی تو بلاشبہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور جس نے اپنی زندگی اس طرح گزاری ہوگی کہ کل اسے (حاصل شدہ ہر نعمت کا) حساب دینے کے لئے ا پنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے ، اور اپنے آپ کومن مانی کرنے سے باز رکھا ہوگا ، تو بے شک اس کا ٹھکانہ جنت ہی ہوگا۔ “

یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک طرف زندگی گزارنے کے لئے اللہ نے ہر انسان کو ہر طرح کے مواقع کے ساتھ نعمتیں بھی عطا کی ہیں۔ انسان اتنا کوتاہ بیں ہے کہ اسے صرف مال و دولت کے علاوہ اپنے پاس کی دیگر نعمتوں کا کوئی خیال ہی نہیں رہتا۔کون انسان ہے جس نے اپنے اعضا اور ہاتھ پاؤں اور انکی انگلیوں کیلئے کبھی اللہ کا شکر ادا کیا ہوگا۔! ایک پیر دوسرے سے ایک ملی میٹر ہی چھوٹا ہو تو انسان کی چال میں لنگڑاہٹ آجاتی ہے۔ کیا کسی نے اپنے دونوں پیروں کی یکساں لمبائی کی خاطر کبھی اللہ کا شکر ادا کیا ہے؟ ایک آنکھ اور دوسری آنکھ میں ہی ایک ملی میٹر کے دسویں حصہ ہی کا فرق ہو جائے تو انسان بدصورت دکھائی دیتا ہے۔ کون ہے جس نے اس گراں قدر عنایت پر بارگاہِ اِلٰہی میں جذباتِ سپاس کا نذرانہ پیش کیا ہوگا۔ اسی لئے ہمارا رب فرماتا ہے کہ وقلیل من عبادی الشکور۔ میرے بندوں میں شکر گزار بہت تھوڑے ہی پائے جاتے ہیں۔

ان نعمتوں کی علاوہ بھی بے شمار نعمتوں کا ہم بے دریغ استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ان تعدو نعمت اللہ لا تحصوھا ”اے انسانوں! تم اگر اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن بھی نہ سکو گے۔“ مگر بہت کم انسانوں کو احساس ہے کہ ان تمام نعمتوں کے ذریعے ہی اُس کا امتحان بھی لیا جارہا ہے۔یہ بہرحال طے ہے کہ ہم اپنے ہر عمل ردّ عمل ، معاملہ ،ہر رویہ اور ہر سلوک،اپنی زبان یا قلم سے نکلے ہوئے ہر لفظ کی جواب دہی کے لیے ایک مقررہ دن اپنے رب کے حضور کھڑے ہو ں گے: یومَ یقومُ النّاسُ لِربِّ العالَمِین۔ نہ صرف قول فعل اور عمل بلکہ ہمارے دلوں میں اٹھنے والے جذبات اور خیالات کے تعلق سے بھی ہم سے سوال ہوسکتا ہے۔ وان تبدوا ما فی انسفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ۔تم اگر کوئی بات اپنے جی میں چھپا لو یا اسے ظاہر کرو، (بہر صورت) اللہ اسکا حساب تم سے لے گا۔

ہمارا نفس یا ہمارا من بڑا چنچل واقع ہوا ہے۔ ہمیں من مانی کرتے رہنے پر اُکساتا رہتا ہے۔بیشتر اوقات ہم اپنے اختیارات اور مال و دولت کا بیجا استعمال کر جاتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم سے کہیں زیادہ بااختیار اور با حشمت وبا قوت، رب جلیل کی ذاتِ عظیم ہے جو ہم سے ہماری زندگی کا اور اسکی نعمتوں کا حساب لینے والا ہے۔نیز یہ بھی کہ ہمیں اپنے حقوق کے حصول کی بڑی فکر لاحق رہتی ہے ، جن کے لیے ہم کسی بھی حد کو پھلانگ جانے سے نہیں چوکتے۔لیکن دوسروں کے حقوق کی ادائیگی یا Paymentsکی ہمیں مطلق فکر نہیں رہتی اور یہی چیز رب تعالےٰ کو پسند و مطلوب ہے کہ ادائیگیوں میں کوئی دھاندلی نہ ہو۔ ہم اس حقیقت سے بالکل بے خبر رہتے ہی کہ ہم پر اپنے والدین، اہلِ خاندان ، اہلِ محلہ، اہلِ شہر، اہلِ ملک اور اہلِ دنیا کے کئی Duesواجب الادا نکلتے ہیں۔پھر بھی ہم فقط اپنی ذات ہی کے گرد گھومتے رہ جاتے ہیں اور اپنی ذات ہی سے دلچسپی کا مظاہرہ کرتے رہ جاتے ہیں۔اگر ہر وقت یہ خیال ذہن و فکر میں مستحضر رہے کہ ہمیں اپنے Paymets بروقت ادا کرنے ہیں تو کیا عجب کہ حشر کے دن کامیابی کی ہلکی سی کرن نمودار ہوجائے۔ نہایت مختصر الفاظ میں یہ نصیحت ہمیں پچپنویں سورة کی چھیالیس ویں آیت میں ملتی ہے:” اور جس نے ( آج اپنی اس دنیا کی زندگی میں، کل )اپنے رب کے سامنے کھڑے رہنے سے ڈر کر زندگی گزاری ، تو اس کے لئے تو دو دو جنتیں ہیں۔ “

