اسلام آباد (........)عالمی جنگ
اور بدامنی کا ذمہ دار امریکہ ہے۔ خطہ میں امن کے لئے طالبان سے مذاکرات
کئے جائیں۔کچھ سالوں سے مغرب اسلام فوبیا میں مبتلا ہے اور مذہبی جنونیت،
لسانی تعصبات کا کھلم کھلا اظہار کیا جارہا ہے جس کی مذمت کی جاتی ہے۔ تمام
مشکلات اور مسائل کا حل سیرت طیبہ میں موجود ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کی حیات طیبہ پر عمل کئے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ ان خیالات
کا اظہار مجلس صوت الاسلام پاکستان کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں بدھ کو سہ
روزہ عالمی سیرت کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے
کیا۔تقریب کے مہمان خصوصی مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین تھے جبکہ
صدارت مجلس صوت الاسلام کے سرپرست اعلیٰ اور جامعہ اسلامیہ کلفٹن کے رئیس
مفتی محی الدین نے کی ، اس موقع پر جامعہ اشرفیہ لاہور کے نائب مہتمم
مولانا فضل الرحیم ،وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ قاری محمد
حنیف جالندھری ،مفتی ابوہریرہ محی الدین ،مفتی ابوبکر محی الدین ودیگر
موجود تھے۔ کانفرنس کے آخری سیشن میں دنیا بھر سے آئے ہوئے جید
علماء،اسکالرز ،مندوبین اور میڈیا کے افراد کی ایک بڑی تعداد نے شرکت
کی۔مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلام
امن وسلامتی کا درس دیتا ہے اور اسلامی احکام پر عمل کر کے ہی کامیابی مل
سکتی ہے۔ مجلس صوت الاسلام نے سہ روزہ عالمی سیرت کانفرنس کا انعقاد کرکے
ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ جس پر اس کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی کانفرنس کا انعقاد وقت کی ضرورت ہے۔ علماء اور
دینی طبقہ آگے بڑھیں نئی نسل کو سیرت پاک روشناس کرانے کیلئے ہر ممکن اقدام
کریں انہوں نے کہا کہ ہم سیرت طیبہ کی روشنی میں مغرب اور دیگر اسلام مخالف
قوتوں کا بہترین انداز میں مقابلہ کرسکتے ہیں ہمارا مذہب امن وسلامتی کا
درس دیتا ہے۔ سیرت طیبہ پر عمل کے ذریعے ہی دہشت گردی، بدامنی ، عدم
استحکام اور دیگر مسائل کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ مجلس صوت الاسلام پاکستان
کے سرپرست اعلیٰ مفتی محی الدین نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ دنیا کی
قوتیں وسائل اور تمام ذرائع امن کے لئے استعمال کیے گئے مگر امن نہیں
آیا۔یہ ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر
عمل کیے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ بدامنی کا دائرہ صرف
پاکستان تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا ان مسائل کا شکار ہے۔سیرت طیبہ سے
رہنمائی حاصل کر کے ان مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے اور انہوں نے کہا کہ
ساری دنیا میں سیرت کانفرنسز کے انعقاد کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ
وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو عام کریں۔ دنیا میں ہونے والی ترقی
مسلمانوں کی مرہون منت ہے۔ مسلمانوں نے سائنس ،نظام تعلیم، فوج ،پولیس اور
دیگر تمام شعبہ زندگی کے حوالے سے عالم کو ایک مکمل ضابطہ دیا۔انہوں نے کہا
کہ اس وقت پاکستان کے حوالے سے مختلف سازشیں کی جارہی ہیں اور کبھی اقلیتوں
کے نام پر ،کبھی عیسائیوں کے نام پر پروپیگنڈے ہورہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ
پاکستان میں تمام اقلیتیں محفوظ ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں
