مشی گن کے علاقے یسلانٹی میں ایک غیر معمولی حجام کی
دکان کئی سالوں سے توجہ کا مرکز ہے جہاں بچوں کو بلند آواز میں کتابیں
پڑھنے پر رعایت فراہم کی جاتی ہے۔ اس دکان کے مالک کا انوکھا خیال اب بچوں
اور بڑوں میں بہت مقبول ہوچکا ہے۔ حجام کا کہنا ہے کہ وہ بچوں اور ان کے
والدین سے بہت خوش ہے کیونکہ والدین اپنے بچوں کو یہاں زیادہ تعداد میں
لاتے ہیں یہاں موجودہ کتابوں کی اکثریت کا تعلق امریکی، افریقی آبادیوں کے
متعلق ہے جو بطور خاص بچوں کے لیے لکھی گئی ہیں۔ کتابوں میں افریقی امریکی
(سیاہ فام) عوام کے بارے میں مثبت پیغامات اور کہانیاں درج ہیں۔ بال کٹوانے
والے بچے اگر بلند آواز میں کتاب پڑھتے ہیں تو حجام انہیں رقم کا ایک حصہ
واپس کر دیتا ہے یا بال کاٹنے کی فیس میں رعایت دے دی جاتی ہے۔ اچھی بات یہ
ہے کہ حجام بچوں کو کتاب پڑھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ اس کے مطابق جب بچے
اپنے ہاتھ میں کتاب لیتے ہیں تو اس سے معاشرہ مضبوط ہوتا ہے۔ جب ایک بچہ
کتاب ختم کر لیتا ہے تو اس کے چہرے پر خوشی اور اطمینان دیکھنے سے تعلق
رکھتا ہے، بچے کھیلوں، موسیقی اور گنتی کی کتابیں پڑھ سکتے ہیں اس کے علاوہ
بہت سی کہانیاں بھی یہاں موجود ہیں۔ حجام کے معلوماتی انٹریو کے ساتھ اس کی
تصویر تھی جس میں وہ بچے کے بال کاٹ رہا ہے اور پاس بیٹھے درجنوں بچے
کتابیں پڑ رہے ہیں۔
بچوں میں کتاب بڑھنے کے کم ہوتے رجحان کو بڑھانے کے لیے حجام کا یہ طریقہ
ہمارے لیے بہت سے راہنما اشارے دیتا ہے۔کتاب ہمارا کلچر ہوتا تھا اور
’’اقراء‘‘ ہماری تعلیم۔ ہر مسلمان کو ’’اقراء‘‘ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ
پڑھنا کتنا لازم ہے مگرہم نے کتاب بھی چھوڑ دی اور قرآنی حکم اقراء بھی
بھلا دیا، جو ہم نے چھوڑا وہ ان اقوام نے لازم پکڑ لیا جسے ہم کافر کہتے
نہیں تھکتے انہوں نے ہم سے بہتر قرآن کو سمجھااور کتاب کو ساتھی بنا لیا
یوں وہ ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے گئے اور ہم تنزلی میں گرتے گئے۔
ترقی یافتہ ملکوں کے بڑوں نے کتاب سے فائدہ اٹھایا تو یہ روایت اپنے بچوں
میں بھی منتقل کی اور بچوں کو مطالعہ کا شوق دلانے کے لیے نت نئے طریقے
آزمائے جیسے حجام کی دوکان اور حجام کا طریقہ آپ پڑھ چکے وہ لوگ اب بھی
کتاب پڑھ رہے ہیں اور ہم کہتے ہیں کتاب کے لئے اب وقت نہیں ۔ہمیں بہت سے
مافراد سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ ’’بس یار ٹائم ہی نہیں ملتا‘‘ مگر اس روز
مرہ کی مشینی زندگی میں بھی ہم کبھی کبھاربھرپور شیڈول سے ٹائم نکال کر بچو
ں کو مہینے میں ایک آدھ بار شاپنگ کے لیے ضرور لے جاتے ہیں۔ شاپنگ میں ظاہر
سی بات ہے کہ کم ٹائم نہیں لگتا گھنٹوں صرف ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی ہم بچوں
کو تفریح کے یے بھی ضرور وقت نکال کر پارک لے ہی جاتے ہیں کسی بھی پارک میں
جانے میں بچوں کے کھیلنے کودنے میں دوتین گھنٹے تو لازما صرف ہو جاتے ہیں۔
بالکل اسی مشینی زندگی میں ہم وقت نکال کر اہل خانہ کے ساتھ شام کے کھانے
کے لیے بھی ریستوران پر چلے جاتے ہیں۔ کتنا بھی مشکل شیڈول کیوں نہ ہو ،