کیا ہی دل لگتی اور کس قدر اہم معلومات، کتنے آسان الفاظ میں اور کس قدر اختصار کے ساتھ فراہم کردی گئی ہیں! کتنی عظیم ہے یہ خوشخبری ! آخرت میں حساب دینے کا احساس ، اور اِس کے سلسلے میں یہ بیداری و فکرمندی ہمیں اپنے رب کی رحمت کا امیدوار بنا سکتی ہے۔مگر اِس خوشخبری کے ساتھ یہ وارننگ بھی ملاحظہ ہو جو پچیسویں سورة کی ترتالیسویں آیت میں درج ہے:” کیا غور کیا آپ نے اس شخص کے انجام پر ، جس نے اپنی خواہشوں کو ہی اپنا معبود بنا لیا !!! کیا آپ اسکی وکالت کر سکیں گے؟ “

لاشعوری طور پر ، ہم اپنے نفس اور اپنے ہی دل کی ماننے لگتے ہیں۔انسان دوسروں کا احتساب بڑی آسانی سے کرلیتا ہے۔ مگر خود اپنی روش، اپنے عمل، اپنی سوچ اور طرزِ زندگی کی طرف توجہ دینے کی اسے بہت کم فرصت ملتی ہے۔رفتہ رفتہ اسکی زندگی اپنی ہی ذات کی ہو کر رہ جاتی ہے۔اِن مختصر الفاظ میں مالکِ کائنات نے ہمیں تنبیہ کی ہے، اِس لیے ہمارا یہ کام ہے کہ ہم اپنے شعور کو استعمال میں لائیں، اپنی زندگی ، اپنے اخلاق، اپنے کردار، اپنے معاملات اور اپنے خیالات کو بار بار چیک کرتے رہیں اور انہیں بے سمت نہ ہونے دیں، جس کا لازمی نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ اِس نظام عمل میں رب جلیل ہماری دو طرح سے نصرت فرمائے گا۔ایک تو یہ کہ اُس کی ہدایت آفریں کتاب سے راست تعلق قائم ہو جائے گا جس کے نتیجے میں کتابِ ہدایت کی تلاوت کے ذریعہ ہدایات اور رہنمائی اخذ کرنے کا آغاز ہوگا۔دوم یہ کہ وہ غافلانہ زندگی سے نجات پائے گا ، کیونکہ سعی و جہد سے معمور اُس کی زندگی کے مختلف مراحل و مصروفیات میں بسا اوقات اُس کے کتابِ ہدایت سے دور نکل جا نے کے اِمکانات رہتے ہیں۔ممکن ہے وہ اپنے والدین، اپنی اولاد، اپنے کاروبار، یہاں تک کہ اپنی عزت و مرتبے کے حصول جیسے معقول اور جائز کاموں کی بجا آوری کے لیے مصروف ِ کار ہو،لیکن ایسی تمام مصروفیات کے دوران کتاب ِ ہدایت سے دوری کی وجہ سے ممکن ہے کہ زندگی کے قیمتی لمحات آخرت کی جواب دہی کے احساس کے بغیر بھی گزر سکتے ہیں۔ایسے میں اُس کی یاد دہانی کے لیے کتاب سے راست تعلق کا قائم ہونا ضروری ہے۔اِس طرح ہر لمحہ یاد دہانی کی صورت میں اُسے غفلت کی زندگی سے نجات مل سکتی ہے اور اُسے یہ احساس ہو سکتا ہے کہ اُس کا رب اُس کا امتحان لے رہا ہے۔

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی بنائی ہوئی نیکیوں کی لسٹ ہی کو سب کچھ سمجھتے ہوئے اپنے اعمال پر اجرو ثواب کی اُمید لگا رکھتا ہے ۔اسے کتاب ہدایت کی تدریج کا علم نہیں ہوتا ۔ وہ خود اپنے طور پر اپنے لئے ایک لائحہ عمل بنا لیتا ہے۔ ہم یہاں ایک ہی حوالے پر اکتفا کرتے ہیں جو ترپنویں سورة کی چھتیس تا اکتالیسویں آیت میں بیان کیا گیا ہے:” کیا انسان کو خبر نہیں لگی کہ (حضرت)موسیٰ پر نازل کئے گیے صحیفے اور Scriptureمیں کیا درج تھا؟ اور (حضرت) ابراہیم ؑ، جو وفا کے ہر پیمانے پر کھرے اترنے والی ہستی تھے، ان پر نازل کئے گئے Scriptureمیں کیا تذکرہ تھا؟اور وہ تذکرہ یہی تھا( جسے مکرر سن لو) کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا، جس کے لئے اس نے سعی اور محنت کی ہوگی۔ اور بے شک اسکی سعی اور کوششوں کو بھی جانچا پرکھا جائے گا۔پھر اسے رب تعالےٰ کی جناب سے پورا پورا Paymentدے دیا جائے گا۔ “

ہماری دنیوی مصروفیات میں بھی، ہم رب تعالیٰ کے خوف کو ہر وقت مد نظر رکھیں۔ آخرت کی جواب دہی کے تعلق سے فکر مند ہو جائیں، لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں کتاب اللہ کی روشنی میں چاق و چوبند رہیں۔ ہمارے رب سے ہم توفیق اور استعان کے طلب گار ہیں۔ ” برکت دے اللہ ہمیں اور آپ کو قرآن الحکیم کی آیات سے، اور نفع دے ہمیں اور آپ کو اس حکمت والے نصیحت نامہ کی آیتوں سے۔بےشک اللہ انتہائی اعلیٰ شان والا، اکرام والا، نیکیوں کا قبول کرنے والا، شفقت اور رحم فرمانے والا ہے۔ “

ہے کوئی جو سرورِ دُنیا کے خمار سے خلاصی حاصل کرنے اور کتاب اللہ کی طرف پلٹنے کا خواہشمند ہو....؟
Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 83408 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.