سوشل میڈیا ایک ایسا موضوع ہے، جس پر ہر دوسرے ملک میں نہ
صرف بہت زیادہ لکھا گیا ہے بلکہ جدید ترین تعلیمی اداروں میں اس پر
تحقیقاتی کام بھی کیا گیا۔ سوشل میڈیا انسانی کردار اور رویوں کو پرکھنے
میں بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں سماجی رابطے کی بہت
ساری ویب سائٹ کام کر رہی ہیں۔جن کا بنیادی مقصد پروفیشنل اور ہم خیال
افراد کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا، جہاں وہ اپنے خیالات اور
تجربات شیئر کرتے ہوئے اس سے استفادہ کرسکیں۔سماجی رابطے کی اہم ترین ویب
سائٹس میں فیس بک، ٹوئیٹر، لنکس ان، واٹس اپ،انسٹا گرام، اسنیپ چیٹ شامل
ہیں۔ تاہم فیس بک زیادہ استعمال میں رہتی ہے، جس کے یوزرز کی تعداد بھی
کروڑوں میں ہے۔ میں ذاتی طور پر اس بات سے انکارنہیں کر سکتی کہ میری اپنی
زندگی میں فیس بک اور واٹس اپ کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ تاہم یہ استعمال
ایک عام انسان نہیں بلکہ کالم نگار، شاعر اور ادیب کے طور پر ہے۔ لوگوں تک
اپنا پیغام پہنچانے اور نظریات کے تبادلے کا اہم اور تیز رفتار ذریعہ۔اس کے
ساتھ ساتھ لوگوں کے سیاسی اور سماجی رویوں کو سمجھنے کے لیے بھی سوشل ویب
سائٹس میرے لیے بہت معاون ثابت ہو رہی ہیں۔سوشل میڈیا سے مجھے نہ صرف ہم
خیال افراد کا ساتھ ملا بلکہ علمی طور پر بھی مجھے اس کا فائدہ ہی ہوا ہے۔
سوشل میڈیا کے اثرات پر تحقیق کرنے والے اداروں کا کہنا ہے، لوگوں کے نظریا
ت، رحجانات اور مزاج کو سمجھنے کے لیے فیس بک سے زیادہ بہتر جگہ کوئی نہیں۔
تاہم اس وقت سوشل میڈیا کی یہ بڑی بڑی سائٹس ایک ایسے کاروبار کا حصہ بن
چکی ہیں جو انسانیت کے لیے ناسور بنتا جا رہا ہے۔جس کے بارے ان حالات میں
آگاہی رکھنا بہت زیادہ ضروری ہے جب ہمارے ہاں کم سن بچے بچیاں جنسی زیادتی
کا شکار ہو رہے ہیں۔رپورٹس کے مطابق سماجی رابطوں کی معروف ویب سائٹ فیس بک
کے پاکستانی صارفین کی تعدادایک کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ انٹرنیٹ پر فیس بک کے
اعدادوشمار بتانے والی ویب سائٹ سوشل بیکرز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان فیس
بک استعمال کرنے والے بڑے ممالک کی فہرست میں28ویں نمبر پر آچکا ہے۔
دنیا بھر میں سب سے زیادہ فیس بک امریکہ میں استعمال کی جاتی ہے جس کے
صارفین کی تعداد16 کروڑ سے زائد ہے، جبکہ برازیل 6 کروڑ صارفین کے ساتھ
دوسرے اور بھارت 5 کروڑ افرادکے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔گزشتہ چندماہ کے
دوران پاکستان میں فیس بک صارفین کی تعداد میں کئی لاکھ افراد کا اضافہ
ہوا۔ سوشل بیکرز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 40لاکھ کے قریب فیس بک
صارفین کی عمر 18 سے24 سال کے درمیان ہے، جبکہ صارفین کے دوسرے بڑے گروپ
میں24 سے 35سال تک کی عمر کے افراد شامل ہیں۔اس وقت پاکستان میں فیس بک
استعمال کرنے والے افراد میں70 فیصد مرد جبکہ خواتین کی تعداد30 فیصد
ہے۔نیویارک پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق’’چائلڈ پورن، فیس بک پر دوبارہ تیزی
سے فروغ پا رہا ہے۔فیس بک کے ٹول استعمال کرتے ہوئے بی بی سی نے بچوں کی سو
فحش تصاویر فیس بک انتظامیہ کو رپورٹ کیں، جس میں سے صرف18ہٹا دی گئیں۔اس
کے علاوہ فیس بک کو کوئی 5ایکٹیو فیس بک اکاؤنٹس کے بارے میں اُن کے قوانین
کی رو سے واضح شکایت کی گئی کہ یہ لوگ ’’پیڈوفائلز‘‘ ہیں، مگر کوئی ایکشن
نہیں لیا گیا۔‘‘(پیڈو فائلز، اُس ذہنی مرض کا نام دیا گیا ہے جس میں کوئی
شخص کم سن بچوں سے جنسی خواہشات کی تکمیل چاہتا ہے)۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے
