سرکاری ملازمتوں میں ترقیاں اور تبادلے ہو نا معمول کی
ایک کاروائی ہے اور بسا اوقات یہ کام قبل از وقت بھی ہو جاتے ہیں اور خاص
کر وقت سے پہلے تبادلہ ہو جانا کوئی غیر معمولی عمل نہیں سمجھا جاتا۔یہی
صورت ِحال فوج میں بھی ہوتی ہے بلکہ سول اداروں سے زیادہ ہوتی ہے ہاں یہ
ضرور ہے کہ اعلیٰ سطح پر ایسا کم ہوتا ہے لیکن اسے خارج ازمکان قرار نہیں
دیا جا سکتا اور اکثر ہوتا رہتا ہے اور اس بار بھی ایسا ہی ایک قبل از وقت
تبادلہ اور نئی تقرری ہوئی اور وہ تھی ڈی جی آئی ایس آئی عاصم منیر کی
تبدیلی اور نئے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی تقرری۔اگر چہ ان کی ترقی
معمول کے مطابق ہوئی اور تقرری بھی غیر معمولی نہیں تاہم حساس ادارے کے
پُرانے سربراہ کی تبدیلی وقت سے پہلے ہوئی اور اسی بات کو بعض حلقوں نے غیر
ضروری طور پر اُچھالنے کی کوشش کی اور یہ تاثر بھی پیدا کرنے کی کوشش ہوئی
کہ یا تو پُرانے ڈی جی کا کام تسلی بخش نہیں تھا اور یا نئے ڈی جی کو نوازا
گیا ہے اور یوں اپنی ہی فوج کو ایک بار پھر نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی
ہے۔افواجِ پاکستان کی ایک سخت منفی رویے کی حامل ناقد محترمہ عائشہ صدیقہ
نے اپنے ایک مضمون میں ا س تبدیلی اور تقرری کوانتہائی منفی انداز میں پیش
کیاہے اور اسے موجودہ آرمی چیف کی ذاتی پسند اور ناپسند کا نتیجہ قرار دیا
ہے کہ جنرل باجوہ نے اپنے ایک دوست کو آرمی چیف بنانے کی دوڑ میں شامل کر
دیاہے، یوں فوج کے شفاف سسٹم کو مشکوک بنانے کی تگ ودو کی گئی۔ خوبیاں اور
خامیاں کہیں بھی ہوتی ہیں اور پاک فوج بھی انسانوں کا ہی ایک ادارہ ہے لیکن
ہمارے کچھ تبصرہ اور تجزیہ نگار اس تاک میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کسی طرح کسی
معمول کی ہی کاروائی کو ہی لے کرفوج کو بدنام کر دیا جائے اور نام کما لیا
جائے۔ہماری انہی عائشہ صدیقہ صاحبہ جو کبھی پاک نیوی میں نوکری کرتی تھیں
نے اسی طرح پاک فوج کے خلاف لکھ کر ہی پہلی پہلی شہرت حاصل کی۔ان کی کتاب
”ملٹری ا ِن کارپوریٹڈ“میں پاک فوج کو عسکری سے زیادہ ایک تجارتی ادارہ بنا
کر پیش کیا۔رپورٹس کے مطابق یہ کتاب بھارت میں بیٹھ کر لکھی گئی اور ان
محترمہ کی گاڑی ان دنوں بھارتی سفارت خانے میں پائی جاتی تھی۔ انہوں نے پاک
فوج کے تحت چلنے والے سکولوں تک کو تنقید کا نشانہ بنایا جو اُس کے من پسند
بھارت کے اند رپاکستان سے زیاد ہ پُرانے اور زیادہ تعدادمیں موجود ہیں۔
انہی شہرت کے شکاری خواتین وحضرات کو ایک طرف پاکستان آرمی کے بجٹ پر
اعتراض ہوتا ہے جو عاعشہ صدیقہ کو بھی بُری طرح ہے اور دوسری طرف جب آرمی
اپنی ویلفیئر سکیموں کے لیے خود محنت مشقت کر کے کچھ پیسے بناتی ہے تو اسے
”ملٹری اِن کار پوریٹڈ“ کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بیرونی
سرمایہ کاروں کو تو منت سماجت کر کے اور مختلف مراعات دے کر بلا یا جاتا ہے
لیکن جب ایسی ہی سرمایہ کاری اپنی ہی فوج اپنے ریٹائرڈ افسروں اور جوانوں
کی فلاح و بہبود کے لیے اُنہیں کے ذریعے اُنہیں کے لیے کر لے تو اس کو
بدنام کرنے کے لیے کتابیں لکھ لی جاتی ہیں خیرمحترمہ کی اس کتاب پر تو
جواباََ میں 2008 میں ایک مضمون لکھ چکی ہوں لہٰذا اس کی مزید تفصیل میں
