پنجاب حکومت نے فلاحی کاموں پر پابندی عاید کردی ہے،
کوئی تنظیم، گروہ یا این جی او کوئی کارِ خیر سرانجام نہیں دے سکے گی۔ اگر
کسی نے فلاحی کام ضرور کرنا ہے تو اسے حکومت پنجاب محکمہ داخلہ سے اجازت
لینا ہوگی۔ فلاحی کاموں کے لئے چندہ اور زکوٰۃ وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے، یہ
کام اجازت لے کر ہی ہوگا ۔کہا گیا ہے کہ حکومت پنجاب نے یہ قدم کالعدم
تنظیموں کے نام بدل کر کام کرنے کی وجہ سے اٹھایا ہے، ظاہر ہے جب ہر کوئی
حکومت سے اجازت لے کر کام کرے گا تو حکومت کی نگاہ میں رہے گا۔ پاکستان میں
بہت سی ایسی تنظیمیں پائی جاتی ہیں، جو فلاح کے کاموں میں بہت نام اور مقام
رکھتی ہیں ، مگر وہ کسی حد تک خود حکومت کی اور بہت حد تک امریکہ وغیرہ کی
ناپسندیدہ ہیں، اس لئے ان پر اکثر اوقات پابندی ہی عاید رہتی ہے، حتیٰ کہ
ان کو فلاحی کاموں سے بھی روک دیا جاتا ہے اور ضمن میں کام کرنے والے ان کے
سکولوں اور ہسپتالوں کو بھی بند کر دیا جاتا ہے۔ خیر یہ تو حکومتوں کے
مسائل ہیں کہ وہ اپنی رِٹ قائم رکھنے کے لئے کیا کیا اقدامات کرتی ہیں،
اقوامِ عالم کو کس طرح مطمئن رکھتی ہیں ، اور قوم کو جواب دینے کے کیا
طریقے استعمال کرتی ہیں؟
اپنے ہاں تمام تر مسائل کے باوجود فلاحی کام کرنے والوں کی کمی نہیں، بے
شمار تنظیمیں اپنے اپنے طور پر بھر پور طریقے سے کام کر رہی ہیں، بعض
تنظیمیں تو اداروں کی شکل اختیار کر چکی ہیں، نہ اُن کی دیانت پر کسی کو شک
ہے، نہ اُن کی محنت سے کوئی نالاں ہے، نہ اُن کی کوششوں پر کوئی انگلی
اٹھاتا ہے، نہ اُن کے طریقہ کار سے کسی کو اختلاف ہے۔ اُن میں سے بھی کئی
ایسی ہیں جو حکومتوں کی نگاہ میں کھٹکنے لگتی ہیں اور کسی خفیہ وجہ کی بنا
پر حکومت کو اُن پر پابندی لگانی پڑتی ہے۔ بعض تنظیمیں ایسی بھی ہیں، جو
اگرچہ نجی طور پر چلائی جارہی ہیں، مگر حکومت نے بہت سے کاموں میں اُن سے
اشتراک کیا ہوا ہے۔ یعنی حکومت نہ صرف اس کے کام میں مداخلت نہیں کرتی ،
بلکہ ان کی کچھ مالی مدد بھی کی جاتی ہے، یہ دراصل حکومت کا ایسی تنظیموں
پر اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ قوم اپنی زکوٰۃ
اپنی پسند کی تنظیموں یا افراد کو دینا تو پسند کرتی ہے، مگر حکومت کو نہیں،
یہی وجہ ہے کہ یکم رمضان المبارک سے ایک دو روز پہلے ہی یار لوگ اپنے
کروڑوں روپے بینکوں سے نکال لیتے ہیں،تاکہ زکوٰۃ کی سرکاری کٹوتی نہ ہو،
خود ادا کرنا یا نہ کرنا اُن کا ایمان۔
بے شمار ایسے لوگ بھی ہیں جو چندہ یا زکوٰۃ کے حصول کے لئے حکومتی احکامات
کی پرواہ نہیں کرتے۔ ان کے خلاف حکومت قانون بنابنا کر تھک چکی ہے، اقدامات
کر کر کے زچ آ چکی ہے، مگر مجال ہے وہ ٹس سے مس ہوں۔ وہ ہیں بھکاری، آپ نے
کسی بھی چوک، اشارہ، پارکنگ، مارکیٹ یا کسی بھی پبلک کے مقام پر گاڑی روکی،