اقلیتوں کے خلاف کام کرنے والی کوئی جماعت نہیں ہے۔جب یہ کام پاکستان میں
ہو ہی نہیں رہا ہے تو پھر پاکستان کے خلاف ایسی سازش کیوں کی جارہی ہے ۔انہوں
نے کہا ہے کہ اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی کا قتل مذہبی نہیں اس کی
تحقیقات کی جائے تو پس منظر کچھ اور سامنے آئے گا۔ مفتی محی الدین نے کہا
کہ حکومت اور نشریاتی ادارے اس طرح کے حساس معاملات پر بات چیت کرتے ہوئے
سخت خیال رکھیں۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی ذمہ داری مذہبی لوگوں پر عائد
کرنا بددیانتی ہے ۔کیا جن لوگوں نے سیاسی اور لسانی بنیادوں پر دہشت گردی
نہیں کی ،کیا صرف مذہبی لوگ ہی ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی
بھٹو نے اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے ایف ایس ایف بنایا۔ بعد ازاں
الذوالفقار قائم کی گئی، 80ء کی دہائی میں کراچی میں لسانی فسادات میں
سینکڑوں لوگ مارے گئے اور ایک طویل عرصے تک بوریوں میں بند لاشیں ملتی
رہیں۔یہ سب کچھ مذہبی نہیں تھا ،سیاسی جماعتیں اور قائدین بھی انتہا پسند
ہیں۔اگر ایسا نہیں تو یہ ملکی مفاد کیلئے ایک جگہ جمع کیوں نہیں ہوتے۔ مجلس
صوت الاسلام کے سرپرست اعلیٰ نے کہا کہ حکومت کوئی ایسا اجلاس بلائے جس میں
علماء تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی قیادت کالعدم جماعتوں کے رہنما ،عدلیہ
، میڈیا ،فوج ،وکلاء اور دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے
نمائندوں کو بلایا جائے۔ تاکہ دہشت گردی کے ذمہ داروں کا تعین کیا جاسکے
اور ان کی نشاندہی ہوسکے اور قوم کو بتایا جائے کہ دہشت گردی کے ذمہ دار
ملک کے اندر ہیں یا باہر ،علماءظلم وجبر ،گمراہی ،بدامنی ،بدنظمی اور دیگر
مسائل کے خلاف کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں جنگ ہے جس کا آغاز
امریکا نے کیا ہے ہم امریکا سے کہتے ہیں کہ وہ افغانستان میں شروع کی ہوئی
اپنی جنگ کو فتح یا شکست سے بالاتر ہوکر مذاکرات کے ذریعے ختم کریں اور
فوری طور پر طالبان سے مذاکرات کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں
شروع کی جانے والی جنگ نے پوری دنیا کو خوف میں مبتلا کردیا ہے اور بدامنی
کی اصل وجہ بھی یہی جنگ ہے۔ اگر مذاکرات ہوجائیں تو اس سے دنیا میں امن
قائم ہوگا۔ ایسا نہیں ہوا تو بدامنی کا دائرہ پوری دنیا تک پھیلے گا اور یہ
آگ صرف پاکستان تک محدود نہیں رہے گی۔ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گی
مجلس صوت الاسلام کے چیئرمین مفتی ابوہریرہ محی الدین نے شرکاء،مندوبین اور
مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس کے انعقاد کا کوئی سیاسی
مقصد نہیں ہم صرف معاشرے کی اصلاح ،ظلم اور جبر کا خاتمہ اور نوجوان نسل
اور راہ راست پر لانے کیلئے کوششیں کررہے ہیں۔کانفرنس کا اختتام عالمی مجلس
تحفظ ختم نبوت کے مرکزی نائب امیر خواجہ عزیز احمد کی دعا پر ہوا۔
قرار داد
اسلام آباد (........ ) عالمی سیرت کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت
تما م جامعات کے شعبہ علوم اسلامیہ میں سیرت چیئرز قائم کی جائے اور سیرت
کے حوالے سے تحقیقی اور علمی خدمت سرانجام دینے والوں کو ذمہ داری دیکر اس
ادارے کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن میں رجسٹرڈ کیا جائے۔ معاشرہ میں اسلامی
روایا ت اور ثقافت کو فروغ دینے کے لئے وزارت اطلاعات و نشریات اور نشریاتی
اداروں اور جید علماء کی کمیٹی قائم کی جائے جس کی سفارشات پر عمل درآمد
