اشتہارات اور بے راہ روی ۔۔۔یہ سیلاب کون روکے گا؟

ایڈورٹائزنگ کمپنیاں اپنی پروڈکٹ کے فروغ کے لیے نت نئے اشتہارات بناتی ہیں ۔ پروڈکٹس کی سیل میں اضافے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی کہ اشتہارات میں جدت ہو اور ناظرین کو متوجہ کرے ۔ دنیا بھر میں عورت کی نمائش کرکے چیزیں بیچنا ایک عام بات ہے، یہ سب اب پاکستان میں بھی معمول کی بات بن چکی ہے ، شیونگ کریم ہو یا بلیڈ کا اشتہار صنف نازک کی نمائش کو لازمی سمجھا جاتا ہے۔ چہرے کی کریم ہو ، ویسلین ہو یا ہاتھ دھونے کا صابن ہو، الغرض کچھ بھی ہو تو وہ عورت کے نیم برہنہ اشتہار کے بغیر مارکیٹ میں نہیں آتی۔ موجودہ دور میں پروڈکٹ کے اشتہار کو جنسی جذبے سے بھی وابستہ کردیا جاتا ہے ۔ ٹی وی پر نشر ہونے والے پروگرام اور اشتہارات کے ذریعے پہلے ہی اخلاقیات اور مشرقی اقدار کا جنازہ نکالا جاچکا ہے اور اب مذہب بھی ان اشتہارات کی زد سے باہر نہ رہ سکا۔

فروری 2015ء میں کیو موبائل کمپنی نے Noir-Z7موبائل متعارف کرایا، اس کا اشتہار ٹی وی پر دیا جس میں نیم برہنہ انگریز لڑکیاں چست لباس میں دکھائی گئیں۔ آخر میں برازیل سے تعلق رکھنے والی ماڈل Larissa Bonesiاس موبائل کے متعلق کہتی ہے کہ The Sexiest Phone in the World۔ اس اشتہار کے بعد غیرت مندوں نے بیہودگی پر احتجاج کیا لیکن پیمرا سمیت کسی حکومتی عہدیدار کو کوئی اثر نہیں ہوا۔ حکومت کے اس رویے سے کیو موبائل کمپنی کو شہ ملی اور اس نے دو ماہ بعد ہی ایک اسلام مخالف اشتہار نشر کردیا۔ اپریل 2015ء میں کیو موبائل کا اشتہار آیا جسمیں بظاہر موت کے فرشتے کو دکھایا گیا ہے کہ وہ ایک لڑکے کی روح قبض کرنے کے لیے آتا ہے اور کہتا ہے کہ چلو بیٹا ٹائم ختم، کوئی آخری خواہش؟ اس پر لڑکا کہتا ہے کہ جب تک میرے فون کی بیٹری چلے اس وقت تک انتظار کرلیں۔اس پر موت کا فرشتہ رضامند ہوجاتا ہے اور انتظار کرنے لگتا ہے۔ اب لڑکا اِس وقت کو خوب انجوائے کررہا ہوتا ہے، کبھی فلم دیکھتا ہے تو کبھی گانے سنتا ہے۔ کبھی فون پر بات کررہا ہوتا ہے۔ اِس دوران موت کے فرشتے کو دکھایا جاتا ہے کہ وہ تنگ آگیا ہے کہ کب اس موبائل کی بیٹری ختم ہو اور وہ روح نکالے کیونکہ بیٹری بیس دن تک چارج رہتی ہے۔ مزید بے غیرتی یہ کہ اس اشتہا رمیں فرشتے کی شکل ایسی بنائی گئی ہے کہ جیسی ڈراموں اور کارٹونز میں جنوں اور شیطانوں کی بنائی جاتی ہے۔ مقام افسوس یہ کہ اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور نہ ہی اس اشتہار کو روکا گیا۔ دسمبر 2015ء میں موبی لنک نے اپنا ایک نیا اشتہار شائع کیا جس میں نرگس فخری کوہاتھ میں موبائل پکڑے اوندھے لیٹے ہوئے بیہودہ حالت میں دکھایا گیا تھا۔ اور یہ اشتہار پاکستان کے اکثر و بیشتر اخبارات کے پہلے صفحے پر شائع ہوا۔ اخبارات کے پہلے صفحے پر کبھی بھی اس طرح کا بیہودہ انداز میں کبھی شائع نہیں ہوا تھا، یہ ایک آغاز تھا جس نے بعدمیں دوسری کمپنیوں کی ہمت بڑھائی۔ اس اشتہار پر بھی غیرت مند لوگوں نے آواز اٹھائی لیکن لبرل پسند حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