ایک اور اہم پلیٹ فارم انسٹا گرام کا ذکر بھی ہو جائے، جس کا استعمال
پاکستان میں بھی تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔اس وقت انسٹا گرام کے 800ملین یعنی
80کروڑ صارفین ہیں،اور بی بی سی کی ہی تحقیق شدہ رپورٹ کے مطابق بچوں کی
فحش تصاویر کا ایک بڑا اڈا بنا ہوا ہے اور باوجود شکایات کے وہ تصاویر جو
خود اُن کے بنائے قوانین کے برخلاف ہیں،ہٹائی نہیں جا رہیں۔ٹائم میگزین میں
کریگ گراس (بانی آئی پیرنٹ ٹی وی) کی تین سال قبل کی ایک رپورٹ کے مطابق
انٹرنیٹ پر 20ملین یعنی دو کروڑ فحش سائٹس موجود ہیں۔رپورٹ کے مطابق ٹمبلر
اور اسنیپ چیٹ نے جس طرح سے نوجوان نسل کو پورن و گرافی کی لت میں مبتلا
کیا ہے اُس کا کوئی توڑ نظر نہیں آ رہا۔اُس رپورٹ کے مطابق اگر والدین خود
اپنے بچوں کو اس کا مثبت استعمال نہیں سکھائیں گے توپھر خرابی کے راستے
کھولیں گے۔پاکستان میں آپ ٹرینڈ دیکھیں تو آپ کو یوٹیوب پر، فیس بک پر سب
سے زیادہ مقبول اور وائرل تصاویر اور ویڈیوز بھی وہی ملیں گی جن میں فحاشی
و عریانی کا عنصر ’’چٹپٹے‘‘اور ایسے انداز سے پیش کیا گیا ہو کہ بس آپ نے
اُسے ہر حال میں دیکھنا ہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے 2009میں کیے گئے ایک
سروے کے ہولناک اعداد و شمار شاید آپ کو کچھ سمجھا سکیں۔ اس سروے نے دنیا
بھر سے (بذریعہ انٹرنیٹ)چائلڈ پور نو گرافی کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی
کا تخمینہ 20ارب امریکی ڈالر لگایا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ چائلڈ پور نو گرافی
دنیا بھرکے قوانین میں جرم ہے۔یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق20لاکھ بچے
دنیا بھر میں مختلف انداز سے زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں۔یہ تو ایک سر سری
سی جھلک تھی اُن اعداد و شمار کی جو یہ سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ کس طرح
سوشل میڈیا سماجی رابطوں کی آڑ میں جنسی بے راہ روی بلکہ بدترین جنسی دہشت
گردی کا سامان بناہوا ہے۔
پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کا استعمال بہت زیادہ ہو رہا ہے،اس کے ساتھ کم
عمر بچوں کے خلاف جرائم اور کم عمر بچوں میں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ
جاری ہے۔ معاشرہ جس بگاڑ کا شکار ہو چکا ہے،اس پر موئثر قانون سازی کے
ساتھ،سماجی چیک اینڈ بیلنس انتہائی ضروری ہے۔اس وقت استاد، مدرسہ اور مکتب
کی اہمیت ماضی سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے اورغفلت کی نیند سوئے ہوئے والدین
کو بھی جاگنا ہو گا۔مجھے اندازہ ہے کہ ہم اپنی نسل کو سماجی رابطوں سے دور
نہیں رکھ سکتے مگر ہم ان پر نظر تو رکھ سکتے ہیں۔ وہ کیا کر رہے ہیں اور
کیا نہیں؟کیسے افراد سے رابطے میں ہیں؟ کیسی ویب سائٹ دیکھ رہے ہیں؟کیا
سرگرمیاں ہیں؟ وغیرہ وغیرہیہ ہم سب کومل کر کرنا ہے، بطور والدین اور
معاشرہ۔ گذشتہ دنوں کے اخبار اٹھا کر دیکھ لیں، نیوز چینل دیکھ لیں، سوشل
میڈ یا کے منفی استعمال بارے ایک ہی نوعیت کی خبریں اور واقعات جس تواتر سے
آ رہے ہیں،اس بات کی جانب اشارہ ہے،اب جو کرنا ہے والدین نے کرنا ہے۔ریاست
شاید پوری طرح اپنا کردارادا کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ ریاست یعنی حکومت
اور تمام آئینی ادارے جن معاملات میں ملوث ہو گئے ہیں اس میں معاشرہ نظر
انداز ہوگیا ہے۔ معاشرے کی بقاء خطرے میں ہے۔اس لیے آئیں، ظلمت شب پر شکوہ
کرنے کی بجائے اپنے حصے کی کوئی شمع جلائیں۔
|