یقینی بنایا جائے یہ مطالبات مجلس صوت الاسلام پاکستان کی ذیلی تنظیم صلاح
المسلمین کے زیر اہتمام بدھ کو مقامی ہوٹل میں سہ روزہ عالمی سیر ت کانفرنس
کی اختتامی تقریب میں 12 مختلف مشترکہ قراردادوں کے ذریعے کیا گیا۔مجلس کے
رہنما ڈاکٹر سعد صدیقی نے قراردادیں پڑھیں اور منظوری حاصل کی۔ ٭ مجلس صوت
الاسلام پاکستان کی زیر نگرانی سیرة النبی کے حوالہ سے ایک تحقیقی ادارہ
قائم کیا جائے، اس ادارہ میں سیرة سے متعلق ذخیرہ کتب جمع کیا جائے اور
سیرت پر دنیا بھر میں چھپنے والے اور کانفرنسوں میں پڑھے جانے والے معیاری
،علمی مقالات بھی جمع کئے جائیں ۔دور جدید میں ہونے والے سیرة پر حملوں کے
مؤثر علمی اور مدلل جوابات تیار کئے جائیں مقالات کے مختلف زبانوں پر ترجم
کرائے جائیں اس مرکز کا نام” مرکز الدراسیة السیرة“ہوگا۔٭ کانفرنس قراداد
پیش کرتی ہے کہ دینی مدارس کے نصابات میں سیرة النبی کو بطور خاص شامل کیا
جائے۔ سیرة سے متعلق جدید رجحانات پر تحقیقات کروائی جائیں ۔٭حکومت سے
درخواست ہے کہ سکول کی سطح سے گریجویشن کی سطح تک اسلامیات لازمی کے نصاب
میں سیرة النبی کے پہلو کو غالب طور پر شامل کیا جائے۔٭بچوں کی ذہنی ،فکری
اور پختہ تربیت کے لئے ایسا لٹریچر تیار کیا جائے جو بچوں کی ذہنی اور علمی
سطح کو ملحوظ رکھ کر تیار کیا جائے اور اس کے ذریعہ ان کی اخلاقی تربیت کی
جائے۔٭حکومت سے درخواست ہے کہ وہ حکومتی اور نجی ذرائع ابلاغ کو ہدایت جاری
کرے کہ وہ اپنے اپنے چینلز پر سیرة پر علمی گفتگوئیں اور سیمینار سارا سال
نشر کیا کریں۔٭حکومت سے درخواست ہے کہ مقابلہ کتب و مقالات سیرة کو مزید
مؤثر بنائیں اور موضوعات کے انتخاب میں خصوصاً اس بات کو مدنظر رکھا جائے
کہ ایسے موضوعات کا انتخاب ہو جو عصر حاضر میں نوجوانوں کی تربیت کے لئے
زیادہ مؤثر ہوں اور پھر ان مقالات کی اشاعت کا مؤثر نظام ترتیب دیا جائے ۔ان
انعام یافتگان کے سیمینارز مختلف اداروں میں کروانے کا اہتمام کیا
جائے۔٭پاکستان کے تمام جامعات کے شعبہائے علوم الاسلامیہ میں سیرة چئیر
قائم کی جائے اور اس پر ان اسکالرز کا تقرر کیا جائے جن کی سیرة کے حوالہ
سے خصوصی تحقیقی و علمی خدمات ہوں ، ان تمام سیرة چئیرز کو تحقیق کے لئے
HEC کی طرف سے خصوصی گرانٹ دی جائے اور HECکے زیر اہتمام سال میں ایک مرتبہ
یہ سب پروفیسر ایک جگہ جمع ہوکر سال بھر کے تحقیقی منصوبوں اور ان کے
عنوانات سے متعلق آپس میں تبادلہ خیال کریں تاکہ ان کے تحقیقی کاموں میں
ربط و ضبط پیدا ہو۔٭ حکومت سے درخواست ہے کہ وہ 1961ءکے عائلی قوانین کا
ازسر نو جائزہ لینے کے لئے علماء و وکلاء پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے اور
نبی کریم ﷺ کے نظام حقوق و فرائض کی روشنی میں عورتوں اور مردوں کے حقوق و
فرائض کا تعین کرے ۔٭ دینی مدارس سے درخواست ہے کہ دینی مدارس کے نصاب و
نظام میں دور حاضر کی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر قدیم علوم کے نصابات کو بھی
شامل رکھتے ہوئے ان میں جزوی تبدیلیاں پیدا کریں،اسلامی نظامی مالیات
وتجارت کے حوالہ سے علماء کی مہارت کی دور جدید کو سخت ضرورت ہے،اس ضرورت
کو پورا کرنے کے لئے نظام و نصاب میں مناسب تبدیلی کی جائے ۔٭ علماء اور
خطباء سے درخواست ہے کہ وہ اجتماعات ،دروس اور خطبات جمعہ میں معاشرہ کی
حقیقی ضرورتوں معاشرہ کے ذہنوں میں اٹھنے والے شکوک و شبہات اور سوالات کا
ادراک پیدا کریں اور معاشرہ میں رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے نظام حقوق و