مئی 2017ء میں کیو موبائل نے ایک مرتبہ پھر E1 موبائل کا اشتہار دیا۔ اس اشتہار میں پاکستانی اداکار فہد مصطفیٰ بطور ماڈل جلوہ گر ہوئے، جس میں دکھایا گیا کہ وہ کسی لڑکی سے ملاقات کرنے جانے والے تھے تاہم ان کے موبائل کی چارچنگ ختم ہوگئی، جس کے باعث وہ لڑکی کسی اور کے ساتھ چلی گئی۔اس اشتہار پر شدید انداز میں آواز اٹھائی گئی اور اس اشتہار پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا تو پھر کہیں جاکر ایک مہینے بعد پیمرا کو ہوش آیا اور اس نے ایکشن لیا۔ ایک مہینے بعد پیمرا نے پریس ریلیز جاری کی کہ ’’کیو موبائل ای ون‘‘ کے اشتہار میں ایسا مواد نشر کیا جارہا ہے جو ناشائستہ اور اخلاقیات کے عمومی قابلِ قبول معیارات کے برعکس اور پیمرا قوانین کی بیشتر شقوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا پیمرا آرڈیننس 2002(ترمیمی ایکٹ 2007)کی دفعہ (a)27کے تحت کیو موبائل ای ون کے اشتہار پر مورخہ 10جون 2017ء بروز ہفتہ شام 6بجے سے مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔خلاف ورزی کرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف پیمرا آرڈیننس2002(ترمیمی ایکٹ 2007)کی سیکشن29اور 30کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ اس بیہودگی پر کیا کارروائی ہوئی ؟ حقیقت یہ ہے کہ کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ کیونکہ اگر اس پر کارروائی ہوتی ، مقدمات بنتے او ر جرمانے عائد ہوتے تو اس کے بعد کسی کی ہمت نہیں ہوتی اس طرح کے بیہودہ اشتہارات چلانے کی۔

