یہ فیک نیوز یعنی جعلی خبروں کا زمانہ ہے۔
سوشیل میڈیا میں خوش قسمت لوگوں کو ایک فیصد کے آس پاس سچی باتیں پڑھنے
اور دیکھنے مل جاتی ہیں ورنہ بہت سارے لوگ تو صد فیصد جھوٹ پر گزارہ کرتے
ہیں۔ اس طرز زندگی کا اثر انسانی رشتوں اور عشق ومحبت پر بھی ہوا ہے۔ آج
کل جعلی محبت کی ایسی دلچسپ داستانیں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ جن پر یقین کرنا
مشکل ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر ۵ جون (۲۰۱۹)یعنی عید کے دن شالیمار
ایکسپریس میں ممبئی کے لوکمانیہ تلک اسٹیشن پر ایک مشتبہ صندوق ملا ۔ اس کے
اندر وائر اور بیٹری اور جلیٹن کی چھڑیں وغیرہ تھیں ۔ اس خبر سے ٹیلیویژن
چینل والوں کے وارے نیارے ہوگئے کسی نے اس کو دھماکہ خیز اشیاء جیسا تو کسی
نے بم کا سامان بنادیا ۔ اس کے ساتھ ایک نام اور ٹیلی فون نمبر تھا جسے
داعش سے جوڑ دیا گیا۔خط کی اس دھمکی نےاسے زعفرانی بنا دیا کہ ‘ دیکھتے جاو
ہم بی جے پی کاکیا حشر کرتے ہیں؟’ ریلوے پولس سے لے اے ٹی ایس تک حرکت میں
آگئی اور طرح طرح کے اندیشۂ لولاک کا بازار گرم ہوگیا ۔ چند سیاسی مبصرین
نے اس کو صوبائی انتخاب کی تیاری کا پیش خیمہ قرار دے دیا۔
اس سے پہلے کہ یہ پنڈورا کا بکس کسی عفریت کو جنم دیتا دلچسپ حقائق کے
سامنے آنے سے مطلع صاف ہوگیا ۔محکمہ ٔپولس نے ایمانداری سے اس شخص کی تلاش
شروع کردی جس کا فون نمبر ملا تھا۔ تفتیش سے پتہ چلا کہ یہ بلڈانہ ضلع کا
ایک فرد ہے لیکن مزید تحقیق کے بعد انکشاف ہوا کہ یہ کارنامہ اس کے رقیب
روسیاہ کا ہے جو اس کی بیوی کے یکطرفہ عشق میں مبتلا ہے۔ ملزم نے اپنی
معشوقہ کے شوہر نامدار کا فون نمبر مشتبہ سامان کے ساتھ اس لیے رکھا تاکہ
پولس اس کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرلے ۔ اس کی راہ کا کانٹا نکل
جائے اور گلشنِ عشق آ باد ہوجائے۔ پولس نے عاشق نامراد کو اس لیے بہ
آسانی گرفتارکرلیا کیونکہ وہ پہلے بھی اپنی معشوقہ کی شادی ختم کرانے کی
ناکام کوشش کرچکا تھا لیکن اس بار اس کا دام خاصہ خطرناک تھا۔ اپنے اس
منصوبے میں اگر وہ کامیاب ہوجاتا تو ممکن ہے اس کی قسمت چمک جاتی لیکن
تقدیر نے ساتھ نہیں دیا ۔ سرزمینِ بلڈانہ کےاس احمق عاشق پر مومن خان مومن
کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیّاد آگیا
ایک طرف تو جعلی عاشق نے اپنے محبوب کی خاطر دہشت گردی کا جال بنا لیکن
دوسری جانب ایک سچے عاشق کی دلگداز داستان بھی سامنے آئی جو خود انسداد
دہشت گردی کے جال میں پھنس گیا۔ برجو سالا نامی اس عاشق کو عدالت نے عمر
قید کی سزا کے ساتھ ۵ کروڈ جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔ اس تاجر کا
قصور صرف یہ تھا کہ ۲سال قبل ا س نے ممبئی سے دہلی جانے والی پرواز کےحمام
میں ایک دھمکی آمیز خط رکھ دیا تھا جسے کیمرے کی آنکھ نے دیکھ لیا۔ خط میں
لکھا تھا کہ جہاز میں ایک ہائی جیکر دھماکہ خیز مواد کے ساتھ موجود ہے۔ اسی
کے ساتھ پائلٹ کو طیارہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر لے جانے کی ہدایت کی
گئی تھی۔ دھمکی آمیز خط کے بعدطیارہ آناً فاناً احمد آباد میں اتارا گیا
اور بزنس کلاس میں سفر کرنے والے۳۸ سالہ مسافربرجو سالا کو گرفتار کر لیا
گیا ۔ اس معاملے میں تفتیش کے بعد پتہ چلا کہ پہلے سے شادی شدہ برجو نے جیٹ
ایئر ویز کی ایک ائیر ہوسٹس کے عشق میں گرفتار ہوکر اس سے دوسری خفیہ شادی
کررکھی تھی۔ وہ بیچارہ اپنی نئی بیوی کو دہلی سے ممبئی بلانے کی کوشش میں
ناکام ہو چکا تھا کیونکہ بقول شاعر ؎
وہ اور وفا دشمن مانیں گے نہ مانا ہے
سب دل کی شرارت ہے آنکھوں کا بہانا ہے
اپنی معشوقہ کوممبئی منتقل کرانے کے لیےاس نے ایک فلمی انداز کاہائی جیک
ڈرامہ کیا۔ اس کا مقصد جیٹ ائیرویز کو بدنام کرکے دہلی اور ممبئی کے درمیان
پروازیں معطل کرواناتھا ۔ اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے جیٹ ائیرویز کا
دہلی دفتر بند ہوجائے گا یا اس کی بیویملازمت چھوڑ کر اس کے پاس واپس
آجائے گی ۔ عاشق ِ صادق کی بددعا سے جیٹ ائیرویز تو بند ہوگئی لیکن اسے
اپنی معشوقہ سے جدا ہوکر جیل جانا پڑا۔ عدالت کے جج ایم کے دیو اس کو برجو
پر بالکل رحم نہیں آ یا ۔ انہوں نے مسافروں اور جہاز کے عملے کو ذہنی تناؤ
میں مبتلا کرنے کی پاداش میں اس پر۵ کروڈ روپے کا جرمانہ ٹھونکا اور ہوائی
جہازوں کی ہائی جیکنگ روکنے کے لیے بنائے گئے نئے سخت قانون کے تحت اس کو
عمر قید کی سزا سنادی ہے۔برجو کے وکیل روہت ورما اپنے مؤکل کی عمر قید کے
خلاف اپیل دائر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے مگر شاید وہ نہیں جانتے کہ اس
قانون کے تحت عدالت عالیہ سزائے موت بھی سنا سکتی ہے۔ اس سانحہ کو پڑھنے کے
بعد بیک وقت ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی آتا ہے۔برجو پر جگر مرادآبادی
کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
ہم عشق کے ماروں کا اتنا ہی فسانا ہے
رونے کو نہیں کوئی ہنسنے کو زمانا ہے
|