دس سیکنڈ کے اندر کوئی بھکاری آپ کی گاڑی کے شیشے پر دستک دے رہا ہوگا۔ اس
کا ’’گیٹ اپ‘‘ کوئی بھی ہو سکتا ہے، مثلاً چند ماہ کا بچہ اٹھائے کوئی
خاتون بھی ہو سکتی ہے، جس سے معلوم کرنے کے باوجود کبھی یہ جواب نہیں مل
سکا کہ اس شیر خوار بچے کے والد گرامی کہاں ہیں اور دن میں کیا شغل فرماتے
ہیں؟ طرح طرح کی معذوریاں ظاہر کر کے آپ کے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔ بہت سے
ایسے بھی ہیں جو معذور تو نہیں، مگر معذوری کا بھیس بنا کر نکل کھڑے ہوتے
ہیں۔ بعض اس قدر معذور ہوتے ہیں کہ وہ خود ذاتی طور پر چل پھر نہیں سکتے ،
کوئی خفیہ ہاتھ انہیں صبح سویرے پوائنٹس پر چھوڑ جاتے ہیں اور شام کو اٹھا
کر لے جاتے ہیں، نہ پولیس تحقیق کرنے پر آمادہ ہے، نہ سوشل ویلفیئر جیسے
اداروں کو خیال آتا ہے، یہ مکروہ دھندہ نہایت تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور
’’دردِدل ‘‘ رکھنے والے خواتین وحضرات انہیں اپنی زکوٰۃ اور صدقات دے کر
ثواب دارین حاصل کرنا نہیں بھولتے۔ بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جو بے غرضی کے
ساتھ چندہ اکٹھا کرکے نجی طور پر فلاحی کام کر رہے ہوتے ہیں، کوئی ہسپتال
میں غریبوں کو کھانا پہنچا رہا ہے تو کوئی رمضان المبارک میں افطاریوں کا
اہتمام کر رہا ہے، کوئی غریب بچوں کی تعلیم کا بندوبست کر رہا ہے تو کوئی
نادار بچیوں کی شادی کے لئے سامان مہیا کر رہا ہے۔ بہت سے لوگ یہ کام خفیہ
بھی کرتے ہیں تاکہ نمائش نہ ہو اور دکھاوے ریا کاری سے دور رہا جائے۔ کئی
ایسے کام کر کے اس کی تشہیر بھی کرتے ہیں تاکہ دوسروں کو ترغیب ہو۔ بس نیت
درست ہونی چاہیے۔
فلاحی کام کرنے والی تنظیموں کی رجسٹریشن بلاشبہ وقت کی ضرورت ہے، تاکہ
حکومتوں کو بھی اعدادوشمار کے حصول میں آسانی ہو سکے، اور معلوم ہو سکے کہ
کون کیا کر رہا ہے؟ سرگرمیاں مشکوک تو نہیں؟ اگر اس ضمن میں مذہبی گروہوں
کے بارے میں خدشات ہیں تو نہایت آسانی سے دینی مدارس کی جانچ پڑتال کی
جاسکتی ہے، ایسا ہوتا بھی رہتا ہے، مختلف طبقاتِ فکر کی طرف سے تحفظات کا
اظہار کرنے کے باوجود دینی مدارس سے کبھی کوئی شکایت منظر عام پر نہیں آئی۔
دوسری طرف این جی اوز جب فلاحی کام کرتی ہیں تو اس میں آگاہی اور خود کھا
پی جانے کے علاوہ لگائے جانے والے فنڈز کم ہی دکھائی دیتے ہیں، تاہم
حکومتوں کے لئے یہی مرغوب ہیں۔ تیسری طرف بھکاری ہیں، جو بحیثیت ’’تنظیم‘‘
کے بہت منظم بھی ہیں، ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، اور پورے معاشرے کے
چہرے پر نہایت بد نما داغ کی صورت ہر جگہ موجود ہیں۔ بھیک مانگنا خلافِ
قانون ہونے کے باوجود ایسا دھندہ ہے، تو ملک بھر میں ہر قدم پر پایا جاتا
ہے اور قانون انہیں دیکھ کر آنکھیں پھیر لیتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے
یا دیگر ذمہ دار ادارے خاموشی کی بُکل سے باہر نہیں آتے۔ |