کتنی بھی مصروفیت اہم کیوں نہ ہو ہم بہرحال ان کاموں کے لیے وقت نکال ہی
لیتے ہیں مگر ہم اپنے بچوں کے لیے اس کام کے لیے وقت نہیں نکال پاتے جو ان
کے پارک میں کھیلنے کودنے ۔شاپنگ اور ریستوران جانے سے بھی زیادہ اہم ہے۔
اس لیے کہ ہماری ترجیحات میں ہی نہیں ہے حالانکہ ان سب کاموں میں سے اہم
ترین بچوں کو کسی اچھے بک سٹور پر لے کر جانا ہے اور ان کو اچھی اچھی نئی
کتابوں سے آگاہ کرنا ہے یہ وہ کام ہے جو ہمیں خود کرنا چاہیے مگر ہم نہیں
کرتے۔ ہم بچوں کے ساتھ سیر کرنے خود ٹائم نکال کر جاتے ہیں۔ کھانا کھانے
بھی خود جاتے ہیں مگر جب کتاب یا پڑھانے کی بات ہو تو ہم وقت نہیں نکال
پاتے ہم ہزاروں روپے دے کر ٹیوٹر ضرور رکھ لیتے ہیں لیکن اپنے بچے کے پاس
پانچ منٹ کے لیے بھی کوئی کتاب لے کر نہیں بیٹھتے۔ انہیں یہ نہیں بتاتے کہ
مطالعہ زندگی میں بہت اہم ہے۔ یا یہ ایک نئی کتاب آئی ہے اس میں بچوں کے
لیے بہت اہم معلومات ہیں۔
ہم میں سے بہت ہی کم لوگ ہوں گے جو ایک مہینہ تو کیا سال بھر میں ہی اپنے
بچوں کے ساتھ کسی اچھے بک سٹور پر صرف ایک مرتبہ ہی گئے ہوں اور انہیں
مطالعہ کی تلقین کی ہو یا پھر ان میں شوق اجاگر کرنے کے لیے کتابیں گفٹ کی
ہوں۔ ہمیں شاید اندازہ ہی نہیں کہ جتنا تائم ہم بچوں کے ساتھ دیگر کاموں
میں صرف کر دیتے ہیں اس میں سے صرف پندرہ منٹ ہم اپنے بچے کے ساتھ الگ سے
بیٹھ کر کوئی کتاب بیٹے یا بیٹی کو تھما کر اس کی راہنمائی کر کے مطالعہ
میں صرف کر دیں تو اس کے اثرات ان کی زندگی میں انقلاب لا دیتے ہیں آپ اسی
سے اندازہ کیجئے کہ دن میں صرف 15منٹ کا مطالعہ بچوں کے ذخیرہ الفاظ میں
سالانہ دس لاکھ سے زائد الفاظ کا اضافہ کر سکتا ہے۔ریسرچ سے یہ بات ثابت ہو
چکی ہے کہ جو بچے اپنے سکول کے نصاب کے علاوہ بھی کتاب بینی کرتے ہیں ایسے
بچوں کا آئی کیو لیول دوسرے بچوں کی نسبت 6پوائنٹ زیادہ ہو جاتا ہے۔ یعنی
اگر آپ بچوں کو مطالعہ کے لیے اور کتابیں بھی دیں گے تو آپ کا بچہ ان بچوں
سے تعلیم میں بہتر کارگردگی دے جو بچے عام کتابیں نہیں پڑھتے۔ مطالعہ کا
دوسرا بڑافائدہ یہ ہے کہ آپ کا بچہ کسی بھی موضوع پر کھل کر گفتگو کر سکتا
ہے ۔ اسے کبھی بھی کسی سوال پر کسی مجلس میں شرمندگی ٹھانے کی زحمت نہیں ہو
گی۔ امریکی محکمہ تعلیم کے ایک سروے کے مطابق مطالعہ کرنے والے بچوں میں
اعتماد ۔ یادداشت اور قائدانہ صلاحیتیں زیادہ ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ
قومیں اپنے بچوں میں مطالعہ کا شوق پیدا کرتی ہیں اور ترقی پاتی ہیں۔ہم
بچوں کی نشوونما میں ان قوموں کے باقی سب کاموں کی نقالی لازمن کرتے ہیں
مگر ایک مطالعہ کتاب والے کام کی نقل نہیں کرتے۔ بچوں کی سالگرہ ہر سال
مناتے ہیں کیک کاٹتے ہیں۔ لباس ویسا ہی دیتے ہیں موویز دکھاتے ہیں کارٹون
کا نیا والیم لاتے ہیں کپڑے جوتے سب میں کوشش ہوتی ہے مگر نہیں کوشش ہوتی
تو ایک کتاب پڑھانے میں۔ اور ایک یہی کام جو ہم نہیں کرتے باقی سب کام کرنے
کے باوجودبھی پیچھے ہیں اور پیچھے رہیں گے۔بچوں میں کتاب بینی کے دور رس
اثرات کو مغربی قوم کا حجام تو سمجھ گیا مگر مشرق کااستاد نہی۔ |