نہیں جاوئں گی لیکن یہی وہ کتاب تھی جس سے لوگوں کو خبر ہوئی کہ عائشہ
صدیقہ بھی کوئی ہے۔ اب ایک بار پھر یہ خاتون معمول کے عمل کو متنازعہ بنانے
پر آمادہ ہو گئی ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کوئی بھی ہو
بات اس ادار ے کی ہے کہ یہ ادارہ کیا کر رہا ہے اس کی پالیسی کیا ہے اور
بات اہم یہ ہے کہ اس کی پالیسی سربراہوں کی تبدیلی سے تبدیل نہیں ہوتی اس
نے ملک کی حفاظت ایک خاص طریقے سے کرنی ہے اور ہر صورت کرنی ہے چاہے کسی کو
اچھا لگے یا بُرا لگے۔ عائشہ نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا ہے کہ پیشہ
ورانہ طور پر ایک کمزور افسر کو اس اہم ترین ایجنسی کا سربراہ بنایا گیا ہے
ویسے یہ بات حیرت انگیزہے کہ فوج میں تو بہت اچھے اچھے افسران کسی معمولی
کمی کی بنا پر ترقی نہیں پالیتے تو ایک کمزور افسر کس طرح لیفٹیننٹ جنرل کے
عہدے پر پہنچ گیا انہوں نے ان کی کمزوری کے طور پر یہ ثبوت پیش کیا ہے کہ
انہیں بطور ڈویژن کمانڈر پنوں عاقل میں غیر اہم سولہ انفٹری ڈویژن کی کمانڈ
دی گئی لیکن یہ لکھتے ہوئے وہ بھول گئیں کہ فوج کا کوئی بازو غیر اہم نہیں
ہوتا اور یہی حیثیت سولہ انفٹری ڈویژن کی ہے لہٰذایہ بات انتہائی غیر معقول
ہے کہ کسی کمزور جرنیل کو اس ڈویژن کا جی او سی لگایا جائے گا۔ بہر حال
مسئلہ سولہ یا دس ڈویژن کا نہیں مضمون نگار کے کسی ذاتی عنا دکا ہے جو
خودکو دفاعی تجزیہ نگار کہتی ہیں لیکن یہ بھول جاتی ہیں کہ تجزیہ نگار یا
نا قد ہمیشہ منفی نہیں ہوتا کبھی مثبت پہلوؤں کا جائزہ بھی لیتا ہے اپنے
اسی مضمون میں یہ خاتون ایک بار پھر آئی ایس آئی کو سیاسی معاملات اور
تبدیلیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کر رہی ہیں اور لیفٹیننٹ جنرل فیض کی
تقرری کو موجودہ حکومت کی حفاظت کا ذریعہ سمجھ رہی ہیں کہ وہ عوام کو اس
حکومت کے خلاف سڑکوں تک آنے سے روکے یعنی وہی پُرانا الاپ کہ حکومت بنانا
اور گرانا آئی ایس آئی اورفوج کی مرضی سے ہے بات تو یہ ہے کہ آخر یہ الزام
ہماری فوج پر ہے یا ہمارے سیاستدانوں پر یعنی کیا فوج حکومت چلانے نہیں دے
رہی یا سیاستدان اس کو چلا نہیں پا رہے اس لیے فوج کو مداخلت کرنا پڑتی ہے
اور یا ہمارے تجزیہ نگار اور خود کو دانشور سمجھنے والے صحافی دونوں طرف کے
لوگوں کو قابو کرنے کی کو شش میں مبتلا ء رہتے ہیں، زیرتذکرہ مضمون نگار
بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں جس کا کام صرف اور صرف فوج کا ایک منفی
تاثر اُبھارکر نام کمانے کی کوشش کرنا ہے اور یہ ایک مخصوص بیرونی دنیا سے
خوب داد اور شہرت وصول کر لیتے ہیں اور اس کے عوض انہیں اور بھی بہت کچھ
ملتا ہے اور ملتا ہی رہتا ہے یہ اور بات ہے کہ اس شہرت کو حاصل کرنے کے لیے
وہ اپنے ملک کا جو نقصان کر لیتے ہیں وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے لیکن اس گروہ
میں شامل ان صحافیوں کو صرف اپنی شہرت اور اپنی دولت سے غرض ہے ملک اور اس
کے اداروں کے امیج کی انہیں کبھی کوئی پرواہ نہیں رہی اور اسی لیے اِس عام
سی غیر معمولی کاروائی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔اِن خواتین و حضرات
کو صرف اپنے ذاتی مفادات سے غرض ہے لہٰذا عوام کو ایسے مفاد پرستوں سے مکمل
طور پر آگاہ رہنا چاہیے تاکہ ایسے عنا صر کی حوصلہ شکنی ہوتی رہے۔
|