کچھ باتیں آپ کے لئے نہیں ہوتی ہیں اس لئے اگر ہر بات آپ
کو لگے کہ آپ کے لئےکہی جا رہی ہے تو اپنے آپ اس غلط فہمی سے نکالیں ورنہ
آپ خامخواہ ذہنی اہجھنوں کا شکار ہو جائیں گے اور تعلقات خراب کر لیں گے۔
حد سے گذرنے والے کو اپنی حد میں رکھنا ضروری ہوتا ہے ورنہ مسائل آپ کی
زندگی برباد کر دیتے ہیں۔
اس سرزمین پر رہ کر اس کے خلاف بات کرنے والے غدار ہیں۔
سب قابل برداشت ہو سکتا ہے مگر جب آپ کے کردار پر بات ہو تو پھر ناقابل
برداشت ہو جاتا ہے۔
اپنی ذات پر تنقید برداشت کریں مگر اپنوں پر کوئی بھی بات ہو اُس پر
اسمجھوتہ نہ کیا جائے۔
مصلحت پسندی ایک حد تک ہی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔
ضد بھی کبھی کھبار انسان کو لے ڈوبتی ہے۔
مفاد پرست اپنے مقاصد کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
طبی معالج اگر درد دل رکھتے ہوں تو مریض جلدی صحت یاب ہوتے ہیں۔
محبت کرتےرہنا برُائی نہیں ہے مگر محبوب کے لئے محبت جرم بنوانا بھی درست
طرز عمل نہیں ہے۔
تبلیغ عمدہ عمل ہے مگر اس کی خود سے ترویج شروع کرنا بہترین عمل تصور کیا
جائے گا۔
کبھی کبھی چھوٹے چھوٹے جرائم انسان کو اندر سے تبدیل کرنے کا پیش خمیہ بھی
بن جاتے ہیں۔
سچے لوگ جھوٹ بولنے والوں سے تعداد میں کم ہیں مگر وہی اچھائی کی ترویج میں
مصروف عمل ہیں۔اکثر تنہا فرد ہی تبدیلی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔
ہارتے رہنا اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ آپ کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ہیں
بدترین ناکامیوں کے بعد ہی بہترین کامیابی کا حصول بھی ممکن ہو سکتا ہے۔
سوچ بدلنا مشکل نہیں ہے اس کے لئے حوصلہ بلند کرنا اہم ہوتا ہے۔
باپ سے محبت کا اظہار نہ کرنا زندگی بھر کا شکوہ بن سکتا ہے لہذا کم سے کم
ایک بار ضرور آگاہ کر دیں۔
سانپ کاٹے کا تو علاج ممکن ہے مگر انسان کآٹ کھائے تو انسان مر ہی جاتا ہے۔
دو لوگوں کی خوشگوار زندگی تب برباد ہونا شروع ہوتی ہے جب دونوں یا ایک
فریق لوگوں کی باتوں میں آکر آن کے کہے پر چلنا شروع کر دیتا ہے۔
لوگوں کا کام باتیں بنانا ہے اپنی زندگی کو اُن کی باتوں میں آکر برباد نہ
کریں۔
دکھ تھوڑی دیر کے لئے ہوتا ہے مگر ہم اس کے سائے کو اپنی پوری زندگی پر
پھیلا دیتےہیں یوں ہم خوش نہیں رہ پاتے ہیں لہذا کوشش کریں کہ پرسکون رہنے
کے لئے اس کو ایک خاص حد سے زیادہ اہمیت نہ دیں۔
سچ بولنے والے بلند حوصلہ ہوا کرتے ہیں۔
شہید مرتے نہیں ہیں وہ زندہ رہتے ہیں۔
حالات اور باتیں جتنے بھی کڑوے اور تکلیف دہ ہوں یہ اتنے اہم نہیں کہ زندگی
کو خود کشی کر کے ختم کرلیں۔
معذرت کے ساتھ عرض کرنا ہے کہ کچھ اچھا کرنا ہے تو پھر کیا اُس کی تشہیر
کرنا لازمی ہے؟
دنیا بھر میں سب سے زیادہ اللہ کے نام پر دیتے ہیں مگر پھر بھی اللہ کے نام
پر مانگنے والے باقی ہیں؟
ہر طرف مانگنے والے ہی دکھائی دیتے ہیں لگتا ہے کہ اللہ کے نام پر جو بھی
خیرات دی جا رہی ہے وہ حاصل کر رہے ہیں جو کہ حقدار نہیں ہیں؟
عید کے خطابات میں تلخ حقیقتوں کو سن کر بھی اگر آپ کا ضمیر نہیں جاگتا
ہےتو پھر سمجھ لیں کہ آپ کا اللہ ہی حافظ ہے۔
عید پر آپ سب اُن افراد کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں جو کہ اس دن بھی
محرومیوں کا شکار رہتے ہیں خاص طور پر یتیموں کے لئے تحائف دینا آپ کے لئے
باقی ماندہ سال پُرسکون بنا سکتا ہے اس لئے اس موقع پر چھوٹی خوشیاں دے کر