مارچ 2019ء میں آن لائن ٹیکسی سروس نے بائیک سروس کا آغاز کیا تو اس کا اشتہار اس طرح دیا کہ لال کلر کے عروسی لباس میں ایک لڑکی دکھائی جو ہاتھ بڑھارہی ہے، اور اوپر لکھاہوا ہے کہ ’’ اپنی شادی سے بھاگنا ہو تو کاریم بائیک کرو‘‘۔ اس اشتہار کو باقاعدہ بڑے بڑے سائن بورڈ زپر لگایا گیا۔ اس اشتہار کے بعد غیور پاکستانیوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے کاریم کمپنی کو یہ اشتہار اتارنے پر مجبور کیا۔ اس اشتہار پر حکومت کی طرف سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اس پر کاریم کی ترجمان مدیحہ قریشی سے بات کی گئی تو انہوں نے اپنا مؤ قف بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ اشتہار دراصل ہماری کمپنی کے اُن باقی اشتہارات کی ایک کڑی ہے جس کا مقصد مزاحیہ انداز میں بائیک سروس کی تشہیر کرنا تھا۔ کتنے دھڑلے سے مدیحہ قریشی نے اس اشتہار کو مزاحیہ اشتہار کہہ دیا۔ حالا نکہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اس اشتہار میں کوئی مزاحیہ پہلو نہیں ہے۔ سیدھا سیدھا لڑکیوں کو گھر سے بغاوت پر اکسانا ہے۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی، جب کمپنیوں کے ایسے اشتہارات پر حکومتی سطح پر کوئی روک ٹوک نہیں لگائی گئی تو انہوں نے مزید حدیں پار کرنا شروع کردیں۔ ابھی چند دنوں پہلے جون 2019ء میں ایریل (Ariel)کمپنی نے ’’سرف ‘‘ کا اشتہار نشر کرایا جس میں عورت کا چار دیواری میں رہنے کو ایک داغ قرار دیا۔ اشتہار اس طرح ہے کہ پہلے ایک جملہ آتا ہے کہ تم ایک لڑکی ہو، اس پر بڑا سا داغ بنا ہوا ہے۔اس کے بعد جملہ دکھایا جاتا ہے کہ پڑھ لیا اب گھر سنبھالو، اس پر بھی بڑا سا دھبہ بنایا ہوا ہے ۔ پھر آتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، اس جملے کو بھی داغدار کیا ہوا ہے ۔ پھر آخر میں لکھا ہوتا ہے کہ چار دیواری میں رہو۔ یہ چار جملے دکھانے کے بعد اس اشتہار کی اصل کردار پاکستان ویمین کرکٹ ٹیم کی کھلاڑی بسمہ کہتی ہے کہ یہ صرف جملے نہیں ، داغ ہیں۔ پھر پانچ خواتین ایک ساتھ کھڑے ہوکر کہتی ہیں کہ یہ داغ ہمیں کیا روکیں گے۔ یعنی خواتین اور لڑکیوں کو چار دیواری میں رہنے کو ایک داغ قرار دیا ہے۔ یقنی طور پر ایریل کمپنی کا یہ اشتہار صریحاً اسلامی شعار کا مذاق ہے، گستاخی ہے۔کیا وجہ ہے کہ ہر چند مہینوں بعد کوئی ایسا اشتہار سامنے لایا جاتا ہے جو یا بیہودگی پر مبنی ہوتا ہے یا پھر اسلام کے کسی اصول کے مخالف ہوتا ہے۔ اور پھر شدید احتجاج کے باوجود اس پر ایکشن نہیں لیاجاتا ۔ اس سے تو یہ بات نظرآتی ہے کہ معاشرے میں بے حیائی، بے غیرتی ، فحاشی ، عریانی اور اسلام مخالف سرگرمیوں کے آگے پیمرا سمیت حکومت کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں ۔ اس میں کوئی دو رائے اور شک نہیں ہوسکتا کہ ایسے بیہودہ، غیر اخلاقی اور اسلام مخالف اشتہارات پر پیمرا اور حکومت پاکستان کی جانب سے مکمل خاموشی اِس تمام عمل کی سب سے بڑی معاون نظر آتی ہے۔ اگر حکومت معاون نہیں ہوتی تو کب سے ان کمپنیوں پر پابندی لگاچکی ہوتی اور انہیں نشانِ عبرت بناچکی ہوتی اور اس کے بعد کبھی کسی کمپنی کو اس طرح کے اشتہارات بنانے کی جرأت نہیں ہوتی۔ بہرحال یہ سلسلہ تھمنے کے بجائے مزید بڑھ رہا ہے۔ اب پانی سر سے گزرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ معاشرے پر اس کے برے اثرات مرتب ہورہے ہیں اور بچوں کو وقت سے پہلے بڑا کرنے اور باعزت گھرانے کی لڑکیوں کو بغاوت پر اکسانے اور انہیں بے راہ روی کے راستے پر لگانے میں بیہودہ ڈرامے اور ایسے اشتہارات بہت بڑا کردار ادا کررہے ہیں ۔ اگر اب بھی ان سرگرمیوں کو نہیں روکا گیا تو معاشرے کی بچی کھچی اخلاقیات اور غیرت مندی بھی فحاشی اور عریانی کے سیلاب میں بہہ جائے گی۔ پیمرا سے گزارش ہے کہ ایسے اشتہارات پر سختی سے نوٹس لے کر ایکشن لے اور ذمہ داروں کو نشان عبرت بنائے۔

Muhammad Riaz Aleemi
About the Author: Muhammad Riaz Aleemi Read More Articles by Muhammad Riaz Aleemi: 79 Articles with 75965 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.