فرائض ، نظام امن و اخوت، نظام جہاد و تبلیغ سے لوگوں کو روشناس کرائیں اور
ان ذہنی و فکری تربیت کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا
کریں۔٭معاشرہ میں اسلامی روایات اور ثقافت کو فروغ دینے کے لئے وزارت
اطلاعات ونشریات ،نشریاتی اداروں اور جید علماءکرام پر مشتمل ایک کمیٹی
تشکیل دی جائے اور اس کمیٹی کی سفارشات پر عملدر آمد کو یقینی بنایا جائے۔
٭ملک کے موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ ملکی سطح پر ایک ایسا ادارہ قائم کیا
جائے جو ملک میں شدت پسندی ،انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف اسلامی
تعلیمات کی روشنی میں نوجوانوں کو رہنمائی فراہم کرے اور اصلاح احوال کی
کوشش کرے ،ہم حکومت پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس ادارے کی سر
پرستی کرے اور اس کے لیے ہر ممکن وسائل فراہم کرے۔٭ ملک میں یکساں نظام
تعلیم رائج کیا جائے اور تعلیمی شعبہ کو وفاق کے حوالے کرنے کے لئے بیسویں
ترمیم لائی جائے۔
اسلام آباد( )مجلس صوت الاسلام پاکستان کے زیر اہتمام سہ روزہ عالمی سیرت
کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اسلامی معاشرے میں جاری قتل و غارت
گری،عدم برداشت،خودکش حملے اور دہشت گردی کی کاروائیاں اسلامی تعلیمات کے
صریحاً خلاف ہے ہم ان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں ، اقلیتوں کا تحفظ
ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔مذہبی شخصیات کا احترام ہماری اسلامی تعلیمات
کا حصہ ہے۔آپﷺ کی حیات طیبہ میں معاشرے کی تمام ضروریات اور انسانی زندگی
کے متعلق رہنماء اصول موجود ہیں ۔ملک میں اسلامی تعلیمات کے فروغ ،سیرت نبیﷺ
کی تلقین اور مذہبی و مسلکی ہم آہنگی کے لئے ہم تمام طبقات کو دعوت دیتے
ہیں کہ وہ اس مشن میں ہمارا ساتھ دیں۔ یہ اعلامیہ بدھ کو مقامی ہوٹل میں
مفتی ابو ذرمحی الدین نے سہ روزہ عالمی سیرت کانفرنس کی اختتامی تقریب میں
پڑھ کر سنایا۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ہم امت مسلمہ خصوصاً نوجوان نسل کو
دین اسلام اور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مطہرہ اپنانے کی
دعوت دیتے ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں معاشرے کی تمام
ضروریات اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق رہنما اصول موجود ہیں‘
ہمارے دین اسلام کی بنیاد تعلیم ہے اور تعلیم معاشرے کی سب سے بڑی ضرورت
بھی ہے‘۔ ہم اسلامی ممالک خصوصاً اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں سے
درخواست کرتے ہیں کہ وہ عصر حاضر کی ضروریات اور تقاضوں کو مدنظر رکھ کر
امت مسلمہ کے لیے نظام تعلیم اور نصاب تشکیل دیں‘ اس موقع پر ہم یہ کہنا
بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ تمام طبقات کے یکساں نظام تعلیم اور اس میں عصری
ومذہبی ضروریات کو مدنظر رکھنا اسلامی ممالک کے لیے نہایت ہی ضروری ہے‘ اس
موقع پر ہم امت مسلمہ کو جدید دینی علوم کی طرف متوجہ کرنا اپنی ذمہ داری
سمجھتے ہیں جو یقیناً عالم اسلام کی ضرورت ہیں‘ ہمارے نوجوانوں کو یہ علوم
حاصل کر کے انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کرنا چاہئیں‘ ان علوم کو اسلام
کے خلاف تصور کرنا درحقیقت اسلامی تعلیمات سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہے۔دین
اسلام اور سیرت مطہرہ میں ”نظام حقوق وفرائض“ کو نہایت ہی اہمیت دی گئی