خود کی نجات کو ممکن بنائیں۔
جس معاشرے میں سچ نہیں پنپ سکتا اُس میں جھوٹ سرایت کر کے اُس کا حلیہ بدل
دیتاہے۔
زندگی میں دوسروں کے لئے بنا غرض کے نیکی کرنا آپ کے مسائل کم کرتا ہے۔
انسان کو اس قابل ضرور ہونا چاہیے کہ لوگ ملنے کے متمنی رہیں۔
قابل فخر یہ بات نہیں ہے کہ ہم با کردار ہیں بلکہ یہ بات ہے کہ ہمارے شر سے
دوسرے محفوظ رہیں اوراُن کی خوشیوں کو برباد نہ کریں۔
دوسروں کی بیٹیوں پر نظر رکھنے والے اپنی بیٹی کو ہزار پردوں میں قید رکھنے
کا سوچتے ہیں۔
ایسے مرد بنو کہ ثابت ہو جائے کہ مرد ایسے غیرت مند بھی ہوتے ہیں، ایسے مرد
نہ بنو جس پر تمہاری مردانگی ہی مشکوک ہو جائے۔
کچھ پانے کے لئے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے، جب جا کر انسان وہ سیکھتا ہے جو
ساری عمر کا حاصل بنتا ہے۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہ جب مشکلات اور مسائل ذیادہ ہوں تب وہ دبائو کے
باوجود اپنی منطق اور ذہانت کی بدولت جو کہ اُن میں تخلیقی صلاحیتوں کا منہ
بولتا ثبوت ہوتی ہے کچھ ایسے نظریے اوررویے سے حالات کو اپنی طرف کر لیتے
ہیں اور ایسے افراد ہی اہم اداروں پر فائز ہوتے ہیں جو کہ دبائو میں ہو کر
بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
جب تک آپ خود بلند حوصلہ ہو کر کچھ کرنے کا نہیں سوچیں گے، دوسرے کتنی ہی
ہمت دلوا دیں آپ کچھ بدل نہیں سکتے ہیں۔
امن و سلامتی کا درس دینے والے دین کے پیرو کاروں کو ایسا طرز عمل اخیتار
سے گریز کرنا چاہیے جو اس کی تعلیمات کے منافی ہو۔
’ معذورانسان‘‘ کہلوانے والے کسی بھی طور حوصلے ہارنے والے نہیں ہوتے ہیں
،وہ اپنی زندگی میں ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرکے یہ ثابت کردیتے ہیں کہ
’’معذوری جیسے کوئی بھی شے کسی بھی فرد کی صلاحیتوں کو منوانے سے نہیں روک
سکتی ہے اورنہ ہی معذوری صلاحیتوں میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔ ‘‘
میرے نزدیک معذوری وہ ہے جب آپ اپنے خواب دیکھ لیں مگر اس کے حصول کے لئے
کسی جہدوجہد سے گریز کریں ،وقت کی کمی، نصیب اور قسمت پر ،حالات کو قصور
وارٹھہرا دیں،اگر آپ کی سوچ مثبت نہیں ہے اور منفی قول و فعل کے حامل ہیں
تو پھرآپ معذور کہلانے کے قابل ہیں کیونکہ جو کسی بھی طور معذوری کا شکار
افراد ہیں وہ اگر مثبت طر ز فکر سے اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کی
خواہش رکھتے ہیں اور آپ صحت مند ہو کر بھی ایسا نہیں کر سکتے ہیں تو آپ
ازخود معذور ہیں۔
۔آپ نے اگر بغور مشاہدہ کیا ہو تو جسمانی طور پر معذور شخص اگر بھکاری ہے
تو اُس میں اس قدر صلاحیت ضرور موجود ہوتی ہے کہ وہ عمدہ اداکاری سے جسمانی
طور پر صحت مند شخص کے دل کو رنجیدہ کر کے کچھ نہ کچھ رقم اپنے گذر بسر کے
لئے حاصل کر سکے،یہی بات ایک دفعہ پھر سے ثابت ہو جاتی ہے کہ جسم معذور ہو
سکتے ہیں مگر صلاحیتیں معذور نہیں ہو سکتی ہیں۔
خودپسندیدگی جب جنون بن جائے تو پھراپنا آپ ہی اچھا لگا ہے مگرمحض ایک
تصویر کی خاطر زندگی کے حسین لمحوں کو برباد کرنا بے وقوفی ہے۔
شہرت یافتہ افراد کے ساتھ تصویر کا شوق اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہوگا مگر
انسان کو اس قابل ہونا چاہیے کہ بنا تصویروں کے بھی لوگوں کے دلوںمیں جگہ
بنائے رکھے۔
دوسرے آپ سے بات کریں نہ کریں مگر آپ کو پہل کر کے اپنی بات ضرور کر لینی
چاہیے۔مگر ابتدا ایسی ہو کہ آپ تلخی کی جانب نہ جائیں۔
|