ہے۔ہم اس کانفرنس کے ذریعے امت مسلمہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض
کی ادائیگی کو یقینی بنائیں سب مل کر مشترکہ جدوجہد کے ذریعے معاشرے کے
کمزور افراد کو ان کے حقوق دلانے اور ان کی زندگیوں کی ضروریات پوری کرنے
کی کوشش کریں‘ اسلامی معاشرے میں موجود اقلیتوں کا تحفظ ہم سب کی مشترکہ
ذمہ داری ہے، مذاہب اور مذہبی شخصیات کا احترام ہماری اسلامی تعلیمات کا
حصہ ہیں‘ اس کے ساتھ ساتھ ہم بجا طور پر یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ دنیا کے
دیگر مذاہب بھی دین اسلام اور ہماری مذہبی شخصیات کا احترام ملحوظ رکھیں گے
اور عالم اسلام اور مسلمانوں کی دل آزاری کا باعث بننے والے ہر عمل کی مذمت
کریں گے‘ ہم سمجھتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو
توہین کا نشانہ بنانا اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا چند مٹھی
بھر شر انگیز گروہوں کا ایجنڈا ہے اور ہم سب کو مل کر ان کی شدید مذمت کرتے
ہیں۔ ہم فتنہ وفساد‘ قتل وغارتگری اور دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور
اپنے نوجوانوں کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ ہر قسم کی تخریبی کاروائیوں اور
انسانیت کو نقصان پہنچانے کے ہر عمل سے پرہیز کریں‘ ہمارا مذہب امن وسلامتی
کا مذہب ہے اور ہماری اسلامی تعلیمات میں انسانی جان کی بہت ہی زیادہ قدرو
قیمت ہے۔ آج اسلامی معاشرے میں جاری قتل وغارت گری‘ عدم برداشت‘ خودکش حملے
اور دہشت گردی کی کاروائیاں اسلامی تعلیمات کے صریحاً خلاف ہیں اور ہم ان
کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اسی طرح ہمارے ملک تعلیم کے لیے قائم کیے
گئے اسکولز‘ کالجز اور مدارس کی تباہی ہماری آنے والی نسلوں کو تعلیم سے
محروم کرنے کی سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ تعلیمی اداروں کی تباہی کسی طور
پر اسلام اور پاکستان کی خدمت نہیں ہے۔ ہم اس عمل کی بھی شدید مذمت کرتے
ہیں۔ ہم ایک مرتبہ پھر امت مسلمہ کو رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی
سیرت مطہرہ اپنانے کی دعوت دیتے ہیں اور اس عمل کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں
کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ تعلیمات اور عمدہ صفات کو
اپنا کر ہم اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں ہر اعتبار سے بہتری لاسکتے ہیں۔
آج ہماری سب سے بڑی ضرورت سیرت مطہرہ کو جاننا اور اسے اپنی زندگیوں میں
اپنانا ہے‘ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تحمل وبرداشت‘ عدل
وانصاف‘ رواداری اور وسیع ظرفی کا عمدہ نمونہ ہے۔آج ہماری بڑی بدقسمتی ہے
کہ اسلامی معاشروں میں یہ صفات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آئیے کہ ہم یہ صفات
اپناکر نئی زندگی کا آغاز کریں اور اپنے معاشرے میں موجود نسلی، لسانی،
فرقہ وارانہ ‘شدت پسندانہ اور گروہی تعصبات کو پھیلانے والے عناصر کا سدباب
کرنے کی کوشش کریں۔اس موقع پر ہم اس بات کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ
ملک میں اسلامی تعلیمات کے فروغ‘ سیرت مطہرہ کی تلقین اور مذہبی اور مسلکی
ہم آہنگی کے لیے ہماری خدمات حاضر ہیں اور ہم ملک کے تمام طبقات کو دعوت
دیتے ہیں کہ وہ اس مبارک عمل میں ہمارے ساتھ شریک ہوں اور ہماری خدمات سے
استفادہ کریں اور آخر میں ہم اس بات کا اعادہ ضروری سمجھتے ہیں کہ دین
اسلام کی سربلندی اور استحکام پاکستان کے فروغ کیلئے ہماری سرگرمیاں جاری
رہیں